Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Hum Champions Trophy Jeet Gaye

Hum Champions Trophy Jeet Gaye

ہم چیمپئنز ٹرافی جیت گئے

آپ کہیں گے باؤلے ہو گئے ہو، نیوزی لینڈ کے ساتھ پہلا میچ ہم ہار گئے اور وہ بھی ساٹھ رنز کے ساتھ یعنی آگے کوئی فیصلہ رن ریٹ پر ہوا تو وہاں بھی یہ میچ گلے پڑے گا۔ بہت سارے تو پہلے میچ کے ہارنے کے ساتھ ہی جمع تفریق کرنے لگے ہیں کہ ہم سیمی فائنل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اپنی ٹیم کے ساتھ گلے شکوؤں کے ساتھ بھرا پڑا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم جلدی جلدی سٹیڈیم بنانے میں مصروف تھے اور اس دوران ٹیم بنانا ہی بھول گئے کہ ہر ٹیم دو، دو اور تین، تین اسپنرز لے کر آئی ہے، ہم نے انہیں ہی نظرانداز کر دیا، سوال ہو رہا ہے کہ کیا یہی وہ آغازتھا جس کی برسوں سے تیاری ہو رہی تھی۔

سچ مانیں تو میں کرکٹ کا ایکسپرٹ نہیں ہوں سو میں اس پر مہارت کے ساتھ بحث بھی نہیں کرسکتا مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ بھلے ہم پہلا میچ ہار گئے اور عین ممکن ہے کہ ہم فائنل تک نہ پہنچیں مگر اس کے باوجود ہم جیت گئے ہیں۔ ہم نے سولہ برس کی نحوست کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ہم نے انتیس برس کے بعد چیمپیئز ٹرافی کا میلہ اپنے گھر سجا لیا ہے حالانکہ ہمارے بہت سارے اندرونی اور بیرونی دشمن اس کے خلاف سرگرم عمل تھے جیسے بھارت۔

اس نے بہت سازشیں کیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا کہ اس کے میچز پاکستان میں نہیں ہوں گے مگر اس کے باوجود وہ نہیں ہوا جو پاکستان کے دشمن جو چاہتے تھے، وہ ہوا جو ہم چاہتے تھے۔ پاکستان کاانٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹ کی میزبانی کاخواب انتیس برس کے طویل انتظار کے بعد پورا ہوا ہے بلکہ جب یہ اعلان ہوا تھا تب ہی محبت اور نفرت کرنے والے بہت ساروں کے دل اندیشوں اور وسوسوں سے بھرے ہوئے تھے کہ یہ اعلان منسوخ ہوجائے گا۔

یہ 3مارچ 2009ء کا دن تھا جب ہمارے ملک کے پسندیدہ کھیل کے لئے نحوست کا آغاز ہوا تھا۔ اس روز لاہور کے قذافی سٹیڈیم کے باہر لبرٹی چوک کے گول چکر پر سری لنکن ٹیم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھاکہ بین الاقوامی کرکٹ واپس پاکستان نہیں آ ئے گی۔ 2009ء سے 2014ء تک انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان پر مکمل بند رہے اورکئی کھلاڑی ایسے تھے جو پاکستان میں ایک میچ بھی نہ کھیل سکے۔ چھ برس بعد زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان پر مہربانی کی اور لاہور میں دو ٹوئینٹی اور تین ایک روزہ میچز کی سیریز کھیلی مگراس کے باوجود جب اگلے برس پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن کھیلا گیا تو ہم ایک بھی میچ پاکستان میں نہیں کھیل سکے اور2017ء میں بھی صرف فائنل ہی پاکستان میں ہو سکا۔

اس موقعے پر ڈیرن سیمی کی تعریف نہ کی جائے تو یہ ناانصافی ہوگی کہ جب بہت سارے بڑے بڑے نام پاکستان آنے سے صاف انکار کر رہے تھے انہوں نے پشاور زلمی کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمت اور جرات سے کام لیا۔ اسی برس آئی سی سی نے ورلڈ الیون کو بھی پاکستان بھیجا جس میں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، سری لنکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں نے شرکت کی اور یہ سیریز پاکستان نے دو ایک سے جیت لی۔

اگلے برس یعنی 2018ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو تین ٹی ٹوئینٹی میچز کی سیریز میں بھی کلین سویپ کیا۔ اب ہمارے حوصلے بڑھ رہے تھے اورہمارے لئے کرکٹ کے دروازے دوبارہ کھل رہے تھے۔ سری لنکا کا شکریہ کہ اس نے حملے کے دس برس بعد 2019ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کیا جس سے بہت مثبت پیغام گیا۔ 2020ء کی جنوری میں بنگلہ دیش نے یہاں ٹیسٹ میچز کھیلے اور اس کے بعد زمبابوے کی ٹیم دوبارہ آئی۔ اب انتظار تھا کہ کوئی بہت بڑی ٹیم آئے تو2021ء میں جنوبی افریقہ اور 2022ء میں آسٹریلیا کی ٹیموں نے دورے کئے۔

میں آپ کو سال بہ سال کی ڈویلپمنٹ اس لئے بتا رہا ہوں تاکہ آپ کو علم ہو کہ ہم نے چیمپنئز ٹرافی کی میزبانی کے لئے کس طرح دن گزارے ہیں۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر ہونا چاہئے بلکہ بہت بہتر۔ میں پاکستانی ہوں اور اپنی ٹیم سے پیار کرتا ہوں اور اس دعوے کے ساتھ کرتاہوں کہ تم جیتو یا ہارو مجھے تم سے پیار ہے۔ کسی نے کہا، یہ کیوں، میر اجواب تھا اس لئے کہ جیتنے والوں کے ساتھ تو سب ہی پیا رکرتے ہیں۔ وہ کیسا پیار ہوا جو جیت کے ساتھ، دولت اور طاقت کے ساتھ مشروط ہو۔ مجھے اس دوران بہت زیادہ افسوس اس وقت تک ہوا جب ایک ایسے سیاستدان نے جس کی شناخت اور شان ہی کرکٹر ہونا تھی، پی ایس ایل کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے لئے کہا کہ ریلو کٹے آ رہے ہیں حالانکہ وہ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد آنے والے پہلے کھلاڑیوں میں شامل تھے۔

یہ کرکٹر سے سیاستدان بننے والے شخص جب وزیراعظم بنا تواس نے ڈپیارٹمنٹل کرکٹ ختم کرکے نو سو سے زائد اے کلاس پروفیشنل کرکٹرز کو بے روزگار کر دیا۔ کسی کرکٹر نے سبزیوں کی دکان کھولی اور کسی نے پنکچروں کی۔ اس نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر ہی بزدار مسلط نہیں کیا بلکہ اس کھیل پر بھی کر دئیے جس نے اسے عزت، دولت اور شہرت دی تھی یعنی نو مئی کو اپنے ملک کے ساتھ اور اس سے بہت پہلے اپنے کھیل سے بھی غداری۔ ڈپیارٹمنٹل کرکٹ کو شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد بحال کیا۔

ابھی چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد سے پہلے کے کچھ دنوں کی طرف چلتے ہیں۔ بھارت چاہ رہا تھا کہ پاکستان کے پاس میزبانی نہ رہے۔ اس نے ہر حیلہ اور ہر بہانہ کیا مگر پھر عالمی میڈیا نے بھی مانا کہ محسن نقوی نے جے شاہ کو شکست دی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی پہلے میچ میں اچھی نہیں رہی۔ ہم چند روز پہلے بھی سہ ملکی سیریز میں بھی نیوزی لینڈ سے ہارے تھے، شائد اس کا بھی اثر باقی تھا۔ فخر زمان بھی انجری کا شکار ہوئے اور بابر اعظم سے ون ڈے کی پہلی رینکنگ بھی چھن گئی۔ اب ہمارا اگلا میچ انڈیا کے ساتھ ہے اور یہ ہائی بلڈ پریشر کا میچ ہوتا ہے۔

میں بھی بہت سارے دوسروں کی طرح بہت زیادہ پر امید نہیں ہوں مگر اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پاکستان کی ٹیم کم بیک کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کو اَن پریڈِکٹ ایبل، کہا جاتا ہے، یہ ناممکن کو ممکن بنا کے بھی دکھا دیتی ہے۔ ہوتا یوں بھی ہے کہ قدرت بھی ہمارے لئے بہت سارے سبب بناتی ہے اور ہم ناقص کارکردگی کے باوجود فاتح بن جاتے ہیں جیسے بانوے کے ورلڈ کپ میں بنے۔ بہت ساری جگہوں پر جب ہماری کارکردگی کام نہیں کرتی تو ہماری دعائیں کر جاتی ہیں اور یوں بھی ہم چیمپئنز ٹرافی کا پاکستان میں انعقاد کروا کے کرکٹ کی اصل اوربڑی جنگ جیت چکے ہیں، باقی میچز ہوتے رہیں گے!

Check Also

Bazgha

By Ismat Usama