Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Main Aman Moahide Ke Sath Hoon

Main Aman Moahide Ke Sath Hoon

میں امن معاہدے کے ساتھ ہوں

ہم دو برس سے، جی ہاں، 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک امن، امن، امن چیخ رہے ہیں۔ ہم غزہ میں ہر گھر، سکول اور ہسپتال کو کھنڈر بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ہم دعائیں کرر ہے ہیں کہ فلسطین میں جو 70 ہزار معصوم اور بے گناہ انتہائی تکلیف دہ موت کا شکار کر دئیے گئے جن میں بیس ہزار بچے بھی شامل ہیں، جی ہاں، ہرروز25 کے لگ بھگ بچے یعنی ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک بچہ یا اس سے بھی زائد، یہ سلسلہ رُکے۔

ہم دہائیاں دے رہے ہیں کہ مسلم ممالک اکٹھے ہو کر کوئی کردارادا کریں اور جب یہ سلسلہ اور ذریعہ بنا ہے تو کچھ گِدھ جنگ بندی اور امن معاہدے کے خلاف ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے دھندے فلسطین اور کشمیر کی لاشوں سے چلتے ہیں اوراگر لاشیں نہیں ملیں گی توان گِدھوں کے پیٹ کیسے بڑھیں گے، وہ پیٹ جو امت مسلمہ کے مفاد سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں، وہ پیٹ جو مسلمانوں کی زندگیوں سے بھی اہم ہوچکے ہیں، وہ پیٹ جن میں انہی ناموں پر چندے پڑتے ہیں۔

یہ کچھ ناکام اور مسترد شدہ عناصر ہیں، ان میں کچھ وہ ہیں جن کے بدنوں کو شہباز شریف اور عاصم منیر کے نام سے ہی پھریری آجاتی ہے، ان کے منہ سے غلاظت نکلنے لگتی ہے جو ان کے اندر بھری ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو جنرل شجاع پاشا سے جنرل فیض حمید تک کی چھتری سے اقتدار تک پہنچ گئے اور کچھ وہ ہیں جن کے پورے پورے حلقے کے ووٹ تین، تین سو نکلتے ہیں۔

اول الذکر تواس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کی امید پر ہی ناچ ناچ کے گھنگھرو توڑ رہے تھے، ان کی بیبیاں بے شرمی کے ساتھ اس کے ہم جنس پرست مشیروں کی بھی سوشل میڈیائی مالش کر رہی تھیں اور اب انہوں نے یو ٹرن لے لیا ہے بالکل اسی طرح جیسے جنرل باجوہ کو باپ کہنے سے یوٹرن لیا تھا۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ جس شہباز شریف اور جس عاصم منیر نے بھارت کو دس مئی کو شکست فاش دی اور سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرکے پاکستان کو جنوبی ایشیاء کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا بھی حصہ بنا لیا، اپنی سفارتکاری اور بہادری سے چین ہی نہیں امریکہ تک کا دل جیت لیا وہی شہباز شریف اور عاصم منیر فلسطین کے مسئلے پر بھی مجاہد ثابت ہوں گے، سرخرو ہوں گے۔ ہمیں بطور پاکستانی اپنی قیادت پر مکمل اعتماد ہے۔

میں اس معاہدے کو انتہا پسند یہودیوں کے گریٹر اسرائیل کے تصور کی بھی نفی بلکہ تباہی سمجھتا ہوں او رمیں نے یہ معجزہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم کو قطر کے وزیراعظم سے ذلت آمیز طریقے سے معافی مانگنی پڑی ہے۔ میں نے اسی معاہدے کے موقعے پر یہ بھی دیکھا ہے کہ امریکہ، اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے سے روک رہا ہے۔ میں اس امن منصوبے کی کیسے مخالفت کروں کہ اس سے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور امن فوج کے تعینات ہونے کی راہ نکل رہی ہے جس کے لئے انڈونیشیا نے بیس ہزار فوجی بھیجنے کی پیشکش بھی کردی ہے اور انشاء اللہ ہمارے فوجی بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جس سے اسرائیل کا مصر سے شام، عراق، اردن اور لبنان تک اپنی سرحدیں وسیع کرنے کا خواب ٹوٹ رہا ہے۔

میں نے اس سے پہلے بھی کالم لکھا اور پوچھا کہ اگر امن معاہدہ نہیں تو پھرا س کا متبادل کیا ہے۔ کیا اسی طرح جنگ جاری رکھی جائے۔ کون کہتا ہے کہ یہ امن معاہدہ مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے کہ اگر میرے ایک بھی فلسطینی بچے کی جان بچ جائے تو میں سمجھوں گا کہ یہ معاہدہ کامیاب ہوگیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت ہے کہ امریکہ نے اپنا 70 سالہ پرانا کردار تبدیل کیا ہے ورنہ اس سے پہلے امریکہ صرف اور صرف اسرائیل کی بات کرتا تھا مگر اس مرتبہ اسلامی ملکوں سے باقاعدہ مشاورت کی گئی، ان سے تجاویز لی گئیں۔

کیا کہا، کہ اس معاہدے کی کچھ شقیں مشکوک ہیں، مسلمانوں کے حق میں نہیں ہیں تو میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میرے نبی ﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا تھا جس پر بہت ساروں کو تحفظات تھے مگر میرے رب نے اسے فتح مبین قرار دیا تھا۔ یوں بھی ایسے معاہدوں میں سب کچھ ایک ہی فریق کے حق میں نہیں ہوتا، یہ کچھ لو اور کچھ دو ہوتا ہے اور اگر اس معاہدے کو نتن یاہو کا اتحادی اور وزیر خزانہ اپنے لئے ذلت آمیز کہہ رہا ہے تو یقینی طور پراس میں مسلمانوں کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے اور سب سے پہلے امن۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ہمیں انہی خوارجیوں کا سامنا ہے جن کا خلفائے راشدین کو سامنا تھا اور انہوں نے تین کو شہید بھی کردیا۔ یہ خود کوا سلام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ یہ ٹی ٹی پی کے بھی وکیل بنتے ہیں اور اب فلسطینی اتھارٹی اور حماس سے بڑھ کے فلسطینیوں کے مامے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سعودی عرب، مصر، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، یو اے ای، قطر وغیرہ سب سے بڑھ کے امت مسلمہ کے مفاد کے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ لوگوں کے سامنے ایک مثالیت پسندانہ حل رکھتے ہیں، وہ حل جس پر ستراسی برسوں میں ایک مرتبہ بھی عمل نہ ہو سکا۔ یہ بات نہیں کہ ہم مثالیت پسند نہیں، ہم بھی خواب دیکھتے ہیں مگرآئیڈیلزم کے ساتھ ساتھ رئیلزم کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔

آج شہباز شریف اور عاصم منیر کو ٹرمپ کا ایجنٹ کہنے والے ماضی میں سرسید احمد خان اور محمد علی جناح کو بھی انگریز کا ایجنٹ کہتے تھے مگر تاریخ اور نتائج سے ثابت کیا کہ ابوالکلام غلام یا مولانامودودی نہیں تاریخ کی درست سمت میں قائداعظم محمد علی جناح ہی تھے جو آئیڈیلزم کے ساتھ ساتھ ریئلزم یعنی پریکٹیکل اپروچ کے ساتھ چلتے تھے۔ انہوں نے برصغیر اور تاریخ کا نقشہ بدل دیا اور یہ سب ایک دوسرے کو کافر کہتے، ایک دوسرے کی پگڑیاں اور گردنیں اچھالتے ہی رہ گئے۔

میں جانتا ہوں کہ یہ بہت شاندار معاہدہ نہیں ہے مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ناگزیر ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو پھر وہی بمباری ہے جو دو برس سے جاری ہے۔ کاش کوئی حافظ نعیم اینڈ کمپنی سے پوچھے کہ وہ اس بمباری کو کیوں جاری رکھوانا چاہتی ہے جبکہ عمران خان اینڈ کمپنی کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ اس لئے فلسطینیوں کی موت کا کھیل جاری رکھوانا چاہتی ہے تاکہ اس کا کریڈٹ شہباز شریف اورعاصم منیر کو نہ ملے مگر وہ نواز شریف کی طرح بھولے نہیں جس طرح وہ پی ٹی آئی والوں کے غیر جانبداری کے دھوکے میں سعودی عرب، قطراور حوثی قبائل کی لڑائی میں آ گئے تھے اور اپنے دوستوں کو ناراض کر لیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ غزہ میں امن کا کریڈٹ شہبازشریف اور عاصم منیر کو ملے گا اوروہ بدنیت سازشی ناکام رہے گا جس کے اپنے بچے تک یہودیوں کے پاس گروی پڑے ہوئے ہیں کچھ سستے مفادات کی خاطر!

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan