بے نظیر، مریم اور بُشریٰ
یہ عجب بے تُکی صورتحال ہے کہ ٹی وی چینلوں پر اینکرز خود بُشری بی بی کا معاملہ ڈسکشن کے لئے رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پہلے بے نظیر بھٹو اور مریم نواز کے خلاف بھی باتیں ہوتیں رہیں، وہ جال بچھاتی ہیں کہ بُشریٰ بی بی کے معاملے کو باقی دونوں رہنماؤں کے ساتھ رکھتے ہوئے اس کی مذمت کی جائے۔ اس کے ذریعے ٹی وی پروگراموں سے دو مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں، ایک تویہ کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے تعلقات کے حوالے سے چسکے بھی لئے جاتے ہیں اورساتھ ہی مانو سی بلی بن کے بھی دکھا دیا جاتا ہے لیکن یہ معاملہ اس سویپنگ سٹیٹمنٹ والا نہیں ہے جو ہر جگہ لگا دی جاتی ہے کہ عمران خان سے ظلم ہو رہا ہے، اس کے خلاف فیصلے آ ٓ رہے ہیں۔
میں اس حد تک تو اتفاق کرتا ہوں کہ دس سے چودہ گھنٹوں کی سماعت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، یہ معاملہ گواہوں اور ثبوتوں ہی نہیں بلکہ فریقین کے کچھ مشکوک اور کچھ اعترافی بیانات کے ساتھ دو جمع دو چار کی طرح سیدھا تھا۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا ہونی ہی تھی چاہے مزید چھ ماہ کی سماعت کے بعد ہوجاتی۔
سب سے پہلے دیکھ لیا جائے کہ کیا پی ٹی آئی کی طرف سے مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں کی یہ بات درست ہے کہ بُشریٰ بی بی کو اسی طرح ڈسکس نہیں ہونا چاہئے جس طرح ہم کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پرہرزہ سرائی یا بکواس نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا پہلا جواب یہی ہے کہ یہ معاملہ سوشل میڈیا کے الزامات کا نہیں ہے بلکہ عدالت کے فیصلے کا ہے۔ جہاں گواہوں اور ثبوتوں پر باقاعدہ بحث و تکرارہوئی ہے۔
یہ بات درست کہ پی ٹی آئی کو عدالت پر اعتماد نہیں مگر اس کے پاس ہائیکورٹس سے سپریم کورٹ تک تمام پلیٹ فارم موجود ہیں جہاں وہ ان گواہوں اور ثبوتوں کو چیلنج کر سکتی ہے جس کی بنیاد پر اڈیالہ جیل میں لگنے والی عدالت نے فیصلہ دیا ہے جبکہ دوسری طرف کوئی دلیل کوئی ثبوت نہیں، کوئی درخواست گزار، کوئی گواہ اور کوئی ثبوت نہیں، صرف اور صرف گندگی ہے جو اچھالی جا رہی ہے۔ بس من گھڑت کہانیاں ہیں جو بیان کر دی جاتی ہیں یہ سوچے بغیر کہ جھوٹ اور بہتان پر اللہ رب العزت کی عدالت سے کیا سزا ملے گی۔
بنیادی فرق کو محسوس کیجئے کہ ایک طرف صرف اور صرف سوشل میڈیا کے الزامات ہیں اور دوسری طرف عدالت کا فیصلہ۔ ایسا ہی ایک فیصلہ امریکی عدالت سے بھی آچکا ہے سو اگر کسی کو پاکستانی عدالت پر اعتماد نہیں تو کیا وہ یہی بات امریکی عدالت بارے بھی کہہ سکتا، نہیں، ایسا ممکن نہیں۔ وہ بچی اب بھی خانصاحب کی سابقہ اہلیہ اور دونوں بیٹوں کے ساتھ تصویروں اور سرگرمیوں میں جابجا دیکھی جا سکتی ہے یعنی خانصاحب کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے۔
دوسری بات یہ کی جاتی ہے کہ بُشریٰ بی بی اور عمران خان کا نکاح ان کا ذاتی معاملہ ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو نکاح جادوئی یا غیر جادوئی کسی بھی طریقے سے وزارت عظمیٰ لینے کے لئے کیا گیا، جس نکاح کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ پاکستان کی حکومت ایک نااہل ترین شخص بزدار کے حوالے ہی نہیں کی گئی بلکہ فرح گوگیاں بھی مسلط کر دی گئیں، جس کے نکاح کے نتیجے میں توشہ خانہ سے گھڑی چوری جیسا واقعہ ہوا اور جس کے واقع ہونے سے ہی القادر ٹرسٹ کی ڈیل ہوئی جس میں محترمہ کو ٹرسٹی بنایا گیا تو پورے ملک میں تباہی مچانے والا نکاح کسی طور بھی ذاتی معاملہ نہیں ہوسکتا جیسے کلنٹن کا مونیکا لیونسکی کے ساتھ افیئر ذاتی معاملہ نہیں تھا۔ بشریٰ بی بی کا پی ٹی آئی کے چیئرمین کے ساتھ نکاح مکمل طور پر ایک سیاسی معاملہ تھا جو ریاستی معاملات پر اثرانداز ہوا اور بہت ہی منفی انداز میں ہوا۔
ہم پھر وہی بات کرتے ہیں جس کے بارے فکری مغالطے پیدا کئے جا رہے ہیں کہ یہ معاملہ بینظیر بھٹو یا مریم نواز پر کیچڑ اچھالنے سے کوئی مماثلت رکھتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ ان دونوں پر کیچڑ اچھالنے والے ان کے سیاسی مخالفین تھے جیسے بے نظیر بھٹو کی تصاویر گرانے کی بات کی جاتی ہے تویہ راولپنڈی کا واقعہ ہے جس میں پی ٹی آئی کے وزیر ریلوے اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد خود ملوث تھے۔
بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں خواتین کے خلاف ان کے سیاسی مخالفین تھے یا اب سوشل میڈیا ٹرولز ہیں۔ اس فرق کو سمجھئے، بشریٰ بی بی کے خلاف فریق ان کے سابق شوہر ہیں۔ اب آپ اسے جتنا مرضی اچھا یا برا کہیں مگر آپ اس مقدمے کو خاندانی کی بجائے سیاسی نہیں کہہ سکتے اور مقابلے میں بشریٰ بی بی کے نئے شوہر تھے۔ اس میں نکاح پڑھانے والے مفتی سعید بھی شامل تھے جو کہ خانصاحب کے پہلے سے بھی نکاح پڑھاتے رہے ہیں۔ اس میں عون چوہدری شامل تھے جو بنی گالہ کے معاملات کے انچارج رہے ہیں یعنی ان کے تمام کردار ذاتی اور خاندانی تعلق والے ہیں، سیاسی نہیں۔ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو یا مریم نواز صاحبہ کے حوالے سے فیملی میں کسی نے کبھی کوئی بات کی ہے، ہرگز نہیں سو جو لوگ بُشریٰ بی بی کے سو فیصد سیاسی اور ریاستی معاملے کونجی معاملات سے جوڑتے ہیں جو بنیادی طور پر سویپنگ سٹیٹمنٹس دیتے ہیں۔
مجھے ایک بات کہنی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہوں یا مریم نواز شریف صاحبہ، یہ دونوں سیاسی شخصیات اپنی شادی کو ہنسی خوشی نبھارہی ہیں جو کہ مشرقی خواتین کی روایت ہے، طرہ ٔامتیاز اور فخر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان کبھی تلخی یا لڑائی بھی ہوجاتی ہو جو تمام گھروں میں ہوجاتی ہے مگر کیا ہم نے کبھی کوئی بات باہر سنی؟ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو چاہئے تھا کہ وہ خاندان کے معاملے کو خاندان میں ہی سلجھانے کی کوشش کرتے، بچوں کو یا بڑوں کو بیچ میں ڈالتے، کیا انہوں نے ایسا کیا؟
اب اسی معاملے کا ایک اور رُخ دیکھئے کہ بُشریٰ بی بی اور عمران خان کو خانگی مسئلے پرسزا ہوئی تو کسی مخالف نے اس پر کوئی جشن نہیں منایا۔ مسلم لیگ نون نے سائفر اور توشہ خانہ پر تو ردعمل دیا تھا مگر اس معاملے پر خاموش رہی۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے تو باقاعدہ مذمت کی مگر ایسے معاملات پر خود عمران خان کا رویہ کیا ہوتا تھا۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ عمران خان نے کتنے گھٹیا انداز میں مریم نواز کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کا نام نہ لیا کرے کہ اس سے صفدر ناراض ہوجائے گا۔ یہ تھڑے کی بھی تھرڈ کلاس گفتگو تھی۔
سچ تویہ ہے کہ بینظیر بھٹو اور مریم نواز اپنے اپنے ادوار کی آمریتوں میں اپنے اپنے والد کے جھنڈے اٹھا کے میدان میں آئیں اور جدوجہد کی علامت ٹھہریں جبکہ بشریٰ بی بی کی آمد ہی کسی اور طرح سے تھی، کسی او رمقصد کے لئے تھی۔ آپ لومڑیوں کے دفاع میں شیرنیوں کی مثالیں نہیں دے سکتے۔