Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Pti Phans Gayi

Pti Phans Gayi

پی ٹی آئی پھنس گئی

یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی وکیلوں کے حوالے ہے اور ان وکیلوں کے حوالے ہے جو مؤکل کو پھانسی کے پھٹے تک پہنچاکر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں مزید فیس دو، بازی پلٹ جائے گی۔ یہ وکیل ان یوٹیوبروں کی کاپی ثابت ہوئے ہیں جو ہر روز بے پرکی چھوڑتے ہیں۔ کبھی بتاتے ہیں کہ جیل میں فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے ملاقات کی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ عمران خان نے مفاہمت کا ایک اور پیغام مسترد کردیا ہے۔

غلطیوں کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب عمران خان ابھی ایوان وزیراعظم میں تھے۔ وہ مقتدر حلقوں کا اعتماد کھوچکے تھے۔ انہیں تحریک عدم اعتماد کے بعد عوامی رابطہ تحریک چلانی چاہئے تھی اور پارلیمنٹ میں پی ڈی ایم حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہئے تھا مگر انہوں نے قومی اسمبلی توڑنے کی غیر آئینی حرکت کی۔

میں کون کون سے بلنڈر کی بات کروں، توشہ خانہ کی گھڑی کو غیر محتاط انداز میں بیچنا، سائفر لہرانا، بار بار منع کئے جانے کے باوجود صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا، آرمی چیف کی تقرری کے موقعے پر لانگ مارچ کرنا اور سب سے بڑھ کے نومئی برپا کرنا غلطیوں کے پہاڑ تھے۔ انہوں نے گرفتاری کے بعد پارٹی غیر سیاسی وکیلوں کے حوالے کر دی اور سیاسی لوگوں کو خود سے دور کر لیا، یہ وہ غلطی تھی جو بہت ساری دوسری غلطیوں کی بنیاد بنی۔

میں نے کہا کہ غلطیوں کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب وہ ایوان وزیراعظم میں تھے جیسے پارٹی انتخابات نہ کروانے کی غلطی۔ یہ معمول کے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی گئی اورپھر جب انتخابات کروائے توپشاور کے نواحی گاؤں رانو گڑھی پہنچ گئے۔ عہدیداروں کی نامزدگی سے ان کے کاغذات کی وصولی اور نتائج کے اعلان تک ہرجگہ غلطیاں کی گئیں۔ یہ مخالفین کو دعوت تھی کہ وہ فائدہ اٹھائیں۔

الیکشن میں بہت ساری سیٹیں جیتنے کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب سب کچھ ان کے قبضے میں آ گیا ہے۔ یہ نومئی کی شام جیسا خیال تھا کہ ان کے کارکن جی ایچ کیو اور کو رکمانڈر ہاوسز پر قبضہ کر لیں گے اور وہاں سے نکلنے والے قافلے عمران خان کو رہا کروا لیں گے۔ ایسی احمقو ں کی جنت نہ آج تک کسی نے سجائی اور نہ آئندہ کوئی سجائے گا۔ جن وکلاکو کمانڈ دی گئی یہ وہ تھے جو بہرحال پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا اور رکن قومی اسمبلی بننا چاہتے تھے، وہ کامیاب ہو گئے، مگرانہوں نے پی ٹی آئی کو ڈھیر ساری سیٹیں جیتنے کے باوجود جس بند گلی میں پہنچا دیا ہے اس کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔

الیکشن جیتنے کے بعد کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کے پاس بہت سارے پتے موجود ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا کارڈ یہ نکالا کہ پی ٹی آئی کے آزاد ارکان مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہو جائیں گے مگر اس پر کئی لوگوں کے تحفظات تھے۔ یہ ابھی بلے با ز پر دھوکا کھا کے پلٹے تھے۔ یہاں جماعت اسلامی اور جے یو آئی شیرانی کے آپشنز بھی لائے گئے اور پھرسنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا جو خود آزاد جیت کے آئے تھے ان کی پارٹی میں کامیاب ارکان کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھیج دیا گیا۔

کہا جا رہا ہے کہ مجلس وحد ت المسلمین شامل ہونے کا فیصلہ اس لئے بدلا گیا کہ اس نے ایک بھی سیٹ نہیں جیتی تھی تو میں انتہائی احترام کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ حامد خان سے بیرسٹر گوہر، علی ظفر اور لطیف کھوسہ تک کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ سنی اتحاد نے کتنی سیٹیں جیتی ہیں جس میں وہ شامل ہونے جا رہے ہیں۔ کیا انہوں نے اس بات پر غور کیا تھا کہ جب ایک بار یہ آزاد ارکان اسمبلی کسی پارٹی کو جوائن کر لیں گے تو پھر پانچ برس تک اسے نہیں چھوڑ سکیں گے اور اگر چھوڑنے کی کوشش کی تو ان پرڈیفیکشن کلاز لگ جائے گی۔ یہ ایک بہت ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔

پی ٹی آئی نے صاحبزادہ حامد رضا کی جماعت پر اعتماد کیا ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں، صاحبزادہ حامد رضا، صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مرحوم کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے جے یو پی نیازی کی طرف سے شہباز شریف سے پنجاب میں اوقاف کی وزارت لی تھی مگر جب مولانا نیازی، شہباز شریف سے بوجوہ ناراض ہوئے تھے تو حاجی فضل کریم نے وزارت چھوڑنے سے انکا رکر دیا تھا۔ اس وقت تنازع یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں جانے کا فیصلہ کس نے کیا تھا اور کوئی بھی اس حماقت، کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہا حالانکہ جب یہ کام کیا گیا تو اس وقت یہ خان کا چھکا تھا جو لگنے کے بعد ہمیں کیچ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ایک تجویز یہ دی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان مل کر حامد رضا کو قیادت سے ہٹا سکتے ہیں یعنی عدم اعتماد جیسی کوئی صورت مگر وہ بھول رہے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی، مدر پارٹی کے سربراہ کو نہیں ہٹا سکتی۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا انضمام یا ادغام ہوجائے مگر یہ بھی حامد رضا کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا اب انہیں بہر صورت صاحبزادہ حامد رضا کو خوش اور مطمئن رکھنا پڑے گا اور شیر افضل مروت جیسا ہردوسرا بندہ ان کی پگڑی نہیں اچھال سکے گا۔

مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کیسے بڑے بڑے وکیل ہیں جنہوں نے ا س صورتحال کے فائر بیک کرنے کے امکانات پر توجہ ہی نہیں دی۔ عمران خان یقینا وکلا کے حوالے سے اسی صورتحال کا شکار ہیں جس کا ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔ یہ نااہلی اور ناکامی والی صورتحال ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر صاحبزادہ حامد رضا نے پی ٹی آئی کو ان کے تمام اسمبلیوں میں موجود سینکڑوں ارکان واپس کرنے سے انکا رکر دیا تو وہ کیا کریں گے؟ یہ سوال اس لئے پوچھا جا رہا ہے کہ شیر افضل مروت سمیت دیگر کی طرف سے بیانات آنے کے بعد صاحبزادہ حامد رضا بھی غصے میں ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ٹی وی پروگراموں میں بہت کچھ بیان کرسکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا حامد رضا دھمکیاں دینے کی پوزیشن میں ہیں تو اس کاجواب ہے سو فیصد، ان کے پاس کھونے کے لیئے اپناکیا ہے، جو کچھ گنوائے گی پی ٹی آئی گنوائے گی۔ اس وقت پی ٹی آئی کی حمایت والے تمام ارکان اسمبلی کے ڈی فیکٹو (یعنی حقیقی) سربراہ چاہے عمران خان ہو مگر ڈی جیرے (یعنی قانونی) سربراہ حامد رضا ہی ہیں۔ کسی بھی تنازعے کی صورت میں پی ٹی آئی ارکان کے پاس آزادی کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑیں تاکہ قانونی طور پر عمران خان کو اپنا قائد کہہ سکیں جو وفاق اور پنجاب میں قائم ہونے والی حکومتوں کے بعد کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تھوڑے کہے کو بہت جانیں، وہ پاکستان کی امداد رکوانے کے لئے مظاہرے کرکے اب تک اپنے ہاتھوں سے بنائے اپنے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں۔

Check Also

Pakistan Ke Door Maar Missile Programme Se Khatra Kis Ko Hai

By Nusrat Javed