ملک ریاض سے معذرت
میں بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض سے معذرت ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس وقت کر رہا ہوں جب میں نے انہیں اور ان کے صاحبزادے علی ریاض کو دُبئی کے شیوخ کے ساتھ دُبئی سائوتھ، کے نام سے ایک نیا، بڑا اور جدید شہر بنانے کا معاہدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ شہر دنیا کے بڑے المکتوم ائیرپورٹ کے پاس بسایا جا رہا ہے جو نیوز رپورٹس کے مطابق تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی مثالی ہوگا۔
میں یہ معذرت اس لئے کر رہا ہوں کہ ہم پاکستانی اپنے ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جسے ہم کچھ نیا اور کچھ الگ کرتے، کوئی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ڈی ایچ ایز کے بعد سب سے بہتر رہنے کی جگہ بحریہ ٹاؤنز ہی ہیں چاہے وہ لاہور میں ہو، کراچی یا اسلام آباد میں۔ مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ جب ہر طرف ہاؤسنگ سوسائیٹز کے فراڈ ہو رہے ہیں تو ان میں ڈی ایچ ایز اور بحریہ ٹاؤن ہی ایسے ہیں جن پراپنی بچتوں یا سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے ہمارے بیرون ملک پاکستانی سب سے زیادہ اعتماد اور اعتبار کرتے ہیں۔
میں جب بھی بحریہ ٹاؤن میں جاتا ہوں تو اس کی تعریف کرتا ہوں۔ مجھے لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں ڈیزائننگ کے لئے بنی ہوئی گائیں اور بھینسں اچھی نہیں لگتیں مگر بہت سارے ایسے بھی ہوں گے جن کو اچھی لگتی ہوں گی، ان کی ایستھے ٹِک سینس کے مطابق شاندار ہوں گی مگر وہاں کی جامع مسجد سے جعلی ایفل ٹاور تک سب کچھ شاندار ہے، مزے دار ہے۔
مجھے علم ہے کہ بہت سارے لوگ میرے اس کالم پر اعتراض کریں گے مگر کیا ہمیں ہر وقت تنقید کرنے والوں، گالیاں دینے والوں اور نفرت کرنے والوں کو اہمیت دینی چاہئے۔ تنقید وہیں ہوتی ہے جہاں کوئی کچھ کرتا ہے اور اگر کوئی کچھ نہیں کرے گا تو اس پر تنقید بھی نہیں ہوگی جیسے مجھے یہاں پنجاب کا سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار یاد آ رہا ہے کہ اس نے کچھ کیا ہوتا تواس پر تنقید ہوتی۔
ظاہر ہے پنجاب میں آپ نے تنقید کرنی ہے تو آپ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے علاوہ پرویز الٰہی پر ہی کریں گے جنہوں نے کچھ کیا بلکہ بہت کچھ کیا لہٰذا ان پر تنقید بھی بہت کچھ ہوسکتی ہے۔ بہت سارے کہہ سکتے ہیں کہ میری یہ معذرت بعدا ز وقت ہے مگر میرا کہنا ہے کہ غلطی کا اعتراف کبھی تاخیر نہیں ہوتا بلکہ یہ اس غلطی سے آزاد ہو کے آگے بڑھنے کا آغاز ہوتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ہم جہنم میں پہنچیں گے تو ہم واحد قوم ہوں گے جن کے آگ سے بھرے گڑھے پر کوئی فرشتہ بطور چوکیدار نہیں ہوگا مگر باقی سب اقوام کے گڑھوں پرہیبت ناک فرشتے ہوں گے جو جہنم کے اس گڑھے سے نکلنے والوں کو واپس پھینک رہے ہوں گے۔ ہم پر اس لئے کوئی مقرر نہیں ہوگا کیونکہ ہم پاکستانی اپنا اپنا عذاب جھیلتے ہوئے ساتھ میں ہر اس پاکستانی کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہوں گے جو باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہوگا۔
میرے ایک رشتے دار گجرات میں رہتے تھے۔ وہ گجرات کے مرکز میں واقع ایک مشہور برگر شاپ ہو یا جی ٹی روڈ پر واقع میاں جی کی دال والا ریسٹورنٹ، ان سب کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے مطابق، یہ لوگ ان کے سامنے ہی ڈھابے بنا کے بیٹھے تھے اور لوگوں کو لوٹ کے امیر اور کامیاب ہوگئے۔ خیر، میں انہیں ایک دن میاں جی کی دال کھلانے کے لئے لے گیاا ور ساتھ میں ملائی کا پیالہ بھی منگوا لیاجو انہوں نے تندوری پراٹھے کے ساتھ بہت چسکے لے لے کر کھایا۔ میں نے اس قسم کی باتیں ملک کی معروف کاروباری شخصیت میاں عامر محمود کے بارے بھی بار بار سنیں کہ وہ تو موٹرسائیکل پر گھوما کرتے تھے اور آج وہ ارب پتی ہیں تو بھائی اعتراض کیسا، تم بھی ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ، کیوں نہیں ہوتے؟
مجھے یہ بھی علم ہے کہ بہت سارے کہیں گے کہ ملک ریاض نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کی زمین کیوں دی، بشریٰ بی بی کوسونے کی قیمتی انگوٹھیاں وغیرہ کیوں تحفہ کیں اور یہ بھی کہ آصف زرداری کو لاہور میں قلعہ نما بلاول ہاؤس بنا کے گفٹ کیوں کیا مگر میں جواب میں کہوں گا کہ اصل سوال تو ان سے ہونا چاہئے جنہوں نے یہ سب کچھ لیا۔ ملک ریاض تو وہی کچھ کر رہے تھے جو اس ملک میں چل رہا تھا مگر جن عمران خان تو ثاقب نثار کے صادق اور امین تھے۔ جب ایک کاروباری کاروبار کرنے کے لئے نکلتا ہے تو وہ اپنا کام نکلوانے کی ہی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کاایک کروڑ روپیہ، ایک لاکھ روپے رشوت کی وجہ سے ڈوب رہا ہو تو یہ بہت بڑی حماقت ہوگی اگر وہ ایک لاکھ روپے دے کر اپنا ایک کروڑ نہیں بچائے گا۔
اصل سوال تو ان سے ہونا چاہئے جن کا فرض ہے کہ وہ ایک لاکھ روپے رشوت نہ لینے دیں۔ پوری دنیا میں ہر بزنس مین ٹیکس چوری کرنے کی کوشش کرتا ہے اوراس کے لئے بڑے بڑے کارپوریٹ لائرز اس کی مدد کرتے ہیں اور جواب میں یہ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس چوری کو روکے۔ وہ کاروبار کو نہیں روکتے بلکہ چوری کو روکتے ہیں۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ جب آپ کے ناخن بڑھتے ہیں تو آپ بڑھے ہوئے ناخن کاٹتے ہیں انگلیاں ہی نہیں کاٹ دیتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بحریہ وغیرہ لوگوں کی زمینیں لے لیتے ہیں لیکن اگر آپ اس اعتراض کو مان لیں تو پھر کوئی نہ سڑک بنے اور نہ ہی نئی ہاؤسنگ سکیم۔ باقی رہ گئے زمینوں کے تنازعات، اس پر کسی ہاؤسنگ سکیم والے کی کیا بات کریں، ہماری سول کورٹس بھائیوں کے بھائیوں سے مقدمات سے بھری پڑی ہیں۔
میری معذرت میرے افسوس سے جڑی ہوئی ہے کہ اب ملک ریاض اور ان کی کمپنی کی توجہ پاکستان کوبنانے اور سنوارنے پر نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنی توجہ اور سرمایہ دبئی کو بنانے اور سنوارنے پر خرچ کر دیں گے۔ آپ نے ملک ریا ض کو پاکستان میں کاروبار کرنے سے روکا، اس پر حملے کئے تو وہ دبئی چلے گئے۔ اس میں شروع شروع میں ملک ریاض کا کچھ نقصان ہوا ہوگا مگر اصل نقصان تو پاکستان کا ہوگیا اور اس نقصان کو پاکستان سے محبت کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں، وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ پاکستان بنے اور سنورے۔ کوئی تو دیکھے کہ اچھرے، شاہدرے اوربحریہ ٹاؤن میں کیا فر ق ہے۔ اگر کسی کو پھر بھی اس پر اعتراض ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس سے بہتر سکیم بنا کے دکھائے۔
میرے ایک صحافی دوست کہا کرتے ہیں کہ ٹی وی کی صنعت میں مالکان کو وہی صحافی اچھے لگتے ہیں جو ان کے ٹی وی چینل سے باہر ہوتے ہیں اور میری بھی اس وقت پاکستان کے حوالے سے مالکانہ، مالکانہ سی فیلنگ آ رہی ہے۔ مجھے وہ ملک ریاض شاندار لگ رہا ہے جوہمیں چھوڑ کے دبئی کے صحرائوں میں ایک نیا شہر آباد کرنے چلا گیا ہے۔