Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Aik Besharam Column

Aik Besharam Column

ایک بے شرم کالم

سرویکل کینسر، رحم مادر کا کینسر، ایک منٹ ٹھہریں، کیا آپ کو اس موضوع پر کالم پڑھتے ہوئے شرم آ رہی ہے مگر کیا آپ کی پیدائش اسی رحم مادر سے نہیں ہوئی، اگریہ اتنی ہی شرم والی بات تھی تو آپ کو پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا چاہئے تھا کہ میں نے یہاں سے پیدا نہیں ہونا، مجھے مرغی یا شترمرغ کے انڈے سے نکال لیا جائے۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ ہمارے بہت سارے دوست بہت سارے عام سے معاملات کو شرم و حیا والے معاملات بنا دیتے ہیں جیسے اس سے پہلے بریسٹ کینسر۔

میں پاکستان کے اعداد وشمار کی بات کروں تو خواتین کو سب سے زیادہ ہونے والا کینسر چھاتی کا کینسر ہی ہے اور شرم و حیا کی یہی عادت بہت ساری خواتین کو اس کی دوسری اور تیسری سٹیج پر لے آتی ہے جس کے بعد علاج مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے بعدخواتین کو ہونے والا سرویکل کینسر ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ اووری کے کینسر کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ حکومت نے سرویکل کینسر کے خاتمے کے لئے ایک مہم شروع کی ہے جس کے لئے کافی ساری مہنگی ویکسی نیشن نو سے چودہ برس کی لڑکیوں کے لئے بالکل مفت کی جا رہی ہے مگر یہاں بھی وہی معاملہ ہے جو پولیو کی ویکسین کے ساتھ ہے کہ اگر یہ ویکسی نیشن کرائی تو یہود وہنود کی سازش کے تحت امت مسلمہ بچے پیدا کرنے سے محروم ہو جائے گی۔

سب سے پہلے تو ہمیں اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ یورپ اور امریکہ میں بیٹھے تمام سائنسدان اور سرمایہ دار اس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں چارسدہ سے لے کر چیچوں کی ملیاں تک پیدا ہونے والے بچے روکے جائیں۔ پتا نہیں ہم خود کو وہ بیل کیوں سمجھ رہے ہیں جس کے سر پر دنیا ٹھہری ہوئی ہے اور جب ہم سر ہلاتے ہیں تو دنیا ہلتی ہے۔ ہماری حکومتیں دنیا بھر سے بھیک مانگ کے مختلف قسم کی ادویات اور ویکسین مانگ کے لاتی ہیں تاکہ ہمیں مفت لگائی جا سکیں اور ہم ان کے سامنے مزاحمت کرتے ہیں۔ ہم وہ بھکاری ہیں جو خیرات بھی اکڑ کے لیتے ہیں، اپنی شرائط پر لیتے ہیں۔

مجھے سرویکل کینسر کی ویکسی نیشن سے پہلے پولیو پر بھی بات کرنی ہے کہ یہ اسی کا تسلسل ہے۔ پولیو کے قطروں کے بارے کہا جاتا رہا کہ یہ بھی بچے پیدا ہونے سے روکنے کے لیے ہیں اور کیا ہی دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تیس پینتیس برس سے یہ قطرے پینے والے مرد اور عورتیں سب سے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ، پاکستان انڈیا، چین، امریکہ اور انڈونیشیا کے بعد آبادی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ اگلے پانچ برس میں انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، چوتھے نمبر پر آ جائے گا۔

مجھے پولیو کی ویکسین کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ یہ بچے روکنے کا کام نہیں کرتی بلکہ شائد بچے کی پیداوار بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے۔ اب خود ہی دیکھ لیجئے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس وقت ایک عورت چار یا چار سے بھی زیادہ بچے پیدا کر رہی ہے جبکہ ہم ان صوبوں میں عشروں سے پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ ہمیں اتنے بچے پیدا کرتے شرم نہیں آتی؟

ہمارے دین کا آغاز ہی نبی رحمتﷺ پر جس وحی سے ہوا تھا وہ پڑھنے کے حُکم بارے تھی مگر ہم نے نہ صرف تعلیم اور تحقیق کو چھوڑ رکھا ہے بلکہ پورا یقین رکھتے ہیں کہ جو بھی تعلیم اور تحقیق کرتا ہے وہ ہماری دشمنی میں ہی کرتا ہے۔ آج کی لڑائی جنگ سے زیادہ صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے میدان میں ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ ہم کتنی صحت مند اور پڑھی لکھی قوم چھوڑ کر جاتے ہیں مگر ہم نے ہر معاملے میں پیچھے جانے کا فیصلہ کر رکھا ہے جیسے ہمارے سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے جو کبھی ایک کروڑ ہوا کرتی تھی پھر ڈیڑھ اور دو کروڑ سے بھی اوپر جا پہنچی اور یہی معاملہ صحت کے حوالے سے ہے۔ ہم بہت سارے بنیادی فیصلے ہی نہیں لے پاتے جیسے تھیلے سیمیا پر قانون سازی۔

میں اس بارے بہت سارے برسوں بلکہ عشروں سے سن رہا ہوں۔ تھیلے سیمیا ایک ایسا مرض ہے جس میں مریض بچوں کو چاکلیٹس اور کھلونے نہیں بلکہ زندہ اور خوش رہنے کے لیے تازہ لہو خون چاہیے ہوتا ہے۔ ہر مہینے دو سے تین بار خون کا انتظام کرنا کتنا مشکل اور جان لیوا ہے اس کا اندازہ ان بچوں کے والدین ہی لگا سکتے ہیں۔ تھیلے سیمیا کے دو مائنر مریض اگر آپس میں شادی کر لیں تو اس سے تھیلے سیمیا کا میجر پیشنٹ پیدا ہو سکتا ہے۔ سب ماہرین طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ شادی سے پہلے اس کا میڈیکل ٹیسٹ لازمی کر دیا جائے مگر یہ نہیں ہو پاتا، کیوں نہیں ہو پاتا مجھے اس کی واقعی سمجھ نہیں آتی۔

اس سے بھی سنگین معاملہ جنسی امراض کے حوالے سے ہے۔ مرد ایسے امراض میں اتائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور الٹی سیدھی ادویات، سٹیرائیڈز سے بلڈ پریشر اور ہارٹ فیلیئر ہی نہیں مثانے کے کینسر سمیت نجانے کون کون سے جان لیوا امراض لگوا بیٹھتے ہیں مگر ان کی درست رہنمائی نہیں ہو پاتی۔ جس معاشرے میں مردوں کا یہ معاملہ ہے وہاں خود سوچئے کہ خواتین کا معاملہ کیا ہوگا جنہیں بریسٹ، اووری یا سرویکل کینسر ہو جائے۔ بہت ساری بچیاں تو اپنی مائوں تک سے یہ ڈسکس نہیں کر پاتیں۔

کیا یہ عجیب نہیں کہ ایسی بچیاں بھی موجود ہیں جنہیں ماہواری تک کا علم اس وقت ہوتا ہے جب انہیں خود ہو جائے اور پھر وہ اپنی سہیلیوں سے اس کے بارے میں انفارمیشن حاصل کرتی ہیں۔ ہم نے ایک طرف یہودیوں کی سازشوں اور دوسری طرف شرم و حیا کے نام پر بہت سارے بوجھ اپنے اوپر لاد رکھے ہیں۔ ایسے میں بہت ساروں کے سیاسی ایجنڈے ہیں کہ اگر شہباز شریف کی حکومت ایسی کوئی ویکسی نیشن لا رہی ہے تو یوتھیوں نے اس کی ضرور مخالفت کرنی ہے، اس پر شکوک و شبہات پیدا کرنا ہیں اور اگر عمران خان کی حکومت لے آتی تو پٹواریوں نے اس میں کیڑے نکالنا تھے۔

یہ ایک الگ مرض ہے جس میں ہمارا ہر معاملہ سیاسی ہو جاتا ہے چاہے اس کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہ ہو۔ جن میں ہمارے بچوں اور بچیوں کا بھلا ہو، ان کی حفاظت ہو ایسی باتیں کرنے میں ہرگز کوئی شرم نہیں کرنی چاہیے جیسے یہ کہ اپنے بچوں کو سکھایا جائے کہ کوئی اجنبی انہیں ٹچ نہ کرے، ان کے بدن پر ہاتھ نہ پھیرے اور اگر کوئی ایسا کرے تو وہ فوراً شور مچا دیں، اس کا منہ نوچ لیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ رحم مادر کا کینسر بہت ساری صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ یہ ایک وائرس سے ہوتا ہے جو منہ، مقعد اور رحم وغیرہ میں مسے بھی پیدا کر سکتا ہے۔ اس تکلیف کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جن کو یہ ہو جائے تو شرع میں کیسی شرم، اس سے بچاؤ حکومت مفت دے رہی ہے تو وہ ضرور کرنا چاہیے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam