توشہ خانہ کے تحائف
آجکل توشہ خانہ کے حوالے سے بحث چل رہی ہے۔ عمران خان نے یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے قیمتی تحائف ارزاں قیمت پر حاصل کییاور بعد ازاں مہنگے داموں فروخت کر دیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میرے تحائف میری مرضی، میں جو بھی کروں۔ رکھوں یا بیچ دوں۔
کسی کو سوال کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔ لیکن عمران خان ایک طرف تو اپنی سیاست کو دوام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں، اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہیں تو ریاست مدینہ کی مثالیں دی جاتی ہیں اور جب اپنی باری آئے تو میرے تحفے میری مرضی کا بیانیہ آلاپنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
یہی عمران خان جب اپنے مخالفین سے حساب لینے کی بات کرتے ہیں تو خلیفہ ثانی حضرت عمر کی طرز حکومت کی مثالیں دیتے ہیں کہ ان سے مسجد میں ان کی دو چادروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو خلیفہ وقت نے عام شہری کے دوسری چادر کے سوال کا جواب دیا۔
لیکن جب خان صاحب سے خود توشہ خانہ کے تحائف کا سوال کیا جائے تو وزارت عظمیٰ کے دوران وہ کچھ بتانے سے انکاری رہیں اور جب وزارت عظمیٰ جانے کے بعد صورتحال سامنے آئے تو کہہ دیں کہ میرے تحائف میری مرضی، میں کسی کو جوابدہ نہیں۔ سوال یہی ہے کہ اگر آپ ریاست مدینہ کی سیاست کرتے ہیں تو پھر آپ جوابدہ ہیں۔ اگر آپ ریاست مدینہ کی سیاست نہیں کرتے تو پھر اس کا نام بھی نہ لیں، دوسروں کے لیے ریاست مدینہ کے اصول اور اپنے لیے معافی۔ یہ کیسے چل سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم سید منور حسن جب ابھی جماعت اسلامی کے امیر ہی تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی۔ امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے پورے ملک سے عمائدین اور اہل اقتدار ان کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے۔
سب نے مہنگے تحائف بھی دیے۔ جب شادی کی تقریب ختم ہوئی تو سید منور حسن نے وہ تمام تحائف جو مہمان ان کی بیٹی کو دے کر گئے تھے، اکٹھے کییاور اپنی بیٹی سے کہا کہ" یہ تحائف تمھیں نہیں ملے، یہ امیر جماعت اسلامی کی بیٹی کو ملے ہیں، اس لیے تمہارا ان پر کوئی حق نہیں ہے"۔ ان تحائف میں کئی بیش قیمت تحائف بھی شامل تھے۔ سونے کے سیٹ تھے۔ سید منور حسن سب تحائف جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا ئے اورکہا کہ میرا ان پر کوئی حق نہیں۔ یہ سب جماعت اسلامی کی امارت کی وجہ سے ملے ہیں۔ اس لیے انہیں جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع ہو جانا چاہئے۔
میر ااور میری اولاد کا ان پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہے ریاست مدینہ۔ اگر جناب عمران خان بھی صحیح معنی میں ریاست مدینہ کے پیروکار ہوتے تو اول تو تحائف توشہ خانہ سے لیتے ہی نہیں۔ وہ اصول بناتے کہ تحائف کھلی بولی سے بیچے جائیں اور اس کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔
اس سے پاکستان کے قرضے اتارے جائیں۔ غریبوں پر خرچ کییجائیں۔ لیکن یہ کیسی ریاست مدینہ اور اس کا حکمران ہے کہ آپ نے آدھی سے بھی کم قیمت پر یہ تحائف خود ہی خرید لیے اور پھر مہنگے داموں انہیں بیچ کر پیسے بنا لئے۔ یہ تحائف کسی نے عمران خان کو نہیں دیے تھے، یہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو دیے گئے تھے۔ آپ کی جگہ کوئی اور وزیر عظم ہوتا تو اسے دے دیے جاتے۔ آپ کی ذات کا ان تحائف پر کوئی حق نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی آپ نے ان کوخرید اور بیچنا مناسب سمجھا۔
توشہ خانے سے ماضی میں حکمران تحائف حاصل کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں جب سیلاب آیا تو ترکی کے صدر طیب اردگان کی بیوی نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اپنا ہار پاکستان کو دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بیوی نے یہ ہار اپنے پاس رکھ لیا۔ جس کا بعد میں بہت اسکینڈل بنا اور یوسف رضا گیلانی کی بیوی کو طیب اردگان کی بیوی کا ہار واپس کرنا پڑا۔ تا ہم اس کی وجہ سے پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی، اسی طرح دیگر سربراہان نے بھی توشہ خانہ سے تحائف حاصل کئے۔
میں سمجھتا ہوں حکمرانوں پر توشہ خانوں سے تحائف حاصل کرنے پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ یہ تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہونے چاہئے۔ انہیں توشہ خانہ میں جمع اسی لیے کیا جاتا ہے کہ یہ ریاست پاکستان کی ملکیت ہیں لہذا ریاست کے بڑے سے بڑے ملازم یا عہدے دار کو ایسے تحائف گھر لیجانے، کسی کو دینے یا فروخت کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
صرف قانون میں سقم یہی ہے کہ حکمرانوں نے انہیں سستے داموں واپس خریدنے کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے، جو بند ہونا چاہئے۔ اگر ان تحائف کو فروخت کرنا ضروری ہے تو پھر کھلی بولی ہونی چاہیے اور ہر شہری کو اس بولی لگانے کا حق ہونا چاہیے، جو زیادہ بولی دے، وہ خرید لے اور یہ رقم ریاست پاکستان کے قومی خزانے میں جانی چاہئے۔
یوں دیکھا جائے تو عمران خان نے بطور وزیراعظم دو غلط کام کییہیں۔ ایک ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہوئے توشہ خانہ سے سستے داموں تحائف حاصل کر لئے، دوسرا ان تحا ئف کو بیچ دیا۔ جس سے عمران خان کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی بدنامی ہوئی۔
جس سربراہ مملکت نے پاکستان کے وزیراعظم یہ تحفہ دیا، جب اسے معلوم ہوا کہ میرے تحفے کی یہ قدر کی گئی ہے کہ اس کو بیچ دیا گیا تو یہ کوئی پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ تحائف بیچنے کے لیے نہیں دیے جاتے۔ اگر کسی نیک مقصد کے لیے نیلام کرنے پڑ جائیں تو یہ اور بات ہے۔ عمران خان اگر ان تحائف کو بطور یادگار اپنے پاس رکھ لیتے تو بھی کوئی جواز بن جاتا لیکن بیچنا ان کے شایان شان نہیں تھا۔
دنیا بھر میں سربراہ مملکت ایک دوسرے کو جب ملتے ہیں تو تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ا ن تحائف کے لیے قانون مختلف ہیں۔ بادشاہت اور آمریت کے حامل ممالک میں تو ان تحائف کے نجی استعمال کی کھلی چھٹی ہے۔ لیکن جمہوری ممالک میں یہ تحائف ریاست کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں اور عوامی نمایندے ان تحائف کے حوالے سے عوام اور حکومت دونوں کے سامنے جوابدہ ٹھہرتے ہیں۔
آج عمران خان بھی اسی اصول کے تحت جوابدہ ہیں۔ ان کی منطق کہ اگر فوجیوں کو جو پلاٹ ملتے ہیں، وہ ان پلاٹ کو استعمال کرنے میں آزاد ہیں تو وہ بھی خود کو ملنے والے تحائف کو استعمال کرنے میں آزاد ہیں۔ اگر فوجی پلاٹ بیچ سکتے ہیں تو وہ تحائف کیوں نہیں بیچ سکتے۔ کیا دلیل ہے؟ اس پر عش عش کرنے کو جی چاہتاہے۔
عمران خان اگر واقعی ریاست مدینہ کے نظام حکومت پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں توشہ خانہ کے تحائف کی تمام آمدنی قومی خزانے میں جمع کرا کر غلطی تسلیم کرلینی چاہئے۔ یہی ریاست مدینہ کی اصل روح ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ریاست مدینہ کا نام استعمال کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اگر عمران خان کا دستخط شدہ بیٹ مہنگا بک سکتا ہے تو عمران خان کو چاہیے تھا کہ پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے یہ بھی کرتے۔ ایسا کیوں ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے کبھی کسی کسی سے کوئی چندہ نہیں مانگا۔ بلکہ جب بھی مانگا اپنے نجی منصوبوں کے لیے ہی مانگا ہے۔
اگر وہ پاکستان کے لیے فنڈ ریزنگ کرتے تو شاید آج بھی وزیر اعظم ہوتے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ویسے بھی اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کی تمام تفصیلات پبلک کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ جو اپنی جگہ خوش آئند ہے۔ لیکن صرف پبلک کرنا کافی نہیں۔ کوئی ایکشن بھی ہونا چاہئے۔