طالبان کا افغانستان
طالبان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کا 88فیصدرقبہ طالبان کے قبضہ میں آگیا ہے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ طالبان کابل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکی انخلا سے قبل ہی طالبان نے افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
ویسے تو طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس سے قبل بھی افغانستان کا 66فیصد رقبہ ان کے قبضہ میں تھا۔ جسے اب بڑھا کر 88فیصد کر لیا گیا ہے۔ تا ہم ابھی 12فیصد رقبہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ جس میں کابل سمیت بڑے شہر شامل ہیں۔ جہاں امریکی فوجیں اور افغانستان کی فوج کا کنٹرول موجود ہے۔ لیکن جس تیزی سے طالبان اپنے زیر اثر رقبہ بڑھا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ باقی علاقے پر بھی جلد قبضہ کر لیں گے۔
طالبان نے افغانستان اور تاجکستان کے درمیان بارڈر شہر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ شیر خان بند بارڈر کندوز شہر سے پچاس کلومیٹر دور واقع ہے۔ طالبان افغانستان کے پاکستان اور ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں پر پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں۔ اب انھوں نے تاجکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ افغانستان کا شمال ہے۔ جہاں طالبان روایتی طور پر مضبوط نہیں رہے ہیں۔
اس طرح طالبان افغانستان اور و سطیٰ ایشیا کے درمیان سرحد پر بھی اپنا کنٹرول مستحکم کر رہے ہیں۔ یہ علاقے طالبان کے پہلے دور میں شمالی اتحاد کے کنٹرول میں رہے ہیں۔ لیکن اس بار طالبان ان علاقوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں۔ شاید طالبان کو ان علاقوں کی اسٹرٹیجک اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ ماضی کی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے۔ تاجکستان کے ساتھ سرحد کے کنٹرول سے طالبان نے تاجکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اب وہاں سے آنے جانے والے سامان پر طالبان ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔
طالبان کو یہ بھی اندازہ ہے کہ امریکا کو اگر پاکستان سے اڈے اور دیگر سہولیات نہ ملیں تو امریکا وسطیٰ ایشیا کے ممالک میں یہ سہولیات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ حالیہ امریکا روس تنائو بھی اسی وجہ سے ہے۔ اس لیے طالبان ان ریاستوں کے ساتھ سرحدیں بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں تا کہ امریکا کو ان ریاستوں سے کام نہ کرنے دیا جائے۔ اسی لیے اس بار کابل سے پہلے ان علاقوں کو قبضہ میں لیا گیا ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے دفاع اور داخلہ کے وزرا کو تبدیل کیا ہے۔
انھیں تبدیل کرنے کی وجوہات میں صاف کہا گیا ہے کہ وہ طالبان کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کابل کے ایوان اقتدار میں پریشانی ہے اور فی الحال اس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آرہا۔ طالبان کابل کی حکومت سے بات کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آرہے۔ اشرف غنی اور طالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ان میں ڈیڈ لاک ہے۔ شاید طالبان بھی چاہیں گے کہ وہ خود ہی چلے جائیں۔
ابھی تک کی جو صورتحال سامنے آئی ہے۔ اس کے مطابق طالبان کو کہیں بھی کوئی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق طالبان کے پاس پہلے ہی 85ہزار سے زائد جنگجو تھے، اب اس تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ طالبان نے عام معافی کا علان بھی کیا ہوا ہے۔ جس کے مطابق ہتھیار ڈالنے والوں کواپنے ساتھ شامل کر لیا جائے گا۔ افغان فوجی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
ویسے بھی اشرف غنی وزیر دفاع اور داخلہ کو بد لنے کے باوجود اپنی فوج کو طالبان سے لڑنے کے لیے آمادہ نہیں کر سکے ہیں۔ افغانستان کے اندر ایک ماحول بن گیا ہے جس میں اشرف غنی کا مستقبل غیر محفوظ نظر آرہا ہے اور ایک عموی رائے بن گئی ہے طالبان کا اقتدار واپس آرہا ہے اور اشرف غنی کے اقتدار کا سورج ڈوب رہا ہے۔ اسی لیے حامد کرزئی جو ایک وقت میں امریکا کے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے، اب کہہ رہے ہیں کہ امریکا افغانستان سے ہارکر جا رہا ہے۔
افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ طالبان افغانستان کے اندر یہ رائے عامہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ امریکا ان سے ہار کر جا رہا ہے۔ اس لیے وہ فاتح ہیں۔ ایسے میں حامد کرزئی کا بیان دراصل طالبان کی حمایت ہے۔ جب روس افغانستان سے گیا تھا تب بھی روس نے افغانستان میں ایک فوج بنائی تھی۔ اس فوج کو بھی ویسے ہی ٹریننگ دی گئی تھی جیسے امریکا نے اب افغانستان کی فوج کو ٹریننگ دی ہے۔ تب بھی سویت افواج کی واپسی کے بعد افغان فوجیوں نے جہادی گروپوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب امریکا کے جانے کی خبر کے بعد بھی ویسا ہی منظرہے۔
طالبان نے ایک امریکی اخبار میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ وہ خواتین کو تعلیم اور کام کرنے کا حق دیں گے۔ حالانکہ اپنے پہلے دور میں انھوں نے خواتین کو یہ حق نہیں دیا تھا۔ لیکن ابھی تک جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق طالبان کی اس ضمن مین افغانستان میں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ اب تک جتنے بھی علاقوں میں طالبان نے قبضہ کیا ہے وہاں ہر جگہ مختلف صورتحال ہے۔ طالبان کے زیرکنٹرول چند علاقوں میں لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ جب کہ کچھ علاقوں میں نہیں بھی دی جا رہی ہے۔ مقامی کمانڈر اپنی اپنی مرضی کر رہے ہیں۔ شاید جب تک کوئی باقاعدہ حکومت نہیں بنتی تب تک مقامی کمانڈر اپنی مرضی سے ہی حکومت چلائیں گے۔
بین الاقوامی سروے کے مطابق طالبان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ گزشتہ سال ہی انھوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں سے معدنیات کی برآمد سے کافی پیسے بنائے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کی آمدن بھی انھیں مل رہی ہے۔ افغانستان کی بڑی سڑکیں بھی ان کے کنٹرول میں ہیں، اس لیے وہاں سے بھی اچھا ٹیکس وہ وصول کر رہے ہیں۔ اس لیے وسائل کی کمی نہیں ہے۔ تجارتی روٹس پر بھی ان کا کنٹرول ہے۔ ایسے میں امریکا اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ کو تسلی کے سوا کچھ دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہا۔