Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Molana, Basad Ehteram, Madrasay Factoriyan Nahi Hain

Molana, Basad Ehteram, Madrasay Factoriyan Nahi Hain

مولانا، بصد احترام، مدرسے فیکٹریاں نہیں ہیں

مولانا، بصد احترام، جب مدرسے کارخانے نہیں ہیں تو پھر ان کی رجسٹریشن بھی محکمہ صنعت و حرفت میں نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ایک بنیادی اور کامن سینس کی بات ہے۔ میں مدرسوں کو دین کے قلعے سمجھتا ہوں اور قرآن و حدیث کی تفہیم کے مراکز۔ چاہے علمائے کرام لینڈ کروزروں پر نظر آئیں اور ان کے ساتھ بھاگتے ہوئے بہت سارے بندوقوں والے مگر اس کے باوجود مدارس کو نوٹ چھاپنے والے کارخانے نہیں کہا جا سکتا اوریہ محض میرا مؤقف نہیں ہے بلکہ ان تمام علمائے کرام کا ہے جو چالیس برس سے مدرسوں کو انڈسٹریز ڈپیارٹمنٹ کی بجائے وزارت تعلیم میں رجسٹرڈ کرنے کامطالبہ کررہے ہیں اور آپ بھی جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مست ملنگ بلیغ الرحمان وزیر تعلیم ہوا کرتے تھے اور معاہدہ اس وقت ہوا تھا جب شفقت محمود کے پاس وفاق میں تعلیم کی وزارت تھی لہٰذا یہ کوئی مسلم لیگ نون کا معاملہ نہیں ہے، اس پر پوری قوم کا اجتماع ہے۔

مولانا، بصد احترام، جب ہم مدرسوں کی بات کرتے ہیں تو وہاں نصاب کی بھی بات ہوتی ہے۔ اس پر بھی اتفاق رائے ہوچکا کہ ہمارے مدارس جب درس نظامی کروا رہے ہوں گے تو اس کے ساتھ ساتھ انگریزی، حساب اور مطالعہ پاکستان جیسے عصری علوم کی بنیادی تعلیم بھی دیں گے اور آگے بڑھ کے کمپیوٹر یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بھی۔

وزارت تعلیم میں ڈی جی آر ای یعنی ڈائریکٹوریٹ جنرل فار ریلجیس ایجوکیشن اسی لئے قائم کیا گیا کہ وہ جدید انداز میں مدرسوں کی رجسٹریشن کرے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق وہاں اٹھارہ ہزار مدرسوں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے اور اس اہم کام میں برسوں لگے ہیں۔ اب اگر ہم ریورس گئیر لگا دیتے ہیں تویہ ساری محنت ضائع ہوجائے گی اور بچے ایک مرتبہ پھر لاوارث۔ کیا ہم اس کو افورڈ کرسکتے ہیں، ہرگز نہیں۔

مولانا آپ کو بھی علم ہے کہ محکمہ صنعت، مدارس کے نصاب پر نظر نہیں رکھ سکتا کہ وہاں پرفرقہ واریت یا انتہا پسندی کی تعلیم تو نہیں دی جا رہی۔ یہ کام ایک سپیشلائزڈ ڈائریکٹوریٹ ہی کر سکتا ہے۔ ہمیں نصاب پر توجہ دینے کی اس لئے ضرورت ہے کیونکہ ہم نے نوے کی دہائی سے مشرف کے دور تک اس نفرت اور انتہا پسندی کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ میں آپ سے اس وقت بھی ملتا رہا ہوں جب آپ سب نے مل کر ملی یکجہتی کونسل قائم کی تھی (وہی ملی یکجہتی کونسل کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دفاع افغانستان کونسل بنی تھی اوراس کے بعد متحدہ مجلس عمل) تب آپ ریفارمز کے حامی تھے کیونکہ اس وقت آپ سسٹم کے بینفیشریز میں تھے۔

مولانا، بصد احترام، آپ کے لونڈے لپاڈے جس قسم کی سوشل میڈیا پر گفتگو کر رہے ہیں وہ پی ٹی آئی کی زبان ہے اور آپ کے کارکنوں کو نمک کی کان میں مل کر نمک نہیں ہونا چاہئے۔ گالی گلوچ کا معاملہ کبھی ملاقات ہوئی تو سکرین شاٹس کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں گا مگر اعتراض یہ بھی ہے کہ ڈی جی آر ای کی سربراہی ایک ریٹائرڈ فوجی کیوں کر رہا ہے تومجھے نہایت ادب سے پوچھنا ہے کہ آپ کو یہ اعتراض فروری میں ہونے والے انتخابات سے پہلے بھی تھا یا فوج پر تمام اعتراضات اس کے بعد ہوئے جب آپ انتخابات ہارے۔

تب تو مجھے یاد ہے کہ آپ فوج کے ترجمان بن کے انتخابات تک مزید ملتوی کرنے کامقدمہ لڑتے تھے اور مطمئن تھے کیونکہ گورنری اور وفاقی وزارتیں تک آپ کے اپنے گھر میں تھیں۔ آپ نے فروری کے انتخابات کے بعد جو لائن لی ہے اس نے واقعی مایوس کیا ہے۔ آپ بڑے آدمی ہیں اور ایک بہت ہی بڑے والد کے فرزند۔ آپ سے انفرادی، سیاسی اور گروہی سے کہیں زیادہ قومی اور ملی کردار کی توقع ہے۔ مولانا، بصد احترام، انتہا پسندی ہو یا دہشت گردی، سٹیک ہولڈر وہی ہیں جو خوارجیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانیں قربان کر رہے رہے ہیں تاکہ آپ کی زندگیاں محفوظ رہیں، آپ اپنے بھائیوں، بیٹوں کی قربانیوں کا یہ بدلہ دیں گے؟

مولانا، بصد احترام، کیا یہ درست نہیں کہ اصل اعتراض کچھ اور ہے اور وہ، یہ ہے کہ پانچ وفاقوں (بورڈوں) کو دس میں کیوں بدلا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پانچ اداروں کو ڈگری ایوارڈنگ سٹیٹس کیوں دیا گیا کیونکہ اس نے ان پانچ وفاقوں کو بے حدمتاثر کیا اور بہت سارے ادارے اور سٹوڈنٹس باہر نکل گئے۔ یہ بڑا نقصان تھا اور اب وہی پانچ بورڈ آپ کے پیچھے ہیں۔ میں جانتا اور مانتا ہوں کہ مفتی منیب الرحمان بھی بڑے آدمی ہیں مگر آپ کی طرح وہ بھی غصے میں ہیں اور اس وقت سے ہیں جب انہیں روئیت ہلال کمیٹی کی چئیرمینی سے ہٹایا گیا تھا حالانکہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مفتی منیب الرحمان کا مقام اس چیئرمینی سے کہیں زیادہ کا ہے مگرانہوں نے تب سے اپنی رائے بدلی۔

مولانا بصد احترام، کہیں یہ اختلاف نوکریوں کاتو نہیں کیونکہ ذرائع کے مطابق اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب ہر مدرسے میں ایک بندے کی تقرری کا فیصلہ ہوا۔ تنظیموں نے اسے نوکریوں کا موقع سمجھا، مطالبہ کیا کہ تقرری ان کے دئیے ہوئے ناموں پرہوگی۔ مولانا، بصد احترام، جن سے آپ ناراض ہیں اور جو اصلاحات چاہتے ہیں انہوں نے گزارش کی کہ نام دینے پر نوکری دینے کا طریقہ درست نہیں۔ آپ سلسلے میں اخبارات میں اشتہار دیں، ایک میرٹ طے کریں اور اس پر نوکریاں دی جائیں، مولانا، بصد احترام، اس میں غلط کیا تھا جس پر سب برہم ہوئے اور ڈی جی آر ای سے لڑائی شروع کر دی؟

مولانا، بصد احترام، میں آپ کی فہم و فراست کا ہمیشہ سے مداح رہا ہوں مگر مجھے اس برس کے لئے معافی دیجئے۔ کیا مدارس کے یہ بچے ہمیشہ لاوارث ہی رہیں گے اورکیا انہی جدید عصری علوم سے ہمیشہ دور ہی رکھا جائے گا۔ میں مانتا ہوں کہ یونیورسٹیاں فقہ و حدیث نہیں پڑھاتیں مگر وہاں پہنچنے والے بچے اس سے پہلے انگریزی، حساب، مطالعہ پاکستان وغیرہ پڑھ کے آئے ہوتے ہیں۔ مولانا، بصد احترام، میں چاہتا ہوں کہ میرا مولوی، مصلے کو اپنا روزگار نہ بنائے۔ وہ ہنر منداور باکمال ہو لیکن اس کے لئے ہمیں پراناطریقہ بدلنا ہوگا۔ ہمیں ذاتی کی بجائے قومی مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ افسوسناک ہے کہ علمائے کرام ہی علمائے کرام کے سامنے ا ٓ گئے ہیں کیونکہ وہ ریورس گئیر نہیں لگانا چاہتے۔ وہ آگ کے جس گڑھے سے بڑی کوشش کے بعد باہر نکلے ہیں وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔

مولانا، بصد احترام، آپ کے لونڈے لپاڈے سوشل میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے موقعے پرکیا گیا وعدہ توڑا گیا۔ یہ بات درست نہیں۔ حکومت مسلم لیگ نون کی ہے اور اس نے آپ سے وعدہ کیا ہوابل پارلیمنٹ سے منظور کرکے بھیج دیا اوراس کے بعدایوان صدر نے اعتراض لگایا۔ پیپلزپارٹی سے معاملات آپ خود طے کرتے رہے ہیں دوبارہ طے کر لیجئے کہ آپ دونوں ہی سیاسی میدان کے اچھے کھلاڑی ہیں مگر سوال وہی ہیں کہ کیا مدارس کوکارخانے سمجھا جانا چاہئے اور کیا ان کے نصاب کو ریگولیٹ نہیں ہونا چاہئے؟ مولانا، بصد احترام، فرمائیے اس میں کیا غلط بات ہے؟

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari