انتخابات اپریل میں ہی ہوں گے
جب ہم خانصاحب اور ان کے ہم نواوں کو کہتے تھے کہ عام انتخابات ہونے کا ابھی کوئی امکان نہیں ہے تو ہمیں کہا جاتا تھا کہ تمہیں وہ نظر نہیں آتا جو ایک بڑے لیڈر کو نظر آتا ہے مگر اس بڑے لیڈر کا حال یہ نکلا کہ اسے یہ تک نظر نہ آیا کہ اس کی واہیات اور فحش گفتگو ریکارڈ ہورہی ہے اور ممکنہ طور پر اس کی ویڈیو بھی بن رہی ہے جس کے آنے کے چرچے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ بڑا لیڈر اپنے احمقوں کو احمق بنائے رکھنے کے لئے کہہ رہا ہے کہ اب ایسی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی آ گئی ہے جس کی بنی ہوئی ویڈیو فرانزک میں بھی فیک قرار نہیں پاتی یعنی بڑا لیڈر اس وقت ترقی یافتہ ممالک کے تحقیقی، تفتیشی اور عدالتی نظام سے بھی آگے ہیں جہاں ابھی تک بہرحال فرانزک رپورٹ پر ہی فیصلے ہوتے ہیں۔
وہ ذہنی غلاموں کو کہہ رہا ہے کہ اس کی جو ویڈیو آئے گی اگر اس کا فرانزک بھی ہوجائے تو وہ اسے فیک ہی کہیں، اسے اپنے فالورز کے جاہل اورغلام ہونے کا کیسا اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بڑے لیڈر نے ایک حالیہ انٹرویو میں تئیس سیکنڈ کی گفتگو میں ایسے ایسے تضادات دئیے کہ اہل علم وعقل عش عش کر اٹھے۔
بڑے اور مقبول لیڈر نے خاندانی نظام کی حرمت بیان کی، اس نے گناہوں کے بیان کرنے کی برائی بیان کی اور مغرب میں طلاق کے رجحان پرتنقیدی بات کی تو وہ بڑا لیڈر خود دو طلاقیں دے چکا، اس نے بچوں کی تربیت کی بات کی تو کیا اس کے اپنے بچے اسلامی اور مشرقی معاشرے میں پل رہے ہیں اوراس نے گنوں (مطلب گناہوں) کو بیان کرنے کے مضمرات بیان کئے مگر گناہ کرنے کے مضمرات اور سزاوں کو گول کر گیا۔
بات انتخابات کی کرنی ہے جس کا مطالبہ وہ اس وقت سے کر رہے ہیں جب انہیں ایک آئینی، قانونی اور جمہوری عمل یعنی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں سے نکالا جا رہا تھا۔ اگر وہ سمجھتے تھے کہ ملک میں انتخابات اتنے ہی ناگزیر ہیں وہ تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے بھی اس کا نعرہ لگا سکتے تھے مگر انہوں نے انتخابات کے انعقاد کامطالبہ اس وقت کیا جب اقتدار ان کے مخالفین کے ہاتھ میں آ گیا۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم بھی انتخابات کامطالبہ کررہی تھی تو بات درست ہے، یہ مطالبہ ہمیشہ اپوزیشن ہی کرتی ہے اور یوں بھی اگر خانصاحب مذاکرات کرتے تو شائد کچھ بات بن جاتی کیونکہ میاں نواز شریف بھی کچھ کچھ عمران خان کی طرح ہی سوچ رہے تھے۔ ان سے وابستہ ہاکس سوشل میڈیا پر اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف توپیں کھولے ہوئے تھے۔ خانصاحب کو کسی نے بتایا کہ اگر وہ لانگ مارچ کریں گے تو پاکستان بھر سے کروڑوں عوام ان کے ساتھ نکل آئیں گے اور انشااللہ وہ اسلام آبا د پر قبضہ کر لیں گے مگر پھر ہوا یوں کہ وہ خانصاحب اسلام آباد کے اندر جانے تک کی ہمت نہ کر سکے۔
مجھے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر ترس آتا ہے کہ وہ کیسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ پہلے ان کو شہر شہر سے اکٹھا کر کے لانگ مارچ میں پنڈی لے جایا گیا اور تاثر دیا گیا کہ وہ پنڈی فتح کر کے ہی آئیں گے مگر انہیں اس اہم ترین تقرری میں مزاحمت کی خواہش اور کوشش پر بھی منہ کی کھانی پڑی۔
پی ٹی آئی کے کارکن پنڈی پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ خانصاحب جلد اسمبلیاں توڑ دیں گے اور اس کرپٹ سسٹم سے باہر نکل آئیں گے۔ پھر ان کو لبرٹی بلایا گیا اور بتایا گیا کہ ایک ہفتے کے بعد اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔ یہ ایک ہفتہ اس لئے تھا کہ ان کے حامی اور مخالفین اسمبلیاں توڑنے کے خلاف جو کوشش کر سکتے ہیں کر لیں اور انہوں نے کامیابی سے وہ کوشش کر لی۔ اب خانصاحب نے لاہور پریس کلب کے نومنتخب عہدیداروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ انہیں الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے تو مجھے اپنے کالم کے پہلے فقرے پر جانے دیجئے اور بتائیے کہ ہمیں جو پہلے دن سے نظر آ رہا تھا کہ الیکشن نہیں ہونے جا رہے، وہ خانصاحب کو کہاں سے نظر آ رہا تھا؟
پاکستان میں نئے انتخابات اسی وقت ہو سکتے ہیں جب مقتدر حلقے ایسا چاہ رہے ہوں مگر یاد رکھیے کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے پچھلے بیس بائیس برسوں میں پانچ، چھ وزیراعظم ضرور ڈنڈا ڈولی کر کے ایوان وزیراعظم سے نکالے ہیں مگر انہوں نے اسمبلیوں کی مدت ضرور پوری کروائی ہے چاہے اس دوران دھرنے کروائے گئے ہوں یا کچھ اور۔ دوسرے عام انتخابات کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اتنا عوامی پریشر ڈویلپ کر دیں کہ حکومت منجمدہو کے رہ جائے مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لاہور سے نکالے گئے پانچ، سات ہزار یا پنڈی میں جمع کئے گئے آٹھ، دس ہزار افراد حکومت کو ایسا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کے پاس واحد سہارا مہنگائی ہے جسے کنٹرول کرنے میں شہباز شریف کی ایڈمنسٹریشن اوراسحاق ڈار کی مہارت بھی کام نہیں آ رہی۔ دوسری بات نواز لیگ کی پروپیگنڈہ مشینری کی ناکامی ہے جس کی وجہ سے وہ صوبائی حکومت کی قیمتوں کے کنٹرول کرنے کی ناکامی کو بھی اپنے پلے میں ڈال رہے ہیں جیسے مہنگا آٹا۔ آٹا ہمیشہ سے صوبائی ایشو رہا ہے اور صوبائی حکومت نے ہی سب سڈی کے ذریعے اس کی قیمت کو کنٹرول میں رکھا ہے۔
حمزہ شہبا زشریف اپنے مختصر دور حکومت میں بھی اس پر دس، بارہ ارب سالانہ کے حساب سے سب سڈی دیتے رہے ہیں اور آٹا سستا رہاہے۔ اب یہ مکمل طور پر صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ سستی خریدی ہوئی گندم کا آٹا بھی سستا نہیں مل رہا اوراس پر دیہاڑیاں لگ رہی ہیں بہرحال یہ علیحدہ موضوع ہے کہ پی ڈی ایم عام انتخابات کی طرف کیوں نہیں جانا چاہتی مگر اس وقت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ پنجاب میں انتخابات اپریل میں ہی ہوں گے اوراس کے لئے بھرپور تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں مگر یہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
اس سلسلے میں پنجاب کے چیف سیکرٹری عبداللہ سنبل نے ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ بھی کی ہے اور پنجاب کی ڈیجیٹیل مردم شماری کو جلد از جلد مکمل کرواتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا ایک عارضی شیڈول بھی ترتیب دے دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کی رضامندی سے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دی جو اپریل کے آخری ہفتے یعنی عید الفطر کے فوری بعد یا مئی کے پہلے ہفتے میں ہوسکتے ہیں توپھر آپ اکتوبر سے پہلے عام انتخابات کی بات بالکل ہی بھول جائیں۔
خیریہ شکر کا مقام ہے کہ خانصاحب کو وہ نظر آنے لگا ہے جو ہمیں بہت پہلے سے نظر آ رہا تھا اور اب باقی چیزوں جیسے مقبولیت وغیرہ بارے بھی ان کی آئی سائیٹ، آنے والے دنوں میں کافی بہتر ہوجائے گی، انشا اللہ، ان سے کہیں ہمارے کالم وغیرہ پڑھتے رہیں۔