سیاسی کھیل میں اتنی تیزی کیوں؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں ایک عجیب سی تیزی نظر آرہی ہے۔ ایسے جیسے کسی کو بہت جلدی ہے اور وہ کام جلدی تمام کرنا چاہتا ہے۔ جس تیزی سے حکومتی حلیف اپوزیشن سے مل رہے ہیں۔ اس کی سمجھ نہیں آرہی کہ حکومتی حلیفوں کو یک دم اپوزیشن کو ملنے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ ایک دن بھی ضایع نہیں کیا جارہا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایک دن کی اپنی اہمیت ہے۔ اس لیے ایک دن بھی ضایع کرنے کی اجازت نہیں۔ کل تک جو ایک دوسرے کو سلام لینے کے لیے تیار نہیں تھے وہ آج بغلگیر ہو رہے ہیں۔ دشمن دوست بن رہے اور دوست دشمن بن رہے ہیں۔ کل تک عمران خان کا دم بھرنے والوں کو آج عمران خان کی تمام خامیاں واضح نظرآرہی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی نے کھیل کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی کچن میں برتن اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کیا پکے گا۔ پھر کھا بھی لیں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم کچھ بھی کچا کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بات کو اگر سادہ سیاسی زبان میں واضح کیا جائے تو کھیل کے آخری مرحلہ میں شامل ہونگے۔ وہ ابتدائی راؤنڈ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وہ اس حکومت کے آخری دن تک اس میں شامل رہیں گے اور پھر اگلی حکومت کے پہلے دن میں اس حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ وہ ایک دن بھی اقتدار سے باہر رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ باقی ان کی جماعت کہہ رہی ہے کہ ہم حکومت کے نہیں ریاست کے اتحادی ہیں۔ جہاں ریاست جائے گی ہم وہاں چلے جائیں گے۔
اس کا بھی سادہ مطلب یہی ہے کہ کل ریاست نے کہا تھا عمران خان کے ساتھ شامل ہو جاؤ ہم ریاست کے حکم پر ان کے سا تھ شامل ہو گئے تھے۔ اب اگر ریاست کہیں اور جانے کا کہے گی ہم کہیں اور چلے جائیں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری بات ہم سے نہیں ریا ست سے کی جائے۔
ایم کیو ایم کو بھی بہت جلدی نظر آرہی ہے۔ ان کی قیادت نے یہ انتظار کرنے کی بجائے کہ وہ سب ان کے پاس کراچی آئیں وہ لاہور آگئے اور خود ہی سب سے ملنے نکل پڑے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ایم کیو ایم کو اتنی کیا جلدی ہے۔ جس کو ان کی ضرورت ہوگی وہ ان کے پاس کراچی پہنچ جائے گا۔ لیکن وہ تو خود ہی سب کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ ہم بھی کھڑے ہیں راہوں میں ہماری طرف بھی دیکھو۔ ورنہ یہ ایم کیو ایم کا انداز سیاست نہیں ہے۔ وہ تو اپنے مورچہ پر بیٹھتے ہیں اور سب کو اپنے پاس بلاتے ہیں۔ لیکن اب وہ خود سب کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ یہ کیا تبدیلی ہے۔
عمران خان کی ٹیم ابھی تک اپوزیشن کو گالیاں نکالنے کی پالیسی پر ہی عمل کر رہی ہے۔ حا لانکہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی ہے۔ لیکن وہ مزے سے پرانی گالیوں والی کیسٹ ہی چلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا کے مصداق وہ اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو گالیاں نکالنے سے کام چل جائے گا۔
کون ان کو سمجھائے کہ گالیاں تو آپ ساڑھے تین سال سے نکال رہے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے آپ کو اپنی سیاسی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو یا تو سیاسی صورتحال کا ادراک نہیں ہے یا انھوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کہ جو ہونا ہے ہو جائے۔ میں اس کو روک نہیں سکتا۔ اس لیے کوئی بھی کوشش کرنا بیکار ہوگا۔ عمران خان اب بھی اگر سیاسی حکمت عملی تبدیل کریں تو کھیل بدل سکتے ہیں۔
یہ رائے کہ مولانا فضل الرحمٰن کھیل میں نہیں ہیں۔ درست نہیں ہے۔ وہ کھیل کا سینٹرفوکس ہیں، لیکن کھیل کے باقی مہرے سیٹ کیے جا رہے ہیں تا کہ کھیل مولانا کی مرضی کے مطابق کھیلا جا سکے۔ مولانا تو پہلے دن سے ا س حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر آج عمران خان کو گھر بھیجنے کا کوئی امکان پیدا ہو رہا ہے تو مولانا اس سے دور کیسے رہ سکتے ہیں۔
اس لیے جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا تو اس سے بھی وہی آواز آئے گی جو باقی ملاقاتوں سے آرہی ہے۔ مولانا کی جب انٹری ہوگی تو وہ کھیل کو مزید تیز کر دیں گے۔ اس لیے وہ انتظار میں ہیں کہ سب مہرے نئی جگہ پر سیٹ ہو جائیں تو وہ اپنی انٹری ڈال دیں۔ سیاسی منظر نامہ میں تیزی کا جو ماحول ہے وہ مولانا کی دل کی خواہش ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں پہلے مرحلہ میں عمران خان کے اتحادیوں کو ان کی نئی پوزیشن کی طرف آگے بڑھایا گیا ہے۔ ان کی طرف سے تبدیلی کی حمایت کے اشارے سامنے لائے گئے ہیں تا کہ ملک میں تبدیلی کا ماحول بن جائے۔ ایک رائے بن جائے کہ عمران خان جا رہا ہے۔ آپ دیکھیں ایک ہفتہ قبل وہ عمران خان جو ملک کا ایک مضبوط حکمران تھا آج تین دن اور تین ملاقاتوں کے نتیجے میں ہی ایک کمزور حکمران بن گیا ہے۔ کل تک اگلی باری کی باتیں کرنے والوں کو آج دن گننے پر لگا دیا گیا ہے۔
اب ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ عمران خان کب جا رہے ہیں۔ کب عدم اعتماد آرہی ہے۔ کتنے دن باقی ہیں۔ تیزی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے مہینوں کی بات کرنے والے اب دنوں کی بات کرنے لگ گئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ فروری میں ہی کام ہو جائے گا کوئی کہہ رہا ہے کہ نہیں مارچ آجائے گا۔ لوگ شرطیں لگا رہے ہیں کہ مارچ کی پریڈ میں کون بطور وزیر اعظم سلامی لے گا۔ کیا عمران خان 23مارچ تک وزیر اعظم ہونگے۔ یہ سوال اہم ہو گیا ہے۔ کل تک دس سال کی بات کرنے والے آج دنوں کے مہمان لگ رہے ہیں۔
یہ ماحول بنایا جارہا ہے کہ کھیل مارچ سے آگے نہیں جائے گا۔ حکومت دنوں میں جا رہی ہے۔ یہ ماحول عمران خان کے لیے اچھا نہیں۔ اس صورتحال میں عمران خان کی جماعت کے اندر بغاوت ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر گر وہ بندی پہلے ہی ہے۔ لیکن اگر یہ ماحول چند دن اور جاری رہتا ہے تو عمران خان کے لیے تحریک انصاف کو قابو رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ ان کی اپنی جماعت میں ناراض لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس لیے عمران خان نے اگر بروقت اس صورتحال کو ٹھیک نہیں کیا تو تحریک انصا ف کے بھی ٹکڑے ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
عمران خان نے ملک بھر میں جلسوں کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کیا یہ جلسے ان کے اقتدار کو طاقت دے سکیں گے۔ مشکل نظر آتا ہے۔ عمران خان نے چھوٹے شہروں میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ منڈی بہاؤ الدین اور رحیم یار خان سیاسی ماحول بدلنے کے لیے کوئی اچھی چوائس نہیں ہیں۔ اگر عمران خان ان جلسوں سے اپنی مقبولیت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں بڑے شہروں میں بڑے جلسے کرنا ہوں گے۔
عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ لاہور اور کراچی کے جلسوں سے ہی ماحول بنتا ہے اور کمزور بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر لاہور اور کراچی کو مائنس کر کے چلیں گے جیت کے امکانات کم ہی ہونگے۔ آپ یقین کرلیں منڈی بہاؤالدین کے بڑے جلسہ کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں جلسہ کیسے ہوتا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عمران خان کی سیاسی تنہائی ان کے لیے زہر قاتل بنتی جا رہی ہے۔ اب تو اشارے مل رہے ہیں کہ مقتدر حلقہ بھی نیوٹرل ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ عمران خان کے خلاف نہیں ہیں صرف نیوٹرل ہی ہیں تب بھی عمران خان کے لیے اقتدارپر گرفت رکھنا ممکن نہیں۔ عمران خان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کا نیوٹرل ہونا عمران خان کی مخالفت ہی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ انھیں کوئی خاص مدد نہیں بس ان کا نیوٹرل ہونا ہی چاہیے جو مل رہا ہے۔ اس لیے کھیل تیزی سے چل رہا ہے۔