علی گیلانی بنو گے یا شوکت میر؟

بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی اس وقت ایک زخمی ناگ کی طرح پھنکار رہا ہے۔ 10 مئی کو آپریشن بنیان مرصوص میں شرمناک شکست کے بعد اسے عالمی سفارتی محاذ پر بھی بدترین ذلت اور تنہائی کا سامنا ہے۔ وہ اس حد تک ناکام اور نامراد ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس تک میں شرکت کی ہمت نہ کر سکا جہاں سے بھارت اپنا بیانیہ اور موقف دنیا کے سامنے رکھ سکتا تھا۔ اسے اندرونی محاذ پر بھی جہاں کانگریس کی طرف سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا ہے وہاں اس کے لئے مقبوضہ کشمیر میں بھی صورتحال بہت خوفناک ہے خاص طور پر لداخ جل رہا ہے۔
اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب نریندر مودی اور اس کے گماشتے کہتے ہیں کہ آپریشن سندور جاری ہے تواس کا مطلب کیا ہے یعنی جب نہ توپیں گرج برس رہی ہیں اور طیارے اپنے اپنے نشیمن میں سمٹے سمٹائے ہوئے ہیں تو کیسا آپریشن سندور اور کیسا اس کا جاری رہنا۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت نے دہشت گردی اور تخریب کاری کے لئے اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب ہم بھارت کے 88 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اسے 110 ارب ڈالر سالانہ پر لے جانا چاہ رہے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ خرچ کہاں ہو رہا ہے۔ کیا اس بھارتی فوج اور فضائیہ پر جو پاکستان کے سامنے چار گھنٹے بھی نہ کھڑی رہ سکی اور نریندرمودی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے سیز فائر اور امن کی بھیک مانگنی پڑی، جی نہیں، اس کا کچھ حصہ دہشت گردی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بی ایل اے پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے ذریعے ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ کی فنڈنگ کی جا رہی ہے اور اسی مودی کا ٹارگٹ آزاد جموں و کشمیر ہے۔
پہلے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی بات کروں گا جہاں بھارت کو ہزیمت کاسامنا ہے کیونکہ وہاں 5اگست 2019 کے اقدامات کے خلاف سخت مزاحمت ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ لداخ جیسا علاقہ بھی شعلہ جوالا بنا ہوا ہے اور وہاں بھارت کرفیو نافذ کر رہا ہے، سونم وانگچک جیسے ماہر تعلیم کو گرفتار کر رہا ہے، اسے جودھ پور کی جیل میں ڈال کے غدار قرار دے رہا ہے۔ سونم وانگچک وہی ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے بلاک بسٹر فلم میں عامر خان کے لئے فنشو وانگڑو کا کردار لکھا گیا تھا جو لداخ میں رٹا سسٹم کی بجائے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوئے سائنسی تعلیم کو فروغ دیتا ہے۔ جب معرکہ حق کا وقت تھا تو اس وقت بھارت بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایل اے پر فنڈنگ کر رہا تھا، اس وقت جعفر ایکسپریس کو اغوا کیا جا رہا تھا اور خضدار میں بچوں کی سکول بس پر حملے کروائے جا رہے تھے۔ ا س سے پہلے خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں بھی فرقہ وارانہ فسادات میں بھارت کا یہی آپریشن سندور تھا اور اس سے بہت پہلے گلگت بلتستان میں بھی۔
یہ بھارت اس وقت کشمیر میں بھی کھل کے کھیل رہا ہے اور ایکشن کمیٹی کے کچھ رہنما ہمیں اس کے مقاصد پورے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک کشمیریوں کے ساتھ پاکستانیوں کی محبت اور تعلق کا سوال ہے تو پاکستانیوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو اپنے بیٹوں کے لہو کے چراغوں سے روشن رکھا ہے، جی ہاں، اس جدوجہد میں، میں نے جہلم، منڈی بہاؤالدین سے میاں چنو ں، ملتان تک ہر روز باپوں کو اپنے بیٹوں کے غائبانہ جنازے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جن کی میتیں بھی واپس نہیں لائی جا سکتی تھیں اور ایسے بہت سارے باپوں سے بھی ملا ہوں جن کو یہی علم نہیں کہ ان کے بیٹے شہید ہیں یا غازی، مائیں ان پر پاکستان کی محبت میں کشمیر کی آزادی کے نام پر صبر کر چکیں۔ کیا اس محبت کا کوئی بدلہ ہے۔
بدلہ تواس محبت کا بھی کوئی نہیں کہ کشمیر یوں کو تین اور پانچ روپے یونٹ بجلی ملتی ہے جس کا ریٹ پاکستانیوں کے لئے چالیس روپے یونٹ ہے۔ انہیں پاکستان آٹے کا 20 کلو کا تھیلاہزار روپے کا دیتا ہے جس ریٹ پر خود پنجاب کے کسان کو اپنے گھر میں نہیں پڑتا مگر اب کچھ لوگوں نے کشمیری بھائیوں کومفت بری پر لگانے کی مہم شروع کر رکھی ہے جیسے نان کسٹم پیڈ سمگلڈ گاڑیوں کا ڈیلر مہم کا لیڈر بن کے مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیر میں نان رجسٹرڈ گاڑیوں کی اجازت دی جائے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں بجلی اورا ٓٹے کی طرح موبائل کے پیکج بھی مفت دئیے جائیں کیونکہ وہ کشمیری ہیں اور پاکستان اس لئے مجبور ہے کہ اس کا تنازع کشمیر پر بھارت کے ساتھ ہے۔
پاکستانی سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں، ہر قربانی دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں مگر پاکستان کے خلاف نعرے بازی نہیں مگر ایکشن کمیٹی یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی نہ شرما رہی ہے نہ ہچکچا رہی ہے کیونکہ بھارت کے جاری آپریشن سندور میں پیمنٹ ہی اس کام کی پکڑی گئی ہے کہ پاکستان کی فوج کے خلاف بات کرو، اسے کشمیر سے نکالنے کامطالبہ کرو۔ یہ ایکشن کمیٹی ان کشمیری مہاجرین کے بھی خلاف ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں، کیا بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں چوبیس نشستیں مہاجرین یا پاکستان کے کشمیر کے نام سے موجود نہیں ہیں، یعنی ایکشن کمیٹی والے ذاتی مفاد کی انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں اور اسے نام لوگوں کے حقوق کا دے رہے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ حقوق تب ہوتے اگر یہ سب کے لئے برابری کی بنیاد پر ہوتے مگر یہ توصرف اس بنیاد پر بلیک میلنگ ہے کہ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے۔ یہ ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر میں ہڑتال کی کال دیتی ہے مگر جب سارے شہر کھلے رہتے ہیں تو بوکھلا اٹھتی ہے اورپرتشدد ہوجاتی ہے۔ یہ تین پولیس اہلکاروں سمیت نوشہریوں کو گولیاں مار دیتی ہے تو میرا سوال ہے کہ وہ جن پولیس اہلکاروں کو مار رہی ہے کیا وہ کشمیری نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھارت سے وہ تمام اکاؤنٹس جو کبھی بلوچ بن جاتے ہیں اور کبھی یوتھیے، وہ سب کے سب اکٹھے ہو کے کشمیری روپ دھار لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں اور ان سب کا ٹارگٹ پاکستان کی فوج ہوتی ہے۔
میں اپنے کشمیری بھائیوں سے کہوں گا کہ وہ نریندر مودی کی سازش، جارحیت اور سرمایہ کاری کوسمجھیں جو وہ آپریشن سندور کے تسلسل میں ہی آزاد کشمیر میں کر رہا ہے اور سوال کروں گا کہ کیا آپ ایکشن کمیٹی کے پروپیگنڈے میں آ کے خود کو بھارت کے چنگل میں پھنسانا پسند کریں گے جس نے کشمیری جوانوں کی زندگیاں ختم کرنے اورعورتوں کی آبروریزی کے نئے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔ تم ایکشن کمیٹی کے پاکستان مخالف رہنما بنو گے یا یٰسین ملک جو پاکستان سے محبت کے جرم میں پابند سلاسل ہے اور سید علی گیلانی، جنہوں نے فرمایا تھا کہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان ہمارا ہے۔ حقوق کے لالی پاپ کے نام پربغاوت کا بارود دینے والوں سے خبردار رہیں، وہ آپ کے دوست نہیں بلکہ کھلے دشمن ہیں۔

