ہمیں بگرام سے کیا لینا دینا؟

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کے دوران کہا کہ وہ بگرام کا ائیربیس واپس لیں گے جس پر ہمارے بہت سارے دانشوروں کو مرچیں لگ گئی ہیں بلکہ معذرت کے ساتھ میں ان سب کو ہمارے دانشور کہتا ہی نہیں جو کسی بھی تنازع پر ہمارے نہیں رہتے، مخالف کے ہوجاتے ہیں جیسے پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہو، افغانستان سے شکوہ کرے تووہ افغان بن جاتے ہیں، ایران کی ائیر سٹرائیک ہو تو وہ ایرانی بن جاتے ہیں حتیٰ کہ بات بنگلہ دیش کی ہو تو وہ شیخ مجیب کو ابو بنا لیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس ائیر بیس کودنیا کا سب سے بڑا ائیر بیس کہا ہے وہ افغانستان میں واقع ہے اور چین کے صوبے سنکیانگ سے پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے اس موقع پر چین کا نام بھی لیا مگر یہ نام نہاد دانشور چین کی طرف اُڑتاہوا تیر اپنی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح اس سے پہلے روس کی افغانستان میں دراندازی کے موقع پر کیا گیا یا امریکہ کے نائن الیون کے انتقام کے موقع پر۔
ذرا غور کیجئے کہ دھمکی دینے والا امریکہ کا صدر ہے، اس کا مخاطب ایک دوسری سپر پاور چین ہے اور جس ملک میں وہ ائیربیس ہے اس کا نام افغانستان ہے جس سے ہمیں جو تحفے ملتے ہیں وہ ہیں غیر قانونی طور پر مقیم اس کے باشندے، راتوں رات سرحد پار کرکے آنے والے دہشت گرد، منشیات اور اسلحہ۔ ان سے ہٹ کر کچھ ملتا ہے تو وہ پاک انڈیا کرکٹ میچ ہو تو ان کی طرف سے انڈیا کی حمایت۔ ہمارے سفارتخانوں پر حملے اور پرچم جلانے کی مذموم حرکتیں مگر ہم ہیں کہ اس افغانستان کے مامے بنے ہوئے ہیں کہ سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے۔ بھائی دانشورو، اپنے مسائل کچھ کم ہیں کہ تم گھیر گھار کے ادھر ادھر کے مسائل بھی اپنی ہی ٹوکری میں ڈال لیتے ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو جواب دینا ہے تو افغانستان یا چین دے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دانشوروں کے جذباتی مذہبی فالوورز امریکہ اور ٹرمپ کو تڑیاں لگا رہے ہیں کہ تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ نے ہمیں کہا ہے کہ وہ ہمارا کچھ بگاڑنے آ رہا ہے۔ اس نے تو کہا ہے کہ پاکستانی بہت شاندار قوم ہے اور آئی لو پاکستان۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایک سپرپاور کا صدر ہماری تعریفیں کر رہا ہے، ہم سے محبت کا اظہار کر رہا ہے اور ہم جواب میں کہہ رہے ہیں ٹھہر ذرا، ہم تو تیری ٹانگیں توڑیں گے، ہم تو تیرے دانت توڑیں گے۔ عجیب احمق لوگ ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے، ہم نے افغانستان کے ساتھ بہت بھائی چارہ کر لیا۔ ہم نے نوے لاکھ کے قریب افغانوں کی بہت میزبانی کر لی۔ اب اگر وہاں پر ان کے خوابوں کے عین مطابق ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے امن بھی قائم کر لیا ہے تو پھر اس کے باشندے واپس اپنی سرزمین پر جائیں۔ وہاں جا کے اپنے کھیتوں کا سینہ چیریں اور اپنے لئے گندم پیدا کریں، اپنے کارخانوں کی چمنیوں سے دھویں نکالیں اور اس دھویں سے تعمیر، ترقی اور روزگار بلکہ اپنے ساتھ ان نمک حراموں کو بھی لے جائیں جن کے باپ دادا کھاتے تو پاکستان کا رہے ہیں مگر جب مُوتنے کا وقت آتا ہے تو اسی پلیٹ میں مُوت دیتے ہیں۔ انہیں نہ شرم آتی ہے اور نہ ہی کراہت۔ نہیں، نہیں، میں ہرگز افغانستان کا مخالف نہیں ہوں، میری دُعا ہے کہ وہ ترقی کرے، شاد و آباد رہے مگر میں افغان باقی کہسار باقی، جیسے بچگانہ خواب سے ضرور باہر نکل آیا ہوں۔
میں وہاں سے آنے والے دہشت گردوں کا مخالف ضرورہوں جن کی فنڈنگ بھارت اور اسرائیل کرتے ہیں اور وہ پاکستان میں آ کے ہمارے فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ سویلینز پر بھی حملے کرتے ہیں، پاکستان کی شہری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بناتے ہیں اور جب ہم افغان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں روکو تو افغان ریاست اتنی بھی نکیل نہیں ڈالتی جتنی وہ اپنے ڈھیلے ڈھالے اقتدار کے ذریعے ڈال سکتی ہے یا اسے ڈالنی چاہئے۔
کاش مجھے یہاں پر عمران خان یاد نہ آتا جو نو مئی کے حملوں اور پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی سازش میں ناکامی کے بعد اب بھی کبھی شیخ مجیب جیسے پاکستان توڑنے والے قومی مجرم کو ہیرو بنا رہا ہے اور کبھی ان افغان دہشت گردوں کا مقدمہ لڑ رہا ہے جن کو ہزاروں کی تعدا د میں اس نے لا کے خیبرپختونخوا میں بسا دیا تھا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ خیبرپختونخوا والوں سے نہ نجانے کیا گناہ ہوا ہے جس کی انہیں یہ سخت ترین جمہوری، سزا مل رہی ہے۔
میں جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس وقت میرے سامنے خبر کھلی ہوئی ہے کہ جعفر ایکسپریس حملے کا ماسٹر مائنڈ اور فتنہ الہندوستان کا دہشت گرد گل رحمن عرف استاد مرید افغانستان کے صوبہ ہلمند میں پراسرار طورپر ہلاک ہوگیا ہے۔ یقینی طور پر جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھارت کی ایک بہت ہی گندی اور گھٹیا کارروائی تھی جس پر انڈین میڈیا بہت زیادہ اچھل رہا تھا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی خوشی چھپانے سے بھی نہیں چھپ رہی تھی جیسے اب ان کا سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے پر غم چھپانے سے بھی نہیں چھپ رہا۔
اس دفاعی معاہدے کے حوالے سے مجھے کہنا ہے کہ پاک سعودیہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگیا اور جس طرح پاکستان کے وزیراعظم، فیلڈ مارشل اور دیگر وفد کا استقبال کیا گیا یہ ایک نئی تاریخ لکھی گئی ہے۔ اس معاہدے سے اگر اسرائیل اور بھارت پریشان ہیں تو میرا یقین بڑھ گیا ہے کہ یہ پاکستان کے عین مفاد میں ہے۔ اگر ہم وزیر خارجہ اسحق ڈار کے بیانات کو دیکھیں کہ اس میں دوسرے ممالک بھی شامل ہونے کے لئے خواہش مند ہیں توا س کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے مسلم ممالک کے ایک وسیع تر فوجی اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے کہ عرب ممالک میں سعودی عرب، مصر کے بعد دوسری بڑی طاقت ہے اور اگر وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر سکتا ہے تو پانچویں ساتویں نمبر پر موجود قطر اور یو اے ای بھی کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس چینی ٹیکنالوجی ہے اور سعودیہ کے پاس تین چوتھائی سے زائد امریکی اوراس کے بعد بھی برطانوی، اسپینش اور کینیڈین وغیرہ سو ہمیں ٹیکنالوجی تک رسائی ملے گی۔ ہم اس وقت بہت سستی فوجی تربیت بھی دے سکتے ہیں اور سستے طیارے، توپیں بھی، اب ہماری دفاعی پیداوار کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ جب انٹیلی جنس شیئرنگ ہوگی تو ہم دہشت گردی پر بھی قابو پا سکیں گے جس کے تانے بانے بہت ساری جگہوں سے جڑے ہیں۔ ہمیں اقتصادی فائدے بھی ہوں گے یعنی ڈالر، ریال ملنے سے ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹے گی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی سے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کے محافظ ہو گئے ہیں۔ ہماری کامیابیوں، ہمارے اعزازات پر مُودیے اور یُوتھیے اکٹھے رو رہے ہیں تو چہ عجب؟

