افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یہ اسی اور نوے کی دہائی کے واقعات ہیں جب ایک طویل مارشل لاء کے بعد بینظیر حکومت نے طلبایونینوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ 80کی دہائی کے اواخر میں ہی ایک بار ان کے انتخابات بھی کروائے گئے تھے۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے طلبا یونینوں کے ذریعے پڑھی لکھی، جرات مند اور ویژنری لیڈر شپ ملتی ہے۔
بلدیاتی اداروں کے بعد اسے جمہوری رہنماوں کی تیاری کی بڑی نرسری بھی کہا جاتا ہے اور اگر ہم اصولی اور کتابی باتوں تک ہی محدود رہیں تو یقیناََ ایسا ہی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر جائیں تو نتائج ایک سو اسی ڈگری پر بھی ملتے ہیں اور بہت زیادہ ملتے ہیں۔ میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے سٹوڈنٹ پالیٹیکس کی ہے۔ کالج او ر یونیورسٹی میں صدر اور سیکرٹری وغیرہ بننے کا نشہ ہی اپنا ہوتا ہے۔ میں لاہور کے ایم اے او کالج میں ایم ایس ایف کے یونٹ کا جنرل سیکرٹری رہا۔
میں نے جو سٹوڈنٹ پالیٹیکس دیکھی اس میں ارشد امین چوہدری، عابد چوہدری، عاطف چوہدری وغیرہ وغیرہ کے نام بہت اہم تھے۔ اس دور میں ارشد امین چوہدری اور خواجہ سعد رفیق دو مختلف مکاتب فکرکے نام تھے مگر یہ سب ایم ایس ایف کے ہی رہنما تھے۔ ارشد امین چوہدری کی سیاست دہشت اور قبضوں پر تھی جبکہ خواجہ سعد رفیق جمہوریت اور ترقی کی بات کرتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا مقابلہ جمعیت کے ساتھ تھا۔
گورنمنٹ کالج میں راوینز کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی میں کیو ایس ایف بھی تھی۔ کہیں کہیں پی ایس ایف او ر این ایس ایف کا تڑکا بھی مل جاتا تھا۔ لاہور سے باہر بریلوی مکتبہ فکرکے نوجوانوں کی تنظیم اے ٹی آئی بہت مقبول تھی۔ ا چھرے میں جہاں مولانا مودودیؒ کی پہلے رہائش اور پھر مقبرہ ہے اسی علاقے میں جمعیت کا ہیڈکوارٹر بھی تھا۔ بے نظیر بھٹو کی طرف سے سٹوڈنٹس یونینز کے الیکشن کروانے کے اعلان کے بعد سب نے صف بندی کر لی تھی اور میری یہاں صف بندی سے مراد صرف اور صرف تعلیمی اداروں پر قبضے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی، ایف سی کالج، سائنس کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز جمعیت کے ہولڈ میں تھے اور وہاں مخالف پر نہیں مار سکتے تھے اور اسی طرح ایم اے او کالج، دیال سنگھ کالج، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، کمرشل کالج اقبال ٹاؤن سمیت دیگر پر ایم ایس ایف کے قبضے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ پی ایس ایف والے ایم اے او کالج میں قبضہ کرنے کے لئے گھسے تو ان کے سر پھاڑ کے روانہ کیا گیا اور معاملہ صرف سرپھاڑنے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس دور میں درجنوں نوجوان قتل ہوئے جن میں بڑی تعداد ایم ایس ایف اور جمعیت والوں کی تھی۔
میں جمعیت کو زیادہ جمہوری اور نظریاتی جماعت مانتا ہوں مگر اس سے بھی انکا رنہیں کرتا کہ قبضے کرنے میں بھی اس کا کردار کہیں زیادہ ہے۔ لاہور سے باہر نکلوں تو کراچی میں اے پی ایم ایس او کے ذریعے الطاف حسین کو مار پیٹ کرکے سیاست میں لانے والی بھی جمعیت ہی تھی جس کے بعدجماعت اسلامی نے کراچی میں علامہ شاہ احمد نورانی والی جے یو پی سمیت باقیوں کے چراغ بھی بجھا دئیے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر جمعیت مار کٹائی نہ کرتی تو شائد آج ایم کیو ایم بھی نہ ہوتی یا کم از کم نوے کی دہائی والی نہ ہوتی۔
بہت سارے لوگ دعوے کرتے ہیں اور درست دعوے کرتے ہیں کہ قیام پاکستان میں طلبا کا بہت بڑا کردار تھا یعنی ایم ایس ایف کا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ایم ایس ایف کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر ان لوگوں کویہ بھی یاد کروانا ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کی منزل کے حصول کے بعد نوجوانوں کو سیاست کی بجائے تعلیم پر توجہ دینے کی ہدایت کی تھی اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ایک وقت آیا تھا کہ پہلے میاں نواز شریف اور بعد میں چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنی اپنی مسلم لیگوں کے دستور سے ایم ایس ایف والا باب ہی ختم کر دیا تھا۔
میں نے سٹوڈنٹ پالیٹیکس باقاعدہ مقدمات اور گرفتاریوں کی صورت بھگتی ہے اور پھر مجھے میری امی نے کہا تھا کہ بیٹا ہم تھانے کچہری نہیں بھگت سکتے تب میرے سر سے انقلاب کا بھوت اترا تھا ورنہ ہر نوجوان سٹوڈنٹ لیڈر کی طرح میں یہی سمجھتا تھا کہ میں ہی وہ بیل ہوں جس کے سر پریہ دنیا ٹکی ہوئی ہے اور جب میں سر ہلاتا ہوں تو دنیا ہلتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مائیں امام ضامن باندھ کے اپنے بیٹوں کو کالجوں میں بھیجا کرتی تھیں ا ور سٹوڈنٹ پالیٹیکس کے اسی دور کے بارے میں اکبرالہ آبادی کا یہ شعر بیان کیا جاسکتا ہے
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
میں مانتا ہوں کہ لیاقت بلوچ سے جاوید ہاشمی تک اور سعد رفیق سے جہانگیر بدر تک سٹوڈنٹ پالیٹیکس سے بہت سارے لیڈر ملے مگر میرا خیال ہے کہ مجموعی طور ارشد امین چوہدری جیسے جرائم پیشہ بہت دئیے۔
علی امین گنڈا پور نے خیبرپختونخوا میں سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے تو میں بدنصیب کے پی کے بارے کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا کہ جہاں پی ٹی آئی نے اس صوبے کا ستیاناس کیا ہے وہاں سوا ستیاناس کر دے، میرا کیا جاتا ہے مگر میں سچ بولے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج بھی اگر آپ سٹوڈنٹس پالیٹکس کی طرف جائیں گے تو معاشرے کو لیڈروں سے زیادہ بدمعاش، قبضہ گروپ، بھتہ خور، ڈکیت اور قاتل دیں گے۔
معاملہ تب بھی یہی تھا اور اب بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے سرکاری کالجوں کو اپنی نرسریاں بنا رکھا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنے بدمعاشوں کے ذریعے تعلیمی اداروں پر قبضے کرتی ہیں اور پھر وہاں دلیل کی بجائے دھونس، دھاندلی اور گولی کی زبان میں ہی بات ہوتی ہے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ مائیں اور باپ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں سیاستدان بننے کے لئے نہیں بلکہ افسر، انجینئر اور ڈاکٹر بننے کے لئے بھیجتے ہیں۔
بہت سارے لوگ یہ فکری مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ اس سے شعور پیدا ہوتا ہے توجواب ہے کہ شائد ستر اور اسی کی دہائی تک یہ بات درست ہو کہ اب آپ کے ہاتھوں میں موجود موبائل آپ کو ہر طرح کا شعور دے رہا ہے بلکہ ایسا شعور دے رہا ہے جس سے ہم سب شریف اور بھلے لوگ پناہ مانگ رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جیسی ویژنری لیڈر نے بھی ایک ہی مرتبہ سٹوڈنٹ یونینز کے الیکشن کروائے اوراس کے بعد بلاول کو دیکھ کے توبہ کر لی کہ کون ماں اپنے بچوں کے کالجوں کو مقتل بنا سکتی ہے۔ ویسے بھی یہ مفت کا بدمعاشی والا شعورسرکاری کالجوں وغیرہ میں ہی ملتا ہے اشرافیہ کے مہنگے سکول، کالج اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں اسے قریب نہیں پھٹکنے دیتیں۔
مجھے امید ہے کہ مریم نواز جب علی امین گنڈا پور کے اس اعلان کو سنیں گی تو کہیں گی، استغفار، میرے بچو! میں تمہارے ساتھ یہ ظلم نہیں کرسکتی، تمہیں سیاست کا ایندھن نہیں بنا سکتی۔ تم پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلو۔ ماں باپ کے خواب پورے کرو پھر ان کاموں کے لئے عمر پڑی ہے۔