Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Haider Javed Syed
  3. Bhutto Ka Tara Maseeh

Bhutto Ka Tara Maseeh

بھٹو کا تارا مسیح

ساڑھے چار عشروں سے کچھ اُدھر کی یادوں نے دستک دی، یادوں کے خزانے کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو میر علی احمد خان تالپور سے ہوئی ایک ملاقات کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ میر علی احمد تالپور کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے محبوب ترین دوست تھے۔ ان کے بھائی میر رسول بخش تالپور سندھ کے گورنر بھی رہے۔

پھر دونوں بھائیوں کے اپنے دوست سے اختلافات پیدا ہوئے۔ میر علی احمد تالپور ان اختلافات کو لے کر اتنی دور چلے گئے کہ بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جنرل ضیاء الحق کے وزیر دفاع بن گئے۔ ہفت روزہ "جدوجہد" کراچی کے مالک نصیر سرمد میمن کے تالپور برادران سے دیرینہ خاندانی مراسم تھے۔ اسلام آباد میں ان کی قیام گاہ پر طے شدہ ملاقات کے لئے ہم دونوں کراچی سے پہنچے تھے۔

راولپنڈی پہنچ کر قیام کے لئے ٹیکنالوجی کالج کے ہاسٹل میں ڈیرے ڈالے۔ ان دنوں ہاسٹل کی کینٹین کا ٹھیکہ گنگا طیارہ کیس کے ایک کردار ہاشم قریشی اور نورالعارفین نے مشترکہ طور پر لے رکھا تھا۔ شب بھر کے قیام کے بعد اگلی صبح میمن نے تالپور صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع دی اور سپہر کے بعد ہم ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے۔

یہ غالباً 1970ء کی دہائی کے آخری ایام تھے جس کی ایک سپہر کے بعد ان کی قیام گاہ پر پہنچے۔ لگ بھگ چار گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت پر پھیلی نشست کے دوران بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اس ملاقات میں ہی انہوں نے نصیر سرمد میمن سے کہا "بھتیجے تمہاری شکایات بہت ہیں۔ اپنے رسالے کو بھٹو نامہ نہ بناؤ کچھ تعمیری کام کرو"۔

سر کیا جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے بات کرنا بھٹو نامہ ہوتا ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا۔ رسان سے بولے " لڑکے زیادہ تیز نہیں چلتے منہ کے بل گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ملک میں مارشل لاء نافذ ہے، نصیر میرے بھتیجوں کی طرح ہے ایک بزرگ کا فرض ہے کہ ا ولاد کو بھلے برے سے آگاہ کرے، بھٹو نے جمہوریت کے نام پر فسطائیت قائم کی۔ مجھ سے زیادہ تم اسے (بھٹو کو) نہیں جانتے، ہم نے پچیس تیس سال کا عرصہ دوستوں کی طرح گزاراہے " تب میں نے سوال کیا میر صاحب! پچیس تیس سال جو شخص آپ کا دوست اور کئی سالوں تک قائد رہا ہو اس کے قاتل کی کابینہ میں وزیر کے طور پر کام کرتے ہوئے افسوس نہیں ہوتا؟

وہ بولے، بھٹو کو عدالتوں نے سزا دی جنرل ضیاء نے نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انہیں پھانسی پر نہیں چڑھایا جانا چاہئے تھا۔

ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے یاد دلایا کہ بھٹو کی پھانسی سے دو ماہ قبل جنوری 1979ء میں حیدر آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا" بھٹواپنے جرائم کی سزا پا رہا ہے"۔

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ وہ کون سے جرائم تھے اور اس وقت آپ کا خاندان بھٹو کے ساتھ آپ کے بھائی گورنر سندھ تھے تو کیا ان جرائم میں آپ کا کوئی حصہ نہیں؟

میں نے دیکھا ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا لیکن ایک دو لمحوں میں انہوں نے خود پر قابو پایا اورکہنے لگے۔ نوجوان "تاریخ تمہارے جذبات کا نام نہیں اس کے اپنے حقائق ہیں"۔ لیکن سر وہی حقائق تو جاننے کی خواہش ہے ہمیں۔ میں نے عرض کیا۔ بڑوں کی بات درمیان میں کاٹنا بے ادبی ہے انہوں نے پھر غصہ دباتے ہوئے کہا لمحہ کے توقف کے بعد بولے " بھٹو نے جس جمہوریت کے خواب دکھائے تھے وہ جمہوریت قائم نہیں کر پائے بلکہ انہوں نے شخصی آمریت قائم کی یہی ہمارے اختلاف کا سبب ہوا "۔ سر کیا یہ حقیقت نہیں کہ قومی اتحاد کی تحریک فوج اور امریکی سفارتخانے کے تعاون سے چلائی گئی اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ مئی 1977ء میں ہی بن گیا تھا؟

کہنے لگے فوری طور پر اس کی تردید نہیں کرسکتا البتہ میرا خیال ہے کہ اس میں حقیقت نہیں ہے۔ مگر میر صاحب آپ نے 27 مئی پھر 11جون اور 17جون 1977ء کو جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتیں کیں ان ملاقاتوں کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟

انہوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے "ایک ملاقات تو شادی کی تقریب میں ہوئی تھی، دو ملاقاتیں جنرل صاحب کی دعوت پر" میں نے پھر سوال کیا، کیا دوسری دو ملاقاتوں میں آپ کے ہمراہ پیر پگاڑا کے بھائی بھی شامل تھے؟ انہوں نے کہا "صرف وہی نہیں بلکہ غوث علی شاہ اور ذوالفقار جاموٹ بھی میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے جواب دیا" میر صاحب! بھٹو کبھی آپ کے د وست تھے پھر اختلاف ہوا جو دشمنی میں بدلا کیسے آدمی تھے بھٹو؟

علی احمد تالپور کچھ دیر خاموش رہے اور پھر دھیمے انداز میں بولے "اچھا دوست اور برا دشمن۔ بھٹو شخصی آمریت کا راستہ نہ اپناتے تو پاکستان کو بہت آگے لے جاسکتے تھے"۔

بہت ادب سے کہوں میر صاحب یہ آپ بار بار شخصی آمریت کی بات کر رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کیا ہے؟

کہنے لگے "حالات نے مجبور کیا اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اسے"۔ حالات یا 3 جون 1977ء کو ہونے والی امریکی سفیر سے ملاقات نے میں نے دریافت کیا؟

وہ بولے "میں ایسی کسی ملاقات سے لا علم ہوں مگر غیر ملکی سفیر اور دوسرے لوگ اہم شخصیات سے ملتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں"۔

چار گھنٹوں سے زیادہ وقت کی یہ ملاقات صحافت کے اس طالب علم کو 1985ء کے اُس دن بہت یاد آئی جب جنرل ضیاء کا طاقتور ترین وزیر سندھ سے قومی اسمبلی کے ایک حلقہ سے قاضی عبدالحمید عابد سے المناک انداز میں شکست کھا گیا۔

میر علی احمد تالپور کی تاریخی فتح کے جشن کی ساری تیاریاں مکمل تھیں مگر پولنگ والے دن سے دو رات قبل ضلع حیدر آباد کے در و دیوار پر ایک پوسٹر لگا، جس میں میر علی احمد تالپور کی تصویر کے ساتھ صرف ایک جملہ لکھا تھا۔ "بھٹو کا تارا مسیح"۔

پسِ نوشت: یہ تحریر پہلی بار 1990ء میں ماہنامہ زنجیر لاہور اور دوسری بار 2017 میں روزنامہ "مشرق" پشاور میں شائع ہوچکی اپنے پڑھنے والوں کیلِئے بارِ دیگر حاضر۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi