Holocaust
ہولوکاسٹ
اہل تشیع صدیوں سے کربلا والوں کا غم منارہے ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ کربلا کا سانحہ ہوا ہی نہیں، سب جھوٹ ہے، یا امام حسینؑ کے فیصلے کی وجہ سے اتنے لوگ مارے گئے، یا مدینے سے نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعہ جب ایسی باتیں سنتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔
میں خود ایک شیعہ خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے جب ایک ذمے دار اور بڑے عہدے پر فائز شیعہ سے سنا کہ ہولوکاسٹ ہوا ہی نہیں تو میں ششدر رہ گیا۔ یہ صدیوں پرانا نہیں، ابھی چند عشرے پہلے کا سانحہ ہے اور پوری دنیا اس کی گواہ ہے۔ اسے جھٹلانا نہ صرف حقائق کے خلاف ہے بلکہ ظلم کی حمایت اور مظلوموں سے نفرت کا اظہار ہے۔
آپ جانتے ہوں گے کہ وہ شیعہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد تھے جنھوں نے اسرائیل کی نفرت میں اس سانحے سے انکار کیا اور انسانیت کے درجے سے خود نیچے اتر گئے۔
میں نے ہولوکاسٹ پر کافی لٹریچر پڑھا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ادیب ایلی ویزل کی کتاب نائٹ اسکول میں پڑھا بھی رہا ہوں۔ میری طرح آپ نے بھی اس سانحے پر فلمیں دیکھی ہوں گی۔ شنڈلرز لسٹ، لائف از بیوٹی فل، دا پیانسٹ، دا بوائے ان اسٹرپڈ پجاما، ججمنٹ ایٹ نیورمبرگ اور بہت سی موویز ہیں۔ میں نے برلن اور واشنگٹن میں ہولوکاسٹ میوزیم بھی دیکھے ہیں۔ لیکن یروشلم کا ید ویشم میوزیم سب سے اہم ہے۔ یہ اسرائیل میں ہولوکاسٹ میں مارے گئے افراد کی قومی یادگار ہے۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا میں یہودیوں کی تعداد صرف ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ نازیوں نے چند سال میں یورپ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر ڈالا۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی اور منظم نسل کشی تھی۔ پون صدی بعد یہودیوں کی آبادی ہولوکاسٹ سے پہلے جتنی ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر ہولوکاسٹ نہ ہوتا تو آج یہودیوں کی تعداد چار کروڑ ہوتی۔ لیکن میں نے ایک یہودی دانشور سے سنا کہ مستقبل میں کبھی یہودی اس تعداد کو نہیں پہنچ سکیں گے۔
منگل کی صبح ہمارے میزبان ید ویشم لے گئے۔ اسے دیکھنے کے لیے شاید کئی دن بھی کم ہوں، لیکن ہمیں مرکزی حصہ دکھایا گیا۔ جرمنی اور پولینڈ میں یہودیوں کی قتل گاہوں کے عکس، مقتولین کی تصویریں اور اسباب، وہ ویڈیوز جو نازیوں نے خود ریکارڈ کیں اور فخر سے تقسیم کیں۔ یہودی احسان فراموش نہیں ہیں۔ انھوں نے ظالموں کو یاد رکھا ہے تو ان لوگوں کو بھی نہیں بھولے جنھوں نے یہودیوں کی جان بچائی۔ ہم آسکر شنڈلر کا نام جانتے ہیں کیونکہ اس پر ہالی ووڈ میں فلم بنائی گئی۔ لیکن اس میوزیم میں اور بہت سے نام ہیں۔ ان میں مسلمان شامل ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہٹلر پورے یورپ پر قابض تھا اور ہر جگہ یہودیوں کی جان لی جارہی تھی۔ وید ویشم کی ایک دیوار پر ہر ملک میں قتل کیے گئے یہودیوں کی تعداد درج ہے۔ سب سے کم یہودی مسلمانوں کے علاقوں میں قتل ہوئے۔
میں نے اپنی گائیڈ لز سے پوچھا کہ یہودیوں نے نازی جرمنی سے نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کی اور اگر راستے بند تھے تو انھوں نے لڑائی کیوں نہیں لڑی۔ لز نے کہا، لاکھوں یہودی جرمنی اور نازیوں کے علاقوں سے نکلے تھے۔ آئن اسٹائن ان میں سے ایک تھے۔ لیکن ہر شخص کے پاس وسائل نہیں ہوتے۔ ہٹلر نے یہودیوں کو شہر سے باہر کچی بستیوں میں قید کردیا تھا جہاں ان کے پاس نہ روزگار تھا اور نہ کھانے کو کچھ۔ کھانے کو نہ ملے تو آپ کچھ کرنے کے لائق نہیں رہتے۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے کوشش کی اور مارے گئے۔ چند لوگ، بہت کم بچ بھی گئے تھے۔
وید ویشم میں ایک کمرا ایسا ہے جہاں ہولوکاسٹ میں مرنے والے ہر شخص کا نام اور ہر وہ تفصیل موجود ہے جو دستیاب ہوسکی۔ میں نے پوچھا، یہاں کتنے مقتولین کے نام ہیں؟ لز نے بتایا کہ ساٹھ لاکھ میں سے انچاس لاکھ مقتولین کے نام اور بہت سوں کی تصویریں اور دوسری تفصیلات تلاش کرلی گئی ہیں۔ گیارہ لاکھ کے نام تک نہیں معلوم۔ بہت سے خاندان بلکہ بستیاں اور کمیونیٹیز ایسی ہیں جو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ آج کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کبھی تھیں بھی یا نہیں۔ یہ کس قدر بڑا ظلم ہے جو مہذب دنیا اور معلوم تاریخ میں یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں ہوا۔
ہمارے میزبانوں میں ایک لڑکی اٹارا شامل تھیں۔ اٹارہ میری بیٹی کی ہم عمر ہیں اور انھوں نے حال میں نرسنگ کی تعلیم مکمل کی ہے۔ ایک کمرے سے گزرتے ہوئے ہم نے ان لوگوں کی تصویریں دیکھیں جو یہودیوں کے سب سے بڑے مقتل آش وٹز میں قید تھے۔ ان میں سے بیشتر لوگ مارے گئے تھے۔ اٹارا نے ایک تصویر دیکھ کر کہا، اس میں میری پردادی موجود ہیں۔ ہم سب ہکابکا رہ گئے۔ دوسرے میزبانوں اور وید ویشم کی گائیڈ کو یہ بات معلوم نہیں تھی۔ ہم نے اٹارا سے تفصیل جاننا چاہی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی پردادی کا خاندان آش وٹز بھیجا گیا تھا جہاں پردادی اتفاق سے بچ گئیں لیکن ان کی بہن قتل کردی گئیں۔
ہماری گائیڈ لز جذباتی ہوگئیں۔ انھوں نے کہا، آپ اس بچی کو دیکھ رہے ہیں، یہ کس قدر خوب صورت ہے۔ یہ نرس ہے اور مستقبل میں بہت سے لوگوں کی جان بچائے گی۔ اگر اس کا پورا خاندان مارا جاتا تو یہ آج ہمارے درمیان نہ کھڑی ہوتی۔ اب سوچیں، نازیوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ اس جیسے خوبصورت اور ہونہار بچے مار دیے۔ آج وہ سب زندہ ہوتے تو دنیا کتنی خوبصورت ہوتی۔
دو روز بعد ہم نے تل ابیب میں اسرائیلی ترقی کی مثالیں دیکھیں تو ایک بار پھر لز کی بات یاد آئی۔ میں اس کا حال سناوں گا تو آپ کو حیرت بھی ہوگی اور شاید میری طرح افسوس بھی، کہ ہولوکاسٹ نے ہم سے کیا کچھ چھین لیا۔