Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. General Asim Munir Par Etemad Kya Ja Sakta Hai

General Asim Munir Par Etemad Kya Ja Sakta Hai

جنرل عاصم منیر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے

آج جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کی کمان سنبھالے ہوئے پورا ایک برس ہوگیاہے۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سامنے ٹی وی پر رپورٹ چل رہی ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج ساٹھ ہزار کی ریکارڈ سطح کو عبور کر گئی ہے۔ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے پی ایس ای چھپن ہزار پوائنٹس تک پہنچی تھی کہ عمران خان کا دور آ گیا تھا اور یہ پندرہ ہزار سے زائد پوائنٹس کے خسارے میں چلی گئی تھی۔

میرے سامنے روزنامہ نئی بات کی سپرلیڈ سٹوری کھلی پڑی ہے کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو گئے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ساڑھے تین سو کی طرف چھلانگیں مار کے جاتا ڈالر اس وقت اگر پونے تین سو کے ارد گرد ہے تواس میں آرمی چیف کی سمگلنگ کے خاتمے کے لئے کی گئی کوششیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی فوج کے سربراہ کی کارکردگی میں اس ملک کے معاشی اشاریوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا مگر پاکستان کے تاریخی اور معروضی حقائق بتاتے ہیں کہ معیشت ہی نہیں بلکہ بہت سارے دیگر امور میں بھی فوج کے سپہ سالار کا کردار اہم ترین ہوتا ہے، ناگزیر ہوتا ہے جیسے کہ خارجہ پالیسی۔

اب خارجہ پالیسی کے ساتھ ہی معیشت جڑی ہوئی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے امن و امان اور داخلی استحکام۔ کوئی مانے یا نہ مانے، دنیا ہمارے ملک کو اپنی نظر اور اپنی عینک سے دیکھتی ہے جس میں ہماری وہ پوزیشن اہم ہے جس میں ہم چین، ایران، افغانستان کے ہمسائے ہیں۔ انڈیا کی ہمسائیگی ہمارا مسئلہ ہے جبکہ دنیا بدقسمتی سے اسے ہم سے پانچ، چھ گنا بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ دیوار پر لکھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم چین، سعودی عرب، یو اے ای، ترکی سمیت ہر دوست ملک کے ساتھ تعلقات تباہ کر دئیے تھے۔

اگر میں ترتیب کے ساتھ جنرل عاصم منیر کو درپیش چیلنجوں کی بات کروں تو سب سے پہلا اور بڑا چیلنج پاک فوج کے مقام او ر وقار کی بحالی ہے۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہر سیاستدان نے اپنی ناکامی کی ذمے داری ملک کی فوج پر ڈالی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ اگر سیاستدانوں کو اقتدار مل جائے تووہ محب وطن بن جاتے ہیں اور اگر وہ اقتدا ر سے محروم ہوجائیں تو انقلابی چئیرمین پی ٹی آئی کا رویہ ان میں سب سے بدترین رہا ہے اور ا ب ان کے واٹس ایپ گروپوں میں شامل قوم کے عادل راجا اور حیدر مہدی جیسے ففتھ کالمسٹس کو قانونی سزائیں اعلان ہو رہی ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو پاک فوج کے بارے میں ہندوستان اور را کی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کم آئی کیو حامل کے لوگوں کے ذہن پراگندہ کر رکھے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج کو کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس نے نو مئی کے واقعات کے بعد میچور رسپانس، دیا۔ ایک ایسا رسپانس جو ایک ایسی فوج ہی دے سکتی تھی جو اپنے شہریوں سے محبت کرتی ہو، ان کا احترام کرتی ہو۔ اپنا گھر کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں جلا لیا گیا مگر ان پر فائر نہیں کھولا گیا۔

ایک عاقبت نااندیش قیادت جو اپنے ہی کارکنوں کی لاشوں سے اقتدار میں آنا چاہتی تھی، حکمت دانش اور فراست سے اسے لاشیں نہیں دیں۔ اسی کریڈٹ کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے لازمی ترین فوجی عدالتوں کے خاتمے کے باوجود کوئی ایسا ردعمل نہیں آیا جسے غیر آئینی، غیر قانونی یا غیر اخلاقی کہا جائے، حتیٰ کہ ایک ریجیکٹڈ کا ٹوئیٹ تک نہیں۔ فوج نے ایک ذمے دار ریاست کے مہذب ادارے کے طور پرآئین، قانون اور اخلاقیات کا راستہ اپنایا۔ وزارت دفاع سمیت دیگر اداروں کے سامنے اپنے تحفظات رکھے اور فوجی عدالتوں کے خاتمے کے فیصلے کی واپسی کے لئے بھی کوئی مارشل لاء لگایا نہ کوئی ایمرجنسی پلس حالانکہ یہ بھی ہماری ہی روایت، رہی ہے۔

یہ امر تسلی بخش ہے کہ دہشت گردی کی تیز ہوتی لہر کے باوجود نگران حکومت شیڈول کے مطابق انتخابات کی یقین دہانی کروا رہی ہے مگر دہشت گردی کی لہر یقینی طور پر پاک فوج کے سربراہ کے لئے اہم ترین چیلنج ہے۔ نگران وزیر اعظم نے ایک روز قبل ہی یہ حیران کن انٹرویو دیا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر تیز ہوگی اور یہ کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر بھی معاملات سنگین۔

میرے سامنے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی پشاور ہائیکورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کی خبر بھی موجود ہے جس کے مطابق مولانا فضل الرحمان اس وقت دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر سب سے زیادہ ہیں اور یہ کہ مسلم لیگ نون، اے این پی اور پی ٹی آئی بھی نشانے پر ہیں۔ مجھے یہاں سابق وزیر اعظم کی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل وہ تقریر یاد آ رہی ہے جس میں وہ افغانستان سے ہزاروں ملیٹینٹس کو واپس بلانے اور آباد کرنے کے فیصلے کو جواز دے رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ جنگ ختم ہوئی ہے مگر جنگجو نہیں ہوئے۔

ایک طرف پاک فوج کے جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں تو ایسے میں یہ بھی قابل اطمینان ہے اور قابل فخر بھی کہ فوج کی پشت پناہی کے ساتھ حکومت نے عشروں سے ملک میں موجود غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے کا کام شروع کیا ہے۔ یہ کریک ڈاؤن ملک میں اس پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے جس سے ہم اسی او رنوے کی دہائی سے محروم رہے ہیں۔ یہ ہماری ماضی کی بہت ساری مجبوریوں ہی نہیں بلکہ غلطیوں کا بھی ازالہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ معاملات کو پہلی مرتبہ سو فیصد ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے طے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے مسائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلا انتظامی حصہ ستر برس سے زائد کی کمیوں اور کوتاہیوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا امن و امان سے وابستہ حصہ افغانستان کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور تیسرا سیاسی مسئلہ پچھلے عشرے کے غلط فیصلوں کا ہے۔

میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ جنرل عاصم منیر نے ان تمام مسائل کا درست ادراک کر لیا ہے اور ان تینوں سے الگ الگ نمٹنے کے لئے دن رات محنت بھی ہو رہی ہے۔ کیا یہ اہم نہیں کہ جہاں دوست ممالک سے تعلقات بحال ہو رہے ہیں وہاں پاک فوج کے سربراہ سرمایہ کاری میں رکاوٹ سرخ فیتے کا بھی خاتمہ کر رہے ہیں۔ وہ تاجروں سے بھی مل رہے ہیں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی مگر یہ نشاندہی درست ہے کہ انہوں نے اب تک صحافیوں سے کوئی باقاعدہ اور باضابطہ ملاقات نہیں کی جس کے بہت سارے مطلب لیے جا سکتے ہیں، تشریحات کی جا سکتی ہیں۔

میں ایک تقریب کے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ سپہ سالار جس خلوص دل، رجائیت پسندی اور منطق کے ساتھ بات کرتے ہیں وہ بہت سارے سیاستدانوں سے زیادہ دل میں گھر کرنے والی ہے، اسی کی بنیاد پر فیصلہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح اور ایک شاندار پاکستان بنانے کے لئے ان کی ذات، محنت اور ویژن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin