کرکٹ سے جنگ تک، آپ کس کے ساتھ ہیں؟

بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ آپ کا نام اور مذہب کیا ہے، آپ کی نسل اور وطن کیا ہیں اور اگر آپ اپنے مذہب اور اپنے وطن کی بجائے دشمن کے ساتھ کھڑے ہیں، اس کا مؤقف بیان کر رہے ہیں تو آپ وہی ہیں جنہیں میر جعفر اور میر صادق کا نام دیا گیا تھا، جنہیں ہر قوم نے اپنی تاریخ میں دشمن اور غدار کہا ہے۔ آپ ٹی وی پروگراموں سے عدالتی مقدمات، باہمی جھگڑوں سے ریاستی تنازعات تک میں چلے جائیں، سچ کے ہمیشہ دو چہرے ہوتے ہیں، ایک سچ آپ کا ہوتا ہے اور دوسرا سچ آپ کے مخالف کا۔ اگر آپ کا سچ جھوٹا ثابت بھی ہوجائے تو آپ اس کے خلاف اپیل میں چلے جاتے ہیں یعنی آپ کا سچ، آپ کی نظر میں، سچ ہی رہتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی یہ دیکھا کہ عدالتی فیصلے میں ہار نے والا یہ کہہ رہا ہو کہ اس نے جھوٹ بولا تھا، کسی دوسرے کا حق غصب کیا تھا؟ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، ہماری بھارت سے جنگ ہوئی اور دوسری جنگ دہشت گردوں سے جاری ہے اور میرا سوال یہی ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں، پاکستان کے ساتھ یا بھارت کے ساتھ، آپ کس کا سچ بول رہے ہیں؟
میں نے ایشیا کپ میں پاکستان کو کرکٹ میچ ہارتے ہوئے دیکھا۔ مجھے افسوس ہوا کیونکہ میں پاکستان کے ساتھ تھا، ہوں اور رہوں گا۔ ہم عا م انسانوں کی مجبوری ہے کہ ہم اپنا باپ بدل سکتے ہیں نہ ہی اپنا نظریہ اوروطن۔ میں نے اس پر دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو بہتر ہونا چاہیے۔ یہ میرے لئے قابل قبول ہی نہیں کہ ہم بھارت سے ہارتے رہیں اور مسلسل ہارتے رہیں مگر صاحبزادہ فرحان اورحارث رئوف پر تنقید تو بالکل ہی دوسری بات ہے جیسے اپنادھڑا، اپنا وطن تبدیل کر لینا۔
کارکردگی ایک الگ موضوع ہے اور کھیل کے میدان میں سیاست کو لانا ایک الگ موضوع۔ دونوں کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا اور جو ایسا کرتے ہیں وہ ایجنڈے پر ہوتے ہیں۔ چلیں، کرکٹ میں کارکردگی پر تو بات ہوگئی اوراس پر میری رائے بھی سامنے آگئی۔ میں نے کہا کہ موجودہ کرکٹ ٹیم کی حمایت کی شرط کارکردگی بھی ہے اورہماری عزت بھی اور اگر یہ دونوں نہیں ہوں گی تو ہماری حمایت بھی نہیں ہوگی۔ ہم چاہیں گے کرکٹ بورڈ سے کرکٹ ٹیم تک میں تبدیلیاں ہوں اور دوسرا موضوع وہ سیاست ہے جو کھیل کے میدان میں لائی گئی۔ اس وقت ایک ایسا گروہ جو دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے اور معرکہ حق میں بھارت کے ساتھ وہ کرکٹ کے میدان میں بھی صاحبزادہ فرحان اور حارث رئوف پر تنقید کر رہا ہے۔
میرا سوال ہے کہ کیا کرکٹ کے میدان میں سیاست پاکستان لایا ہے یا بھارت۔ کیا یہ بھارت کی ٹیم نہیں تھی جس نے مودی سرکار کے حکم پر سیاسی بنیادوں پر پاکستان آنے سے انکار کیا۔ کیا یہ بھارت کی ٹیم نہیں تھی جس نے میچ کے دوران پاکستان کی ٹیم سے ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ کیا یہ بھارت کی ٹیم نہیں تھی جس نے اپنی کھیل کی جیت کو پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے ساتھ منسوب کیا۔ کیا یہ بھارتی نہیں تھے جو سٹیڈیم میں اکہتر کی جنگ کے پوسٹر لائے تھے اور کیا یہ بھارتی نہیں تھے جو پاکستانی کھلاڑیوں کو دیکھ کے نفرت آمیز نعرے لگا رہے تھے۔
اس موقع پراگر آپ ایک شاندار ففٹی بنانے والے صاحبزادہ فرحان کی سیلیبریشن پر اعتراض کرتے ہیں یا ان متعصب اور جارح بھارتیوں کے نعروں پر رافیل گرانے اور چھ صفر سے ہرانے کا جواب دینے والے حارث رؤف پر چڑھائی کرتے ہیں تو آپ یقینی طور پر بھارت کے ساتھ ہیں، آپ اپنا وطن اور اپنی وفاداری تبدیل کر رہے ہیں چاہے اس کی دلیل آپ کے پاس جتنی مرضی خوش نما ہی کیوں نہ ہو مگر یہ باپ بدلنے کے برابر ہی ہے۔
آپ کیا چاہتے ہیں کہ بھارتی نفرت انگیز نعرے لگا رہے ہوں اور پاکستانی منہ نیچے کرکے معذرت خواہانہ انداز میں کھڑے ہوں، یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر محب وطن اور غیرت مند پاکستانی جواب دے گا، ہاں، محب وطن اور غیرت مند پاکستانی، آپ کی حیرانی بنتی ہے کیونکہ شائد آپ کی ان خوبیوں سے کوئی آشنائی نہیں ہے۔ رہ گئی میچ کی بات تو میچ ہوتے رہیں گے اور ہم ہارتے، جیتتے بھی رہیں گے۔
اب آجائیں ہم وادی تیراہ میں چلتے ہیں جہاں ایک افسوسناک واقعہ ہوا ہے۔ میں اور آپ وادی تیراہ میں موجود نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اس انفارمیشن کے ساتھ جانا ہے جو ہم تک مصدقہ ذرائع سے پہنچ رہی ہے۔ میرے پاس ایک اطلاع پاکستان کی ریاست اور اداروں کی طرف سے ہے، جی ہاں، ان اداروں کی طرف سے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ وہاں خوارج نے بم بنانے کی فیکٹری بنا رکھی تھی اور بارود جمع کر رکھا تھا اور جب بارود کے اس ذخیرے میں دھماکے ہوئے تو خوارج بھی مارے گئے اوران کے ساتھ ساتھ دس معصوم لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں جبکہ دوسری طرف پروپیگنڈہ یہ ہے کہ یہ ہلاکتیں فضائی بمباری کے ذریعے ہوئیں۔
یہ پروپیگنڈہ کرنے والے لوگ وہی ہیں جو معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص میں کہہ رہے تھے کہ بھارت بہت طاقتور ہے اور مودی نے حملے کے لیے بہت ہی مناسب وقت چنا ہے۔ اب یہاں میں اپنا وہ بنیادی سوال دہراؤں گا کہ آپ ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ہیں۔ کیا ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن کی اخلاقی قدریں انتہائی بودی ہیں۔ جو سوشل میڈیا پر جھوٹ، فریب اور غداری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جو اپنے سیاسی مقصد کے لئے نو مئی کرنے والے اور پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کال دینے والے ہیں۔ جو کبھی آرمی چیف کو اپنا باپ کہا کرتے تھے اور پھر انہوں نے اسے ہی میر جعفر اور میر صادق کہنا شروع کر دیا یعنی وہ تو اس کے بھی سگے نہیں جسے باپ کہتے ہیں، دوسری طرف وہ ہیں جواس دھرتی پر امن کی خاطر دہشت گردوں کا راستہ روکتے ہوئے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے تو میں امن والوں کے ساتھ جائوں گا، وطن والوں کے ساتھ جائوں گا کیونکہ یہ بات دھڑے کی ہے۔ میں اس دھڑے کے ساتھ نہیں ہوں جو کھاتا بھی پاکستان کی پلیٹ میں ہے اور مُوتتا بھی اسی پلیٹ میں ہی ہے۔ اس سے گندا، اس سے غلیظ اور اس سے گھٹیا کون ہوسکتا ہے۔
کرکٹ کا میدان ہو یا جنگ کا، آپ کو سب سے پہلے ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔ جب آپ یہ فیصلہ کر لیں گے تواس کے بعد آپ کے لئے رائے رکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ بھارت کے ساتھ جاتے ہیں یا دہشتگردوں کے ساتھ مگر پھر آپ کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ آپ سے ریاست پھروہ سلوک کرے جو غداروں سے ہوتا ہے، تخریب کاروں سے ہوتا ہے کیونکہ جنگ میں بات دھڑے کی ہوتی ہے۔

