مال مفت دل بے رحم
یہ ملک بین الاقوامی قرضوں پر چل رہا ہے اس کا بال بال بال بیر ونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے پر اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے اللوں تللوں میں کمی نظر نہیں آرہی آج بھی ان کے وہی لچھن ہیں جو کل تھے ماضی سے انہوں نے کوئی سبق نہیں لیا اگلے روز قومی میڈیا میں ایک خبر چھپی کہ ہماری وزارت خارجہ نے نیو یارک میں متعین پاکستان کے مستقل مندوب کی وہاں واقع سرکاری رہائش گاہ کے واش روم کی آسائش کے لیے پچیس ہزار ڈالر منظور کیے جن کی پاکستانی کرنسی میں مالیت 42 لاکھ روپے بنتی ہے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ حال ہی میں اسی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر 50 ہزار ڈالرپہلے ہی خرچ کیے جا چکے ہیں وزیراعظم کئی با ر برملا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ غیر ترقیاتی اخراجات کا قلع قمع کر دیں گے خدا لگتی یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں صرف باتوں کی حد تک ہی محدود رہی ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار بھلے وہ سیاسی لوگ ہیں یا ان کا تعلق بیوروکریسی سے ہے ان کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ان کی سوچ سرمایہ دارانہ ہے وہ نوابوں اور بادشاہوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں اور سرکاری خزانے پر مال مفت دل بے رحم کے مصداق وہ سرکاری بجٹ کو اپنی عیاشیوں کے لئے کھلے دل سے استعمال کرتے ہیں وہ لمبی چوڑی بڑی کاروں اور جیپوں میں سفر کرنے کے دلدادہ ہیں۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے ملک میں سرکاری اہلکاروں کے استعمال کے لیے چھوٹے سائز کی کاروں کی خریداری کا حکم دیا تھا تو اس پر یار لوگوں نے ان پر طنز کے تیر برسائے تھے کسی نے کہا کہ ان میں تو ہماری ٹانگیں پوری نہیں آتیں کسی نے کہا کہ ان چھوٹی کاروں پر پاکستان کا جھنڈا لہرانا بھلانہیں لگتا وغیرہ وغیرہ جاگیرداروں اور بڑے بڑے لینڈ لارڈز کو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے دیکھ کر ہمارے سیاسی رہنماوں اور بیوروکریٹس کو بھی یہ شوق پیدا ہوگیا ہے کہ وہ بھی انہی کی طرح بڑی گاڑیوں میں گھوما پھرا کریں چھوٹی گاڑی میں بیٹھنے کو تو وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں ہم میں منموہن سنگھ جیسے سیاسی رہنما پیدا نہ ہو سکے انہوں نے وزیراعظم کے سرکاری استعمال کے لیے BMW بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم کے استعمال کے لیے بھارت میں ہی بنی ہوئی کوئی گاڑی خریدیں یہ سرکاری پیسوں کے غلط استعمال کا رجحان فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے تک نہ تھا مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر جن کا نام چودھری فضل حق تھا وہ ایوب خان کی کابینہ میں وزیر مواصلات تھے جب انہوں نے اپنے عہدے کا حلف لیا تو اپنے دفتر کے کیئر ٹیکر سے کہا کہ اگر ان کے آفس کا فرنیچر تبدیل کر دیا جائے تو اس پر کتنا خرچہ اٹھے گا وہ سستا زمانہ تھا کیئر ٹیکر نے حساب لگا کر کہا اس پر چوبیس ہزار روپے خرچہ آئے گا یہ جواب سن کر وزیر صاحب نے ان سے کہا یہ تو کافی رقم ہے چھوڑو رہنے دو پرانا فرنیچر ہی ٹھیک ہے آج کل تو یہ رسم بن چکی ہے کہ جب بھی تین چار سال بعد نئی حکومت بنتی ہے تو وزراءکے دفاتر کی تزئین و آرائش پر اچھی خاصی رقم خرچ کر دی جاتی ہے اسی طرح ان کے استعمال کے لیے نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے ہم نے آج تک کسی بھی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔ جو بھی حکومت آتی ہے ابتداءمیں وہ ایسے اقدامات کا اعلان کرتی ہے جن کا مقصد عوام کو یہ آس دلانا ہوتا ہے کہ حکومت غیر ترقیاتی اخراجات اور فضول خرچی سے گریز کرے گی تاہم بعد میں وہی چال چلن اختیار کرتی ہے جس پر سابقہ حکومتیں چلی ہیں۔