بے چاری اسٹیبلشمنٹ
ہوسکتا ہے کہ آپ کو کالم کے اس عنوان سے اختلاف ہو اور آپ کے پاس دلیل ہو کہ مقتدر حلقے ایک ہنگ پارلیمنٹ بنانا چاہتے تھے سو اس میں کامیاب رہے مگر یہی مقتدر حلقے اس وقت کس مشکل میں ہیں اس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ مقتدر حلقوں کی اس وقت سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی ہو، معاشی استحکام آئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس منزل کو ایک کمزور حکومت کے ساتھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
سب پہلے اسی بیانئے کو دیکھ لیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کی پچاس سے زائد سیٹیں ہروا دی ہیں۔ پی ٹی آئی والے فارم پینتالیس اور سینتالیس کے درمیان فرق کی دہائیاں دے رہے ہیں مگر وہ تمام فارم پینتالیس کہاں ہیں جن میں پی ٹی آئی جیتی ہے ان کے بارے کوئی نہیں بتا رہا۔ صحافیوں کے مطابق سیالکوٹ سے ریحانہ ڈار نے بھی اپنی شکست کے حوالے سے جو ثبوت عدالت میں پیش کئے ان میں سے ایک اے آر وائی کا سکرین شاٹ تھا۔
غیر جانبدار تجزیہ نگارو ں کے مطابق پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر 2013ء کے انتخابات والی پوزیشن پر لوٹ گئی ہے جب اس نے پینتیس پنکچروں کا الزام لگایا تھا اور اب اسے ڈبل کر دیا گیا ہے۔ دھرنوں کی تباہی کے بعد اس وقت کے چئیرمین پی ٹی آئی نے اپنے ہی پیدا کئے ہوئے اتنے بڑے بحران کو یہ کہہ کے چٹکی میں اڑا دیا تھا کہ ان کا بیان سیاسی تھا۔ اس وقت کے مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی کو ایک جن بنانے کا جو کام شروع کیا تھا اس کی انتہا نو مئی کو ہو ئی تھی جب عمران خان کی گرفتاری پر جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاوس اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کر دئیے گئے تھے۔
بات دھاندلی کی ہورہی ہے تو اس میں یہ سوال بہت دلچسپ ہے اگر مقتدر حلقوں سے دھاندلی کروائی توپھر پی ٹی آئی کے خلاف یہ دھاندلی خیبرپختونخوا میں کیوں نہیں ہوسکی، جہاں سے اس نے کلین سویپ کیا۔ حقائق یہ ہیں کہ خیبرپختونخوا کے نتائج میں دوسری طرف سے دھاندلی کے مضبوط شواہد ملے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان پر تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔ یہ دھاندلی پنجاب میں رانا ثناء اللہ خان، خواجہ سعد رفیق اور خرم دستگیر خان کے لئے کیوں نہیں ہوسکی۔ یہ دھاندلی گوجرانوالہ اور سرگودھا جیسے مسلم لیگ نون کے گڑھ سمجھے جانے والے اضلاع کے ساتھ ساتھ بالخصوص فیصل آبا دمیں کیوں نہیں ہوسکی جہاں پورے ڈویژن کی دس سیٹوں میں سے نو پی ٹی آئی نے جیت لیں۔
پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں خان کی مظلومیت کی ہوا چلی۔ یہ بات ہماری ٹرانسمیشن میں پی ٹی آئی کی بی ٹیم جماعت اسلامی کے مستعفی ہونے والے امیر سراج الحق نے بھی کہی مگر یہ کیسی ہوا تھی جو صرف خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تھی، یہ سندھ اور بلوچستان میں نہیں چلی۔ اب ایک اور دلچسپ سوال ہے کہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ ملا اور اس وقت اس کے کل ووٹ ایک تہائی بیان کئے جا رہے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ باقی دو تہائی ووٹ پرو اسٹیبلشمنٹ تھا، ظاہر ہے کہ ایسا موقف اختیار نہیں کیا جاسکتا۔
پی ٹی آئی بغیر دُم کے مور بنانے او ر اسے نچانے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ہی یہ سب کچھ کرنا تھا تو پھر اسے پی ٹی آئی کے باقی پارٹیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ ظاہر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسے یہ ضرورت بھی نہیں تھی کہ وہ، پی ٹی آئی کے مطابق، اپنی ہی بنائی ہوئی پارٹیوں کے سربراہوں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو ہروا دے۔ اسے پھر مولانا فضل الرحمان کو بھی ہرگز نہیں ہروانا چاہئے تھا جو اب کئی برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت زیادہ کمفرٹ ایبل پوزیشن میں ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے مزید التوا کے حق میں تھی اور اگر کوئی سیاسی رہنما اور پارٹی الیکشن کے مزید التوا کا مقدمہ خم ٹھونک کر لڑ رہی تھی تو وہ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ہی تھی جس نے دہشت گردی اور موسم کی سختیوں کی بنیاد پر پورا مقدمہ قائم کر رکھا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرے کے پیچھے اس لئے چھُپ رہے ہیں کیونکہ ان کے پونے چار برس تباہی کے تھے۔ وہ ہمیشہ سے ایک نیا اور اچھوتا نعرہ یعنی بیانیہ دینے میں ماہر ہیں اور اب کامیابی اسی میں تھی کہ وہ ایک مختلف لائن لیتے تاکہ لوگ ان کی کارکردگی اور عثمان بزدار جیسے فیصلے بھول جاتے اور ایسا ہی ہوا۔
یہاں چلتے چلتے میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بہت سارے حلقے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ فوج کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اور انہیں کچھ آفرز کیں تواس کے بارے مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ عمران خان سے فوج کے اعلی افسران تو کیا حکومت کے کسی چپڑاسی نے بھی ملاقات نہیں کی۔ اس وقت دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ عمران خان کو صدارتی معافی دی جائے یا مقدمات کا یکطرفہ فیصلہ کرکے رہائی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ ہوگا قانون کے مطابق ہوگا۔ عمران خان اپنی سزائیں پوری کریں گے۔
واپس اپنے کالم کے عنوان بے چاری اسٹیبلشمنٹ کی طرف آتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ علی امین گنڈا پور کی بطور وزیراعلیٰ کے پی نامزدگی کا صاف مطلب ہے کہ پی ٹی آئی مفاہمت کی بجائے انتشار کے راستے پر جائے گی۔ جب علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ ہوگا تو آئے دن اسلام آباد پر سرکاری سرپرستی میں چڑھائی کی جائے گی۔ کارکردگی اور عوام کی خدمت کی بجائے جلسوں جلوسوں اور انتقامی سیاست کا دور دورہ ہوگا۔
یہ بات ثابت ہوگئی کہ بانی پی ٹی آئی نے جیل میں جا کے بھی تدبر اور تحمل کی سیاست نہیں سیکھی اور اگر انہیں پنجاب میں دوبارہ حکومت مل جاتی تو یہاں بھی وہ عثمان بزدار پلس کو ہی حکومت دے دیتے جیسے انہوں نے محمود خان کو خیبرپختونخواہ میں پہلے دی اور علی امین گنڈا پور کو اب۔ اب دوبارہ اسی بات پر آجائیے کہ جو بھی رزلٹس آئے وہ مقتدر حلقوں کے ڈیزائن کئے ہوئے تھے اور ان کی مرضی کے عین مطابق آئے تو پھر واقعی ایسی ہی دھاندلی کر لی جاتی کہ پی ٹی آئی کی سیٹیں ایوان میں پیپلزپارٹی سے بھی کم ہوتیں مگر ایسا نہیں ہوا۔
میں اسٹیبلشمنٹ کو اس لئے بچاری کہہ رہا ہوں کہ جسے اس کا لاڈلا کہا جا رہا تھا یہ اسے دو تہائی کیا سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکی، چلیں اسے جملہ معترضہ ہی رہنے دیں، یہ بے چاری تو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاوس اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں بلکہ مفروروں تک کو الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکی، جیتنے سے نہیں روک سکی۔ اب حملوں کے تین منصوبہ سازوں میں سے ایک کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بنتے ہوئے دیکھ رہی ہے، اس سے زیادہ بے چارگی کیا ہوگی؟