طالبان اور امریکا
پاکستان نے بجٹ اس امید پر پیش کیا ہے کہ آئی ایم ایف اس کی بات مان لے گا۔ بجٹ کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط منوانے پر زور نہیں دے گا۔
آئی ایم ایف اپنی شرائط منوانے پر بضد ہو تو ابھی بھی پاکستان کی معیشت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر بحران سے باہر آسکے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی ابھی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی صورتحال ایسی ہے کہ نہ تو آئی ایم ایف کے ساتھ گزارا ہے اور نہ اس کے بغیر گزارا ہے۔ بہر حال امید یہی ہے کہ اس بار آئی ایم ایف ہماری بات مان لے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ امید کیوں ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنے اور اس کے بعد کی صورتحال میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان آجکل بات ہو رہی ہے۔ اس بات چیت کے ثمرات میں آئی ایم ایف کو نرم رویہ رکھنے کے لیے کہا گیا ہے تا کہ بات چیت اچھے ماحول میں ہو سکے۔
امریکا کے پاس آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کو امریکا کا اشارہ ہی کافی ہے۔ کل جب آئی ایم ایف پاکستان پر سختیاں کر رہا تھا اس میں بھی امریکا کا اشارہ شامل تھا۔ اور آج اگر نرمی دکھائے گا تو اس میں بھی امریکی اشارے کا ہی کمال ہوگا۔ لیکن میرے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان اور امریکا کے درمیان بات چیت ناکام ہو گئی تو کیا ہوگا۔ وہ منظر نامہ یقیناً کوئی اچھا نہیں ہوگا۔
پاکستان نے امریکا کو اڈے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے امریکا کو اڈے نہیں دیے جائیں گے۔ پھر امریکا اور پاکستان کے درمیان کیا بات ہو رہی ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا حالیہ دورہ اسلام آباد اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ ویسے امریکا کو ہماری فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نائن الیون کے بعد سے حاصل ہے۔ پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہی ہیں لیکن یہ اجازت قائم رہی ہے۔
اس وقت امریکا کا دنیا میں سب سے بڑا سفارت خانہ کابل میں ہے۔ جہاں سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن ہے۔ چین، روس، ایران سمیت خطہ کے تمام ممالک کو اس کا پتہ ہے اور تشویش بھی ہے۔ ویسے تو امریکا کو امید ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنے کے بعد طالبان سے اتنے اچھے تعلقات رکھے گا تاکہ افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ امریکا کا اسلام آباد میں سفارتخانہ بھی خاصا بڑا ہے۔
امریکا اس خطے میں اپنا نیٹ ورک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ دوستی کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان طالبان کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکا افغانستان سے جانا چاہتا ہے دوسری طرف اپنا نیٹ ورک رکھنا بھی چاہتا ہے۔ اس کے وسیع تر مقاصد ہیں۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کی تو اب خفیہ شرائط بھی سامنے آگئی ہیں۔ جن کے تحت فوجوں کے انخلا کے دوران امریکی اڈوں اور فوجیوں کے تحفظ کے ذمے دار طالبان ہیں۔ اسی لیے آج افغانستان میں جتنی بھی خونریزی ہو رہی ہے اس میں امریکی محفوظ ہیں۔ اگر طالبان اشرف غنی سے علاقے چھین رہے ہیں تو امریکا کو اس پر کوئی اعتراض نظر نہیں آرہا۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب امریکا اور طالبان کے درمیان معاملات طے ہو گئے ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ امریکا جو چاہتا ہے کابل سے طالبان کے زیر سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں پلان یہی ہے۔ لیکن اگر طالبان بدل گئے تو کیا ہوگا۔ شاید امریکا اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر طالبان نے امریکا کو اپنا نیٹ ورک نہ چلانے دیا تو پھر امریکا طالبان کو کیسے مجبور کرے گا۔
اس مقصد کے لیے امریکا ترکی کی مدد لینے کو بھی تیار ہے۔ حالانکہ ترکی اور امریکا کے ماضی قریب میں کوئی اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ ترکی نے افغانستان میں ایک بیس کی نگرانی کرنے کی پیشکش کی ہے۔ تا ہم طالبان نے ترکی کی یہ پیشکش بھی مسترد کر دی ہے۔ طالبان کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ امریکا ہر وقت ان سے براہ راست بات چیت کرنے پر مجبور رہے۔
دنیا کی باقی بڑی طاقتیں بھی طالبان سے اسی لیے بات کر رہی ہیں کہ وہ بھی نہیں چاہتیں کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد بھی ان کے نیٹ ورک موجود رہیں۔ طالبان سب سے بات کر رہے ہیں۔ جس پر امریکا خوش نہیں۔ اگر طالبان کے روس اور چین سے اچھے تعلقات ہونگے تو امریکی مقاصد پورے کیسے ہونگے۔ ویسے تو امریکی دباؤ پر بھارت اور طالبان کے درمیان بھی بات چیت شروع ہو ئی ہے۔ کیونکہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف موجود بھارتی نیٹ ورک کا مستقبل بھی خطرہ میں ہے۔
پاکستان کی خواہش ہے کہ طالبان اس نیٹ ورک کو بند کریں۔ پاکستان امریکا کے نیٹ ورک کو رکھنے کے تو حق میں ہے لیکن را کا نیٹ ورک بند کرنے کا خواہاں ہے۔ بہرحال آگے چل کر طالبان کیا کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے کہ نہیں۔
لیکن اس ساری صورتحال میں پاکستان امریکا کاپلان بی ہے۔ سب آسانیاں اسی کے باعث ہیں۔ آج بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی امریکا کی وجہ سے ہی ہے۔ فیٹف سے نکلنا بھی امریکا کی وجہ سے ہی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ سب بہت کم قیمت ہے۔ ہمیں اس کا احساس رہنا چاہیے۔