توقعات کے شیش محل
اقبال نے کہا ہے ؎
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
مجھے عالم بالا کی خبر نہیں کہ روح اقبال موجودہ طرز حکمرانی سے خوش ہے یا اسے آج کے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ سے بہت ساری شکایات ہیں، میں فیصلہ نہیں دے سکتا اور میرا یہ استحقاق بھی نہیں مگر والٹیئرکا یہ قول مجھے یادآتا ہے کہ " آپ کا بہترین فیصلہ وہ ہے جو آپ نے اچھے موڈ میں کیا ہو۔" لیکن ضروری نہیں کہ میں موجودہ طرز حکمرانی پر والٹیئرکے اس قول کا استنباط کروں۔ زمینی حقیقت یہ کہ حزب اقتدار کے اچھے موڈ کی تلاش وجستجو میں عوام کو پی ٹی آئی کے 18 ماہ کی صحرانوردی میں گزارنا پڑیں گے۔
کیونکہ طرز حکمرانی اپنے تاریخی تسلسل اور سیاق وسباق میں بہت سی دشوارگزار سیاسی، سماجی اور معاشی گھاٹیوں اورکھائیوں سے ہوکرگزری ہے جب جا کر ہمارے سامنے ایک حکومت آئی ہے جس کے ابتدائی دورانیے پر سوالات کی بوچھاڑ ہے۔ حکومت کو مسائل سے فرصت نہیں، روز ایک نیا بحران، روز ایک نیا بیانیہ، ہر لمحہ ایک ٹینشن، محاذآرائی، مستقل کشیدگی، بلیم گیم، احتساب اور کرپشن کے خاتمے کا شور، اربوں کا قرضہ، سابقہ حکومتوں کی دم پکڑے ارباب اختیار ایکلاحاصل جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہیں کہ مکالمہ کو سپیس ملے اور مناظرہ ترک کیا جائے۔
کسی نے پوچھا کہ22 کروڑ عوام کی اکثریت ایک اقلیتی اشرافیائی سیٹ اپ کے ہاتھوں زبان کے تشدد سے لہو لہان کیوں ہے، مشہور فقرہ ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن اس حسن خانہ خراب نے سیاسی روایات کی روسیاہی میں سارے ریکارڈ توڑ دیے، ہم نے عمر کا نصف حصہ رپورٹنگ میں اور اب نصف صحافت فکری معاملات کی تفہیم وتوجیع میں گزاررہے ہیں، کئی واقعات وحوادث کی کوریج دیکھی، سیاسی رہنمائوں کے تدبر، ان کے سیاسی تشخص اور ورلڈ ویو کا قریبی مشاہدہ کیا، اگر اہل صحافت وسیاست کا یہی انداز نظر ہے کہ ملکی حالات میں مسلسل ابتری رہی، عوام نے انحطاط اور بحران ہی دیکھے، 72سالہ قومی زندگی میں پیش قدمی کا نکتہ عروج یہ ہے ملک میں آٹے کی قلت اور مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جب کہ دل مانتا ہی نہیں کہ ایک زرعی ملک جس کی اساس 80 فی صد زرعی معیشت پر ہے اس کے عوام کو دسیوں کھانے بنانے کے ہنر تو ٹیلیویژن پر دستیاب ہیں مگر آٹا حاصل کرنے کے لیے کراچی سے خیبر تک قطار میں لگنے کے لیے خوار ہونا پڑا۔
گندم کے متنازع برآمدی فیصلے کی رد میں اب تین لاکھ ٹن گندم کی درآمد منظوری کے حتمی مرحلہ میں ہے، میڈیا میں بحث ہورہی ہے کہ ایک افراتفری کا سماں ہے، آج آٹے کا مسئلہ حل ہوگا تو کل مرغی کے گوشت کی قیمت اچانک بڑھ جائے گی، اس پر قابو پا لیا تو چینی، گھی، پیاز، بھنڈی، ادرک یا لہسن بازار سے غائب ہونگے، حکومتی اتحادی ایک ساتھ احتجاجی بینر لے کر کھڑے ہوگئے، چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد کا سلسلہ شاید بند نہ ہو، حکومتی ماہرین کہتے ہیں کہ آٹا فراہمی کی "چین" chain ڈسٹرب ہوئی ہے، مس مینجمنٹ کا مسئلہ ہے، سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ گندم اورآٹے کی دستیابی میں اکیلی سندھ حکومت ذمے دار ہے تو پنجاب میں آٹے کا بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس سارے جھگڑے کو عوام بھگت رہے ہیں، ملکی سیاست کی فہمیدہ طاقتیں غیرموثر نہیں ہونی چاہیئیں، انھیں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت اور تعلقات کار کی پارلیمانی ضرورت کا احساس دلانا ناگزیر ہے ورنہ سارا کھیل بگڑسکتا ہے، اولین ضرورت ارباب سیاست کے تحمل اور بردباری کی ہے۔
یہ چیزگزشتہ دنوں پارلیمانی سطح پر نمودار ہوئی، آرمی چیف اور دیگر چیف صاحبان کی توسیع، تقرری اور آرمی ایکٹ میں دیگرترامیم میں اپوزیشن کی جانب سے خوش اسلوبی سے پیش رفت قابل تحسین سمجھیں، اب اسی کا تسلسل نیب قوانین میں اصلاحات، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، کمیشن کی فعالیت اورپارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب کو عملی تعبیر دینے کی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ جمہوریت اپوزیشن اور حزب اقتدار میں رسہ کشی سے کمزور ہوئی ہے۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ابھی تو ہمیں اقتدار میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہیں اور ہم سے توقع کی جارہی ہے کہ 72 سال کی جمع شدہ خرابیوں کو دور کر کے ملک کو ڈیڑھ برس کی مدت میں رشک جنت بنا دیں۔ منطق میں جان ہے لیکن عہد حاضر کے سیاسی فلسفیوں سے یہ نکتہ حل ہوگا تب ہی عوام کو تبدیلی اور داخلی صورتحال میں بہتری نظر آئیگی۔ خارجی منظر نامہ اورچیلنجزکا موضوع ایک الگ باب کا تقاضہ کرتے ہیں، لیکن جمہوری قوتوں میں اعتبار اور بے اعتباری کے فاصلے کم ہونگے تو مشکلات بھی کم ہونگی۔
دلوں کی الجنھیں بڑھنے لگیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
ارباب اختیار کے لبوں پر استدعا ہے کہ عوام صبرکریں، معیشت مستحکم ہو رہی ہے، ڈالر کی اڑان رک گئی ہے، روپیہ جان پکڑ رہا ہے، عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، حکومت اپنی میعاد پوری کرے گی، شیخ رشید کا کہناہے کہ عوام حکومت کو ڈیڑھ سال مزید دیں۔ ادھر اسٹیٹ بینک کے وقتاً فوقتاً جاری اعلامیوں اورعالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے معاشی حالات کی بہتری کے خوش رنگ دعوئوں کا سلسلہ جاری ہے، ترسیلات زر کی خوش آئند خبریں ہیں، آئی ایم ایف حکام اپنے پروگرام کی درست سمت میں سفر پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں، توقع کی جارہی کہ معیشت 2021 میں کروٹ بدلے گی۔ تاجر خوش ہوگئے، روزگار اسکیم، ہائوسنگ منصوبے اور ہنرمندوں کے لیے ملک میں بے شمار مواقع کے اعلانات جاری ہیں، مگر مہنگائی کا "جن" سڑکوں پر رقص کررہا ہے۔
اپوزیشن رہنما کہتے ہیں کہ غریب سے لقمہ چھینا جا رہا ہے۔ تمام تر دلفریب نعروں، سابق حکومتوں پر ہولناک رگڑے لگائے جانے پر بھی آسودگی، معاشی اطمینان، اشیائے ضرورت کی ارزانی کا کوئی میکنزم قائم ہوتا نظر نہیں آتا، مسائل کے حل کے مناظر بدلتے رہتے ہیں، سرکاری بیانات کی فیکٹریاں اوور ٹائم کر رہی ہیں، مہاتیر محمد حکمرانوں کو ایک ٹویٹ میں پھر یاد آگئے، ابھی کولمبو کانفرنس میں ہماری نشست خالی ملی تھی۔ حکومت مخالف ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا چاہتا ہے، اس کے وہ بیشمار اسباب گنواتے ہیں۔
ان کے نزدیک یہ داخلی اضطراب کسی غیر ملکی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ مہنگائی پر حکومت کے معاشی مسیحائوں کا اظہار تعجب زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ اطلاع آئی ہے کہ گرما گرم تنور والے نان بھائیوں نے چپاتی، روٹی، نان اور قندھاری نان، پراٹھے کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور اب وہ تندور بند کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ جب ٹماٹر 17روپے میں مشیر خزانہ کو اسلام آباد میں دستیاب تھے تو عام مارکیٹ میں لوگ تین سو روپے کلو میں ٹماٹر خرید رہے تھے، اسے اگر مسلمہ مستحکم معیشت مان لیا جائے تو آٹے اور روٹی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں دشواری کس بات کی ہے، جان بچانے والی ادویات اور سبزیوں کے دام آسمان کو چھونے لگے ہیں۔
ہم چونکہ لڑکپن میں کبھی فٹبالر بھی رہ چکے ہیں، اور باکسنگ کے عالمی مقابلوں سے محظوظ ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے بعض ماہرین کی کچھ باتیں بھی یاد رکھتے ہیں۔ ایک مشہور فٹبالر کا کہنا تھا کہ کسی بھی دو بڑی ٹیموں کے میچ میں جب یہ طے ہوجائے کہ کسی کو کھیلنے نہیں دینا تو لاکھ میسی اور رونالڈو مقابل ہوں سارا میچ فائول پلے کی نذر ہوکر برباد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک بار سوال پوچھا گیا کہ عظیم باکسر محمد علی کی ناقابل شکست فائٹس کی سحر انگیزی کا راز کیا تھا، وہ کیا طاقت تھی جس نے علی کو جو فریزئیر اور بھینسے جیسے جارج فورمین کو ناک آئوٹ کردیا۔ جواب تھا محمد علی کا طلسماتی ناقابل شکست دفاعی کھیل، ان کا گارڈڈ انداز، مخالف کو تھکا دینے والا حفاظتی حصار۔ وہ اپنی طاقت کو ضایع ہونے سے بچانے والا عظیم ترین باکسر ثابت ہوا۔
یہی ملین ڈالرسوال آج کے حکمرانوں سے ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت لاحاصل "پنچنگ بیگ " پر ضایع کیوں کر رہے ہیں؟