اِنڈس ہسپتال کی تعریفیں

میری دیانتداری سے رائے ہے کہ لاہور، کراچی سے بہت بہتر شہر ہے اور میری اس رائے کو ان بہت ساروں نے بھی درست ثابت کیا جو کراچی سے لاہور آ کے آباد ہوئے جیسے میرے دوست ایس ایم عمران، ان کے والد ایس ایم منیر سمیت پوری فیملی، تابش ہاشمی جیسے فنکار، میزبان مگر کراچی کے پاس دو شاندار چیزیں ہیں، ایک سمندر دوسرا انڈس ہسپتال اوراس کا ہیلتھ نیٹ ورک۔ ظاہر ہے سمندر ہم لاہور نہیں لا سکتے مگر ڈاکٹر عبدالباری خان کا بہت بہت شکریہ کہ وہ انڈس ہسپتال یہاں لے آئے۔
یہ میرے لیے اعزاز تھا کہ معتبر صحافتی ناموں کے ساتھ انڈس ہسپتال لاہور کی انتظامیہ نے مجھے ایک حیرت انگیز ہسپتال میں مدعو کیا تھا جس میں کوئی کیش کاؤنٹر نہیں ہے یعنی مریضوں کے لیے سو فیصد مفت ہسپتال اور اتنی ہی حیرت انگیز اس کی عمارت ہے، اس کا ماحول ہے، یہ پیپر لیس بھی ہے یعنی مریض کی کوئی فائل نہیں سب کچھ کمپیوٹر میں ہے، آن لائن ہے۔ ہم جب کوئی ایسی اچھی بلڈنگ یا کوئی ایسا اچھا سسٹم دیکھتے ہیں تو پہلا فقرہ یہی ہوتا ہے کہ ہمیں لگتا ہی نہیں کہ یہ پاکستان ہے۔
علم نہیں کہ یہ ہمارا احساس کمتری ہے جسے ہم میں کوٹ کوٹ کے بھر دیا گیا ہے یا واقعی کمتر ہیں، میں ذاتی طور پر پہلی رائے کے ساتھ ہوں اور پورا یقین رکھتا ہوں کہ ہم حیران کر دینے والے کرشموں کی مکمل اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں، ابھی دس مئی کو ہی دیکھ لیجئے، کیسے ہم نے اپنے سے چھ سے آٹھ گنا دشمن کو چار گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور یہ کہ ہم دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہیں۔
پاکستان کی تعریفیں تو میں کرتا ہی رہتا ہوں کہ یہ پاکستان میرا عشق ہے اور اس کی تعریفیں میری ہابی مگر آج بات انڈس ہسپتال کی ہے۔ مجھے یہ تھوڑا دور لگا کہ یہ بحریہ ٹاؤن سے کچھ پہلے جوبلی ٹائون میں ہے یعنی ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے مگر مجھے تو دور پی کے ایل آئی بھی لگا تھا۔ لاہور اب ایک بڑا اور وسیع شہر ہوتا چلا جا رہا ہے اور مجھے رنگ روڈ کی تکمیل کے بعد لگ رہا ہے کہ وہ شرقپور جہاں پہنچنے کے لیے گھنٹوں لگا کرتے تھے اب ہم منٹوں میں پہنچ جایا کریں گے اور وہ بھی قصور اور رائے ونڈ کی طرح لاہور کا ہی حصہ بن جائے گا۔ اگر یہ مجھ سے دور ہے تو بہت ساروں کے قریب بھی ہوگا، ہم دو پہر کو وہاں پہنچے تھے اور اس کے باوجود کہ چھ سو میں سے ابھی صرف سوا سو سے کچھ زیادہ بیڈز فعال ہوئے ہیں وہاں مریضوں کا رش تھا۔
وقاص احمد ہمیں ایمرجنسی سے او پی ڈی اور وارڈز تک گھما پھرا رہے تھے، عمارت اتنی زیادہ کشادہ اور ہوادار ہے کہ آپ کو گرمی لگ ہی نہیں سکتی، اسے سنگاپور کی کسی کمپنی سے ڈیزائن کیا ہے، اس کے مین کوریڈور سے ہوا یوں گزر رہی تھی جیسے ہم کسی ساحل پر ہوں۔ وقاص احمد بہت کچھ بتا رہے تھے جو سب کا سب آپ کو بتایا نہیں جا سکتا، اس کو صرف آپ دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔ مکمل مفت ہسپتال ہونے کے باوجود وہاں مریضوں میں کوئی دھکم پیل نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بے اطمینانی کہ باری آئے گی یا نہیں۔
ہسپتال کے انتظام و انصرام کی شفافیت کے بارے مجھے دو دلائل نے واقعی قائل کیا، پہلا یہ کہ اگر یہاں کسی مریض کو کسی دوا کی ضرورت ہے اور وہ ہسپتال کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی خود ہسپتال ہی آپ کو منگوا کے دے گا اور یہی وجہ ہے اس کے آس پاس آپ کو میڈیکل سٹورز نظر نہیں آئیں گے، دوسرا یہ کہ ہسپتال میں گائنی کا شعبہ ایکٹو ہو چکا اور اب تک وہاں ہونے والی ڈلیوریز میں نوے فیصد نارمل ہیں یعنی نہ تو کسی نے فیس بنانی ہے کہ وہ نارمل ڈلیوری کو سیزرین کرے اور نہ ہی عورتوں کو خواہ مخواہ کی تکلیف دینی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ یہ چوبیس ارب کا پراجیکٹ ہے جس میں سے اب تک چودہ ارب لگ چکے ہیں، تکمیل کے بعد یہاں میڈیکل کالج بھی ہوگا اور نرسنگ کالج بھی۔ ہربل میڈیسن کا شعبہ پہلے ہی یہاں قائم ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر سید شفیق حیدر، سی ای او نارتھ زون، بتا رہے تھے کہ انڈس ہسپتال پیپر لیس، ہے یعنی ہر مریض کا ڈیٹا مکمل طور پر کمپیوٹر میں ہے اور اگر کوئی مریض دس برس پہلے کی تاریخ اور دن بھی بتا دے تو وہ اس کی پوری ہسٹری نکال کے دے سکتے ہیں۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ ہسپتالوں کے درمیان ریسرچ کے لیے بھی ڈیٹا شیئرنگ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ وہ انڈس ہیلتھ سسٹم کے تحت فلٹر کلینکس کی بھی بات کر رہے تھے۔
میں نے اس سے پہلے دیکھا کہ مریض اپنی باری بارے بہت زیادہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ ان مریضوں کے لیے سرخ، سبز اور پیلی لائنوں سے بھی درجہ بندی کی گئی تھی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی چاہیں تو سرکاری ہسپتالوں میں انڈس ہسپتال کے سسٹم کی بنیاد پر انقلابی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں کے لیے طویل عرصے سے زیر غور ریفرل سسٹم لایا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں کے اندر ٹوکن کا کمپیوٹرائزڈ نمبر بھی ہو سکتا ہے اور اسے آن لائن بھی بک کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر مریض کی بیماری کا اس کے شناختی کارڈ کے نمبر کے ساتھ ہیلتھ نمبر بن سکتا ہے اور اس کی پوری ہسٹری رکھی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر شفیق کہہ رہے تھے کہ اگر ہمارا سارا ڈیٹا ڈیجیٹائز ہو جائے، کاغذوں کی بجائے کمپیوٹر میں آ جائے تو ہم جان سکتے ہیں کہ کون سے علاقے میں کون سی بیماری ہے اور اس سے بچاؤ کی تدابیر بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ انڈس ہسپتال پورا ریکارڈ رکھتا ہے کہ کس مریض کو کون سی دوا دی گئی اور اگر کوئی دوا غلط لکھ دی جائے تو فارمیسی ہی جاری نہیں کرے گی اور اگر کرے گی تو اس پر وضاحت ہوگی کہ یہ دوا کیوں دی گئی۔ اس سے قبل وقاص احمد مرض کی تشخیص کے جدید ترین نظام بارے بتا رہے تھے اور میری نظر میں یہ سب سے اہم ہے کیونکہ عالمی طبی ڈیٹا کے مطابق ہسپتال پہنچنے کے بعد مریضوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ ان کے مرض کی غلط تشخیص ہے۔
انڈس ہسپتال اپنی عمارت اور اپنے نظام میں کتنا شاندار ہے یہ آپ جا کر ہی دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ انڈس ہیلتھ سسٹم ڈونیشن پر چلتا ہے اور اس کا فیصلہ وہاں پر ہوتا ہے کہ کوئی مریض زکوٰۃ پر علاج کرائے گا یا ڈونیشن دے گا مگر جب ایک مرتبہ کارڈ بن جاتا ہے تو پھر مریضوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی باری نمبر پر ہی آئے گی اور ہسپتال میں نہ کوئی پرائیویٹ روم ہے اور نہ ہی کوئی وی آئی پی۔ مجھے یقین ہے کہ انڈس آپ کے عطیات کا سب سے زیادہ، جائز حقدار ہے۔

