مریم نواز کی کارکردگی
کیا یہ مناسب ہے کہ ہم تین ہفتوں کے بعد کسی سیاسی رہنما کی کارکردگی پر بات کریں جو پانچ برس کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آیا ہو۔ جی ہاں، یہ ہرگز مناسب نہیں لیکن اگر تین ہفتوں کی یہ کارکردگی حیران کن ہو، اندازوں اور توقعات سے بہت بہتر ہو تو ستائش ضرور ہونی چاہئے۔ پنجاب اس حوالے سے خوش قسمت رہا ہے کہ عارف نکئی اور عثمان بزدار کے دو منفی تجربات کے علاوہ اسے اچھے منتظم ملے۔
آج بھی پنجاب کو آدھے سے زیادہ پاکستان ہونے کے باوجود دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں انفراسٹرکچر ہی نہیں تعلیم اور صحت سمیت بہت سارے شعبوں میں بہت بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ابھی دو روز قبل مریم نواز پی آئی سی کے سرپرائز وزٹ پر تھیں تو وہاں انہیں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی دل کی مریض ایک خاتون ملیں۔ مریض خاتون نے برملا اعتراف کیا کہ پنجاب میں علاج بہتر بھی ہے اور مفت بھی۔
پی آئی سی، مریم نواز کے والد کے دور کا بنا ہوا ہسپتال ہے۔ مجھے کچھ عرصہ قبل چلڈرن ہسپتال میں جا کے پروگرام کرنے کا موقع ملا۔ وہاں خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان اور افغانستان سے مریض بچے بھی موجود تھے۔ وہ علاج جس کا کے پی کے ہسپتال اٹھارہ سے ستر لاکھ تک مانگ رہے تھے، وہ یہاں مفت ہو رہا تھا، انہیں سرائے میں کھانا بھی مل رہا تھا۔
میرا اندازہ تھا کہ مریم نواز بطور وزیراعلیٰ ناکام نہیں ہوسکتیں مگران کا آغاز ہی اتنا شاندار، ٹھوس اور کامیاب ہوگا اس کی بھی توقع نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ وزارت اعلیٰ ان کے بچپن سے ہی ان کے گھر میں رہی ہے۔ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تو وہ طالب علم تھیں۔ انہوں نے اپنے والد کو بطور وزیراعلیٰ اور بطور سیاستدان کام کرتے ہوئے دیکھا۔
میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو وزارت اعلیٰ چچا کے پاس آ گئی۔ وہ بھی گھر ہی کی بات تھی۔ انہوں نے اپنے والد اور چچا کو ایشوز سے نمٹتے ہوئے اور بیوروکریسی سے ڈیل کرتے ہوئے دیکھا ہے سو بڑے بڑے افسر، ان کی لمبی لمبی بریفنگز اور کام نہ کرنے کے بہانے ان کے لئے نئے نہیں ہوسکتے اور خاص طور پر اس صورت میں جب میاں نواز شریف ان کی رہنمائی کر رہے ہیں اور انہیں ہر اجلاس اور ہر فیصلے پر گائیڈ کرنے کے لئے والد کی طرح محترم اور اتنے ہی تجربہ کار انکل، پرویز رشید بھی ان کے ساتھ موجود ہوں۔
اجلاسوں میں پرویز رشید جہاں سمجھتے ہیں فوری لقمہ دیتے ہیں، گائیڈ کرتے ہیں اور مریم نواز کے لئے ان کی ایک طویل عرصے کی سرپرستی اور رہنمائی کے بعد نہ یہ کوئی عجیب بات ہے اور نہ ہی ناگوار۔ یوں بھی یہ خاندان اپنے بزرگوں کا حد سے زیادہ احترام کرنے والا ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی کو ایک بڑی سہولت یہ دی ہے کہ پرویز رشید ہوں یا مریم اورنگزیب اور عظمیٰ زاہد بخاری، ان کی پسندیدہ اور کمفرٹ ایبل ٹیم ان کے ساتھ کر دی ہے۔
صحت میں خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کی دوبارہ انٹری ہوئی ہے حالانکہ وہ اب کسی دوسری، بڑی اور طاقتور وزارت میں بھی جا سکتے تھے۔ یہ بات کوئی وائے ڈی اے اور پی ایم اے سے پوچھے کہ ان کا بائی برتھ مطالبہ رہا تھا کہ کوئی ڈاکٹر ان کا وزیر ہو۔ سلمان رفیق اور عمران نذیر دونوں ہی ڈاکٹر نہیں ہیں مگر جو ڈاکٹر وزیر اس کمیونٹی کو ملیں، انہوں نے اس پر کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔
سب سے بڑا المیہ تو یہ رہا کہ پی ٹی آئی کے پورے دور میں کسی ڈاکٹر اور کسی ٹیچر کو ملازمت نہیں ملی۔ بے روزگاری کا ایک طوفان آچکا ہے۔ یہی بات وزیرتعلیم رانا سکندر حیات کر رہے تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی وزارت سنبھالتے ہی اساتذہ کے ساتھ پنچایتیں کرکے سب کو حیران کر دیا ہے کیونک اس سے پہلے جو بھی وزیر آتا تھا وہ بڑے بڑے بیوروکریٹوں کی گود میں جا کے بیٹھ جاتا تھا۔ استاد ہی تعلیم کے شعبے کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے مگر اس سے کچھ دیر کی ملاقات کا تکلف ہی مہینوں بعد ہوتا تھا۔
میں، وزیراعلیٰ مریم نواز کے تمام پراجیکٹس پر یہاں بات نہیں کرسکتا کیونکہ اخبار کے محدود صفحات پر کالم کے لئے مختص جگہ بھی کم ہوتی ہے۔ میں نے اب تک سیاسی منتظمین کو دو طرح سے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک کاسمیٹک سرجری ہوتی ہے اور دوسرا حقیقی علاج۔ مریم نواز صوبے کو لاحق امراض کا حقیقی علاج بھی کر رہی ہیں اور کاسمیٹک سرجری کے تقاضے بھی پورے کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیائی دور کے بعد ایک ایسی ہی کرزمیٹک لیڈر شپ کی ضرورت تھی جو مسائل کا حقیقی ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تسلی تشفی بھی کرسکے۔
وزیراعلیٰ کمال کرتی ہیں کہ وہ عام عورتوں کے ساتھ ایسے گھل مل جاتی ہیں جیسے ان ہی کے ساتھ پلی بڑھی ہوں۔ مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے تک ڈریسز، بیگز، سینڈلز اور کافی مگ تک برینڈ بنے ہوئے تھے مگر میں نے انہیں ایک سفید چادر میں لپٹے ہوئے جب دیکھا تو یہ بہہت متاثر کن اور بہت حیران کن تھا۔ وہ عام عورتوں سے سہیلیوں کی طرح پوچھتی نظر آ رہی تھیں کہ وہ آج کیا پکا رہی ہیں۔ وہ بہنوں کی طرح لڑکیوں کو گلے سے لگا رہی تھیں اور انہیں دیکھ کر خوشی سے بے حال بچوں کو ایک ماں کی طرح پیار کر رہی تھیں۔
مجھے علم ہے کہ ان کی یہ ویڈیوز بہت ساروں کو آگ لگا رہی ہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس صوبے کے تین، چار برس ضائع کئے ہیں۔ لاہور کے گلی محلوں کو کچرا کنڈی اور اس کی سڑکوں کو کھنڈر بنایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عثمان بزدارا ور علی امین گنڈا پور کی وزارت اعلیٰ کو شعور سمجھتے ہیں اور مریم نواز کی محنتی اور کرشماتی وزارت اعلیٰ انہیں پسند نہیں آتی، یہ شعور نہیں تعصب اور جہالت ہے۔
یہ درست ہے کہ عثمان بزدار کے دور کی بہت ساری لیٹ، محسن نقوی نے نکالی ہے مگر محسن نقوی کے مقابلے میں مریم نواز کے پاس پانچ برس ہیں اور ان پانچ برسوں کے پیچھے تیس سے چالیس برس کا تجربہ ان کی رہنمائی کے لئے موجود ہے۔ مریم نواز ایک لاکھ گھر بنا رہی ہیں۔ وہ صحت کے شعبے میں پورا نیا انفراسٹرکچر کھڑا کر رہی ہیں۔ وہ اپنے صوبے کو صاف کر رہی ہیں۔ اس کی گلیوں اور سڑکوں کو پختہ کر رہی ہیں۔ ہر شہر کو سمارٹ سٹی بنا رہی ہیں۔ مفت وائی فائی واپس لا رہی ہیں۔ وہ آئی ٹی سٹی بنا رہی ہیں۔ انہوں نے تین ہفتوں میں وہ تعمیر و ترقی کی وہ بنیاد رکھ دی ہے جس پر پانچ برسوں میں ایک بے مثال صوبہ بن سکتا ہے۔
میں ایک بہت ہی امیر اور طاقتور گھرانے کی ناز و نغم میں پلی بیٹی سے بطور وزیراعلیٰ اس شاندار آغاز کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے بلاشبہ کامیاب اننگز کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔ شریف فیملی کی روایت ہے کہ جو وزیراعلیٰ بنے وہ وزیراعظم بھی بنتا ہے اور ایک سے زائد مرتبہ بنتا ہے۔