کچھ غلط تصورات
ہم سب اپنے ذہنوں میں کچھ غلط خیالات پختہ کئے بیٹھے ہیں جیسے دیہات کے لوگ بہت معصوم، زندگی بہت سادہ ہوتی ہے، جیسے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے پہلے نوجوان نسل بہت فرمانبردار ہوا کرتی تھی، جیسے دیسی گھی اوردیسی کھانوں سے صحت ملتی ہے، جیسے کسی سیاسی انقلاب کے آنے سے زندگیاں بدل جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ابھی میں نے اپنی ایک سوشل میڈیا ایکٹویسٹ دوست کی پوسٹ دیکھی۔ وہ کہہ رہی تھیں، "جب گاؤں میں تھی تو سارا دن شلوار گھٹنوں تک اور قمیض کے بازو کہنیوں تک ننگے سر دوپٹہ سر پر باندھے گاؤں کی تقریبا ًساری خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی تھیں، پھر گھر میں اسی حلیے میں جانوروں کے کام اور گھر کی صفائی، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، حلیہ یہی رہتا تھا، آج بھی بہت ساری خواتین اسی طرح کام کرتی ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا"۔ اس پر نجانے کیوں مجھے حکایت اور اردو ڈائجسٹ میں چھپنے والی کار شلوار اور دوپٹہ، جیسی بہت ساری کہانیاں یاد ا ٓگئیں جو دیہی پس منظر کے ساتھ ہی بہت رنگین اور سنگین ہوا کرتی تھیں۔
میری رائے اس پر بہت مختلف ہے، میں شہروں کو بہت محفوظ سمجھتا ہوں کہ ان میں پرائیویسی زیادہ ہے اور ناجائز تعلقات بہت کم۔ مؤخرالذکر اس لئے بھی کم کہ جوائنٹ فیملی سسٹم بھی کم ہے اور دوسروں کے گھروں تک رسائی کی اجازت بھی۔ عورتوں میں اپنے حقوق کا ادراک بھی زیادہ ہے اور تعلیم کے ساتھ تفریح کے دوسرے مواقع بھی۔ ہمیں دور سے بہت ساری چیزیں جو بہت مسمرائزنگ لگتی ہیں ان کے اصل حقائق بہت مختلف ہوتے ہیں۔ دیہات سے نکلنے والے بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان صرف اس لئے دیہات نہیں چھوڑتے کہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں بلکہ بہت ساری سماجی اور خاندانی وجوہات بھی ہوتی ہیں، بہت ساری ناگفتہ!
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے پہلے نوجوان نسل بہت فرمانبردار ہوا کرتی تھی تومیں حیران ہوتا ہوں کہ پوری ایک صدی پہلے جب نہ بجلی عام تھی اور ٹیلی ویژن تو برصغیر میں آیا ہی نہیں تھا، انٹرنیٹ کی آمد بھی کوئی بیس پچیس برس پہلے کی کہانی ہے تو علامہ اقبال اور اکبر الہ آبادی جیسے شاعر کیوں نوجوان نسل کے شکوے کیا کرتے تھے۔ اقبال نے بانگ درا میں کہا، اٹھا کے پھینک دو باہر گلی میں، نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے۔
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی، جیسے خیالات والے اکبر الہ آبادی کا شعر ہے، ہم ایسی کُل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں، کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں۔ ہمیں تو ہابیل اور قابیل کے بارے ایسی روایات ملتی ہیں کہ حیران رہ جاتے ہیں کہ اس وقت کون سا ٹی وی اور کون سا انٹرنیٹ ہوا کرتا تھا۔ یہ اچھائی برائی بنیادی طورپر انسان کے خمیر کا حصہ ہے۔ میں نے آج کے دورمیں بچوں کو اپنے ماں، باپ کی جوتیاں سیدھی کرتے بھی دیکھا ہے اور کھاتے ہوئے بھی۔
دوسری آج سے ہزار کیا دو، تین ہزار برس پہلے بھی ناخلف موجود تھے جیسے حضرت نوح علیہ اسلام کا بیٹا۔ میری آبزرویشن ہے کہ فون اور انٹرنیٹ نے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا ہے ورنہ وہ ہوتے پہلے بھی تھے، ہاں، ذرا مشکل سے ہوتے تھے۔ بہت سارے لوگ پاکستانی ڈراموں پرکہتے ہیں کہ اس نے لڑکیوں کو بگاڑ دیا اور لڑکوں کو عشق معشوقی پر لگادیا، ارے بھلے لوگو، کیا ہیر رانجھا، سسی پنوں اورلیلیٰ مجنوں جو حرکتیں کرتے تھے وہ اے آر وائی، ہم اور جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامے دیکھ کے کرتے تھے؟
ایک اورغلط خیال یہ ہے کہ موجودہ دور کی خوراکیں بہت غلط ہیں اور یہ کہ خوراکیں تو پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ایک فقرہ عام کہا جاتا ہے کہ وہ بہت تگڑا ہے، وہ دیسی گھی کھا کے پلا ہوا ہے۔ سچ پوچھیں تو دیسی گھی ہو یا مکھن ملائی، اگرآپ انہیں کھا کے ہضم نہیں کرتے تو آپ اپنے اندر بیماریوں کا ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ پہلے زمانوں میں دیسی گھی کھانے والے وہی صحت مند رہتے تھے جو دن بھر کھیتی باڑی کرتے تھے یعنی جو کھاتے تھے اتنی کیلوریز خرچ بھی کرتے تھے ورنہ یہی ہوتا تھا کہ گھی کھا کھا کے اپنے دل کی نالیاں تنگ کر لیتے تھے اورہارٹ اٹیک سے مر جاتے تھے۔
بچے، جوان یہی کہتے تھے، ہائے ہائے، رات کو تو ابا جی صحیح سلامت سوئے تھے صبح اٹھے ہی نہیں، فرشتہ رات کو ہی لے گیا۔ چلیں ہم قیام پاکستان یعنی اصلی خوراکوں والے زمانے کی ہی اپنے خطے کی اوسط عمر گوگل کر لیتے تھے جو کہ پینتالیس سے سینتالیس برس تھی اور اب جعلی خوراکوں والے زمانے میں پینسٹھ، چھیاسٹھ برس سے بھی زیادہ ہے۔ زندگی کے یہ بیس برس کچھ کم نہیں ہوتے۔ آج کے دور میں بھی اگر آپ خالص گھی کھاتے ہیں مگر اسے ہضم نہیں کرتے تو وہ آپ کے لئے چاکلیٹ اور چپس سے بھی زیادہ برا ہے، ہلاکت خیز ہے۔
ہمارے بہت سارے بچے جب امتحانات میں فیل ہوتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ بل گیٹس بھی ناکام ہوا تھا اور کے ایف سی والا بابا بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ تعلیم کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ڈگری کا۔ وہ گن گن کے نوجوان بتاتے ہیں کہ اچھی ڈگریوں کے باوجود بے روزگار اور نامراد ہیں۔ وہ مثالیں دیتے ہیں کہ کھلاڑی اورجواری بننا زیادہ بہتر ہے لیکن سچ تویہ ہے کہ ان کی مثالیں لاکھ یا کروڑ لوگوں میں سے دو، چار کی ہوتی ہیں جبکہ ہمارے سامنے ایسی لاکھوں بلکہ کروڑوں مثالیں موجود ہیں کہ پڑھنے لکھنے والے بچے دیہات سے اٹھے، سی ایس ایس کیا، فوج میں کمیشن لیا یاکاروبار میں محنت کی توکروڑ اور ارب پتی ہو گئے۔ کوئی ڈی پی او بنا تو کوئی ڈی آئی جی، کوئی ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری بنا تو کوئی جج اور جرنیل۔ فیل ہونے والے نوے فیصد عملی زندگی میں بھی فیل ہی رہتے ہیں۔
ہمارے بہت سارے لوگوں کو انقلاب کا بھی انتظار رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی ماوزے تنگ یا خمینی جیسا لیڈر آئے اور سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لیڈر صدیوں میں ایک، دو ہی آتے ہیں جو انقلاب برپا کر دیں۔ ویسے انقلاب کو مثبت پیش رفت سمجھنا بھی ایک غلط فہمی ہے۔ انقلاب سب کچھ بدل کے رکھ دیتا ہے یعنی حکمرانوں کو پھانسیاں دے دیتا ہے اور جلاوطنوں کو حکمرانیاں مل جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں فیشن میں سب سے زیادہ اِن، فرنچ ریوولیوشن ہے جس میں کم و بیش پونے دو لاکھ شہری ہلاک ہوئے اور اس عرصے میں جاری جنگوں میں کوئی سات لاکھ فوجی مارے گئے۔ انقلاب بہت سارے نہلوں اور نکموں کی آخری امید ہوتی ہے کیونکہ وہ خود تو کچھ کما نہیں سکتے لہٰذا ان کا خیال ہوتا ہے کہ کوئی لیڈر انقلاب لائے گا، سارے امیروں کو مار ڈالے گا اور ان کی جائیدادیں، کارخانے اور زمینیں ان کے حوالے کر دے گا۔ انقلاب کی امیدیں رکھنے والے نکھٹو زیادہ تر بھوکے ننگے ہی مر جاتے ہیں اور اپنی اولادوں کو بھی غربت ورثے میں دے جاتے ہیں جبکہ وہ اصلاحات کے حامی خون بہائے بغیر صرف اپنی اہلیت اور محنت سے تبدیلیاں لاتے ہیں، اپنی زندگی میں بھی اور اپنے معاشرے میں بھی۔