غزہ کے بعد کشمیر، انشاء اللہ

ہمیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے لئے بیس نکاتی منصوبے کی حمایت یا مخالفت سے پہلے کچھ بنیادی اصول اور مقاصد طے کرنے ہوں گے کہ ہم چاہتے کیا ہیں جیسے میں بہرصورت غزہ میں فوری امن چاہتا ہوں۔ اسرائیلی فوج نے دو برس میں بمباری کرکے اس پٹی میں نہ کوئی گھر باقی چھوڑا ہے نہ سکول اور ہسپتال۔ غزہ کی وزارت صحت نے کچھ عرصہ قبل اس عرصے میں 18516 بچے شہید ہونے کے اعداد و شمار جاری کئے تھے اور جب میں انہیں دنوں اور گھنٹوں پر تقسیم کرکے دیکھتا ہوں تو یہ ہر روز کے پچیس بچے بنتے ہیں یعنی ہر ایک گھنٹے میں ایک بچے سے بھی زائد۔
سیو دی چلڈرن، نامی این جی او بیس ہزار بچوں کی شہادت کی گواہی دیتی ہے اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار پچاس ہزار بچے زخمی اور شہید ہونے کے ہیں۔ میں ایک باپ کے طور پر، ایک انسان کے طور پر سب سے پہلے ان اموات کو روکنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد میں ایک صحافی اور تجزیہ کار بنوں گا۔ اسرائیل نے وہ مظالم کئے ہیں جو معلوم انسانی تاریخ میں کسی بدترین آمر اور ظالم نے نہیں کئے۔ میری نظر میں آج امن کی ہر کوشش ایک کامیابی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں قتل رکتے ہیں، تباہی رکتی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ بڑی اور اصل کامیابی وہ ہوگی جب مشرق وسطیٰ سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہوگا مگر میں اس سے بھی انکارنہیں کرسکتا کہ یہ ایک کامیابی ہے کیونکہ مسلم ممالک، امریکہ جیسی سپر پاور کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ وہ صرف اسرائیل کی نہیں بلکہ ان کی بات بھی سن رہی ہے۔ اگر اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہُو کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کے قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی کو فون کرکے اپنی حملے والی غلطی پر معافی مانگنی پڑے تو یہ واقعی ایک کامیابی ہے جس کے بارے کچھ عرصہ پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
میں نے بہت سارے یوتھیوں اور جماعتیوں کو تنقید کرتے ہوئے دیکھا مگر کیا ہم ان سے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کی کسی بات کی تعریف کریں گے۔ انہوں نے تو سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے میں بھی کیڑے نکالے اور اس وقت تک نکالتے رہے جب تک پی ٹی آئی کے بانی نے اپنے ٹوئیٹ میں اس کی حمایت اور تعریف نہیں کر دی۔ ہم ذہنی غلاموں کے ساتھ کسی مکالمے میں نہیں جا سکتے کہ وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسلمان ریاستوں کے پاس اس قسم کے کسی معاہدے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ اگر سعودی عرب، ترکی، مصر، پاکستان، یو اے ای، قطر، اردن اور انڈونیشیا جیسی مسلمان ریاستیں بھی امت مسلمہ کے مفادات کی ترجمان اور محافظ نہیں ہیں تو پھر یہ ذمے داری اور اعزاز کس کے پاس ہے؟ کچھ ناکام گروہوں، انتہا پسند وں، خوارجیوں کے پاس؟
مجھے ایک دوست نے کہا کہ ہم نے چھیاسٹھ ہزار شہیدوں کے بعد صلح ہی کرنی تھی تو میرا سوال تھا کہ آپ کب صلح کرنا چاہیں گے جب شہدا کی تعداد سوا لاکھ ہوجائے۔ یہ ایک آئیڈیل حل ہے کہ اسرائیل ختم ہوجائے، وہاں آباد کئے گئے یہودی ان کے اپنے اپنے ملکوں کو لوٹا دئیے جائیں مگر کیا اس خواب کو سامنے رکھ کے اس تلخ اور زہریلی حقیقت سے منہ موڑا جا سکتا ہے کہ اسرائیل مسلسل نسل کشی کر رہا ہے۔ آپ کو نسل کشی ایک بہت سادہ اور آسان سا لفظ لگ رہا ہوگا مگر غزہ کی پٹی میں یہ بہت خوفناک، بدصورت، بھیانک اور بہت ڈرا دینے والا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ غزہ کی پٹی کے لوگوں نے حماس کے ساتھ یا اپنے نظرئیے کے ساتھ وفاداری بڑی بہادری اور جرات کے ساتھ نبھائی ہے، ہر گھنٹے کے بعد اپنے ایک بچے کی لاش اٹھاتے ہوئے نبھائی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم سب انہیں لاشیں اٹھاتے رہنے دیں کیونکہ وہ غزہ والوں کے بچے ہیں، ہم ان کی بہادری اور جرات کی مثالیں دیں، تقریریں کریں، تالیاں بجائیں مگر اس قتل عام کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ میں سعودی عرب، ترکی اور پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میرا ملک تو وہ ہے جس نے آج تک اپنے پاسپورٹ پر یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ ہر ملک کے لئے کارآمد ہے اور میرے ملک کے ہر وزیراعظم نے، چاہے اس سے میرا سیاسی اختلاف ہے یا میں اس کا بڑا حامی ہوں، عالمی برادری کے سامنے فلسطین کا مقدمہ اسی جوش اور طاقت کے ساتھ لڑا ہے جس کے ساتھ وہ کشمیر کا مقدمہ لڑتا ہے۔
کیا کہا؟ اس معاہدے میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں اور فلسطینیوں کے مفادات میں نہیں جاتیں۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں اور تمہیں دنیا کے سب سے دانا قائد کے کئے ہوئے ایک معاہدے کی طرف لے جاتا ہوں جسے تاریخ صلح حدیبیہ کے نام سے جانتی ہے، یہ صرف تفہیم کے لئے مثال ہے کہ ہم نے اگر رہنمائی اسوہ حسنہ سے نہیں لینی تو پھر کہاں سے لینی ہے، اس صلح حدیبیہ پر بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آزردہ تھے، انہیں لگ رہا تھا کہ یہ صلح مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہے، مشرکین مکہ حاوی ہوگئے ہیں مگر اسی معاہدے کو ریت کے ایک ایک ذرے اورپانی کے ایک ایک قطرے کا علم رکھنے والے میرے رب نے فتح مبین کہا، جس میں اس معاہدے کا ذکر ہوا قرآن کی اس سورت کا نام ہی سورہ فتح رکھا گیا جس کی پہلی اور ستائیسویں آیت میں واضح طور پرتاثرات اور اندیشوں کی نفی کی گئی۔
میرے بہت سارے دوست قرآنی اصول شئیر کر رہے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی نہ کی جائے لیکن وہ اس سے آگے بیان نہیں کررہے کہ اگر وہ صلح پر آمادہ ہوں تو پھرجارحیت درست نہیں ہے اور یوں بھی، معذرت کے ساتھ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ستر برس کی قربانیوں کے بعد ہم نے یہی کرنا تھا تو مجھے پوچھنا ہے کہ ان ساٹھ ستر برسوں میں آپ آگے گئے ہیں یا پیچھے آئے ہیں؟
آپ ہوں یا نہ ہوں مگر میں شہباز شریف اور عاصم منیر کے ساتھ ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ قدرت نے ان سے کوئی خاص کام لینے کا ارادہ کر رکھا ہے کہ جس طرح آپریشن بنیان مرصوص میں بھارت کو شکست ہوئی، سعودی عرب میں ہم خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کے محافظ بنے، چین سے امریکہ تک میں عزت بنی، اس سے پہلے اپنے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا تو یہ سب عام اور معمولی نہیں ہے، یہ بہت خاص ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان ممالک معاہدے پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں لیکن اسرائیل کی مخلوط حکومت کا وزیر خزانہ اس پر چیخیں مار رہا ہے، اس کی اسی طرح مخالفت کر رہا ہے جس طرح خوارجی کر رہے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے، فلسطین کے بعد کشمیر کے معاملے پر بھی جلد کچھ اچھا اور کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ اسٹے ٹیونڈ!

