مشیر احتساب کا استعفیٰ
عمران خان حکومت کی ناکامیوں پر جتنی چاہیے بات کی جا سکتی ہے۔ یقیناً عمران خان اور ان کی ٹیم کے پاس مخالفین اور تنقید کرنے والوں کو جواب دینے کے لیے دلائل بھی موجود ہیں لیکن خان صاحب اور ان کی حکومت کو بھی احساس ہے کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکے ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ احتساب کی ناکامی، ان کی ناکامی بن گئی۔
اگر وہ سابق حکومت کے اہم افراد کا احتساب کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو شاید عوام ان کی باقی ناکامیوں کو فراموش کردیتے۔ عمران خان نے احتساب کی کلیدی ذمے داری شہزاد اکبر کو دی تھی لیکن آج وہ مستعفی ہو کر گھر جا چکے ہیں، لیکن عمران خان کا سیاسی نقصان بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ ان کا استعفیٰ شاید اس سیاسی نقصان کو پورا نہ کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں اس موقع پر ان کا استعفیٰ عمران خان کے اقتدار کے لیے بہت نقصان دہ بن سکتا ہے۔
بات یہ نہیں ہے کہ مشیر احتساب کی حکمت عملی ناکام ہوگئی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کا احتساب اور کرپشن کا سارا فلسفہ ہی زمین بوس ہو گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شہزاد اکبر عمران خان کی کابینہ کے طاقتور ترین لوگوں میں سے تھے۔
عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیوروکریسی میں جتنی بھی تعیناتیاں کی ان میں شہزاد اکبر کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مشیر ہوتے ہوئے وہ وزیروں سے زیادہ اہم تھے، اس کی وجہ ان کے ذمے لگایا گیا کام تھا۔ عمران خان احتساب کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ شہزاد اکبر بھی اہم سے اہم ترین ہوتے گئے، اس سفر میں ان کے راستے میں اگر کوئی ترین بھی آیا تو عمران خان شہزاد اکبر کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے۔ لیکن آج صورتحا ل یہ ہے کہ شہزاد اکبر کا مستعفی ہونا عمران خان کی ناکامی سمجھی جارہی ہے۔
ویسے تو سب جانتے اور مانتے ہیں کہ جب تک احتساب یکساں اور منصفانہ نہیں ہوگا تب تک عوام کی عدالت اسے احتساب نہیں مانتی۔ ٹارگٹڈ احتساب ذاتی انتقام سمجھا جاتا ہے۔ ٹارگٹڈ احتساب کا شکار ہونے والے عوام کی نظر میں مظلوم بن جاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشیر احتساب کا کام بہت مشکل تھا۔
ان کے لیے یہ بھی مشکل تھی کہ وہ بے لاگ اوریکساں احتساب نہیں کر سکتے تھے، انھیں احتساب بھی کرنا تھا اور حکومت کو بھی خطرے سے دوچار ہونے سے بچانا تھا کیونکہ ان کے سامنے مقدس گائیں بھی موجود رہیں، ان پر ہاتھ ڈالنے سے عمران کا اقتدار مشکل میں آسکتا تھا۔ پاکستان میں عدلیہ اور مقتدر حلقے مقدس گائے سمجھے جاتے ہیں لیکن عمران خان کی حکومت کے اہم لوگ بھی مقدس گائے بن گئے تھے، اس لیے شہزاد اکبر کا دائرہ کار بہت محدود ہو گیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو ان کے پاس صرف دو خاندانوں اور ان میں بھی صرف شریف خاندان کا احتساب کرنے کا اختیار رہ گیا تھا لیکن اس کام میں بھی انھیں نواز شریف کی نااہلی وراثت میں ملی۔ نواز شریف کی احتساب عدالتوں سے سزائیں بھی وراثت میں ملیں۔ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں قید ملے۔
یعنی یہ سب کام عمران خان کے وزیر اعظم اور شہزاد اکبر کے مشیر احتساب بننے سے پہلے ہی ہو چکے تھے۔ اس کے بعد شہزاد اکبر کے پاس صرف یہی کام تھا، وہ اس جاری کام کو سنبھالیں اور اسے مزید آگے بڑھائیں۔
لیکن وہ اس اسائنمنٹ میں فیل نظر آتے ہیں کیونکہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کوئی نیا کیس سامنے نہیں لا سکے ہیں۔ وہ 2013سے 2018کے دور کی کرپشن سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ کوئی نیا ریفرنس بنا سکے، نتیجہ یہ ہوا کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل سے بھی باہر آگئے اور آج عمران خان کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اگر شہزاد اکبر شریف خاندان کا احتساب کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو آج عمران خان کے لیے یہ مسائل نہ ہوتے۔
شہزاد اکبر کا سب سے بڑ ا ٹارگٹ شہباز شریف تھا کیونکہ عمران خان کو خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے متبادل امیدوار ہیں اور وہ کسی بھی وقت عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں۔
اس لیے شہباز شریف کو فکس کرنا عمران خان کی سیاسی بقا کے لیے ضروری تھا اور یہ خطرہ آج بھی بدستور موجود ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان حکومت نے پہلی گرفتاری شہباز شریف کی تھی۔ انھیں نیب نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ گرفتار کیا اور لمبے عرصہ تک جیل میں رکھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے عمران خان حکومت کا زیادہ عرصہ جیل میں ہی گزارا ہے۔ لیکن جیل میں رکھنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ پھر وہ حد آگئی اور عدالتوں سے ضمانتیں مل گئیں۔
شہزاد اکبر کی سب سے بڑی ناکامی یہی نظر آتی ہے کہ وہ شہباز شریف کے خلاف کوئی مضبوط کیس سامنے نہیں لا سکے۔ دوست کہیں گے کہ ٹی ٹی کیس بڑاکیس ہے۔ لیکن یہ ایک کاروباری معاملہ ہے اور سب کاروباری لوگ ٹی ٹی لگاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی شہاز شریف کو سزا دلوانے کے لیے حکومت کے پاس لیگل آپشنز بہت کم ہیں۔ شہزاد اکبر شہباز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی سولڈ کیس سامنے نہیں لا سکے اور ساڑھے تین سال میں کسی عدالت سے نا اہل نہیں کرا سکے اور نہ سزا دلواسکے۔ انھوں نے لندن میں بھی شہباز شریف پر مقدمہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی نا کامی ہوئی۔
شہباز شریف تو لندن میں نیشنل کرائم ایجنسی سے بھی کلین چٹ حاصل کر چکے ہیں۔ اس کا عمران خان کو الٹا نقصان ہوگیا۔ شہزاد اکبر لندن گئے تو شہباز شریف کو پھنسانے تھے لیکن انھیں وہاں سے بھی کلین چٹ دلو آئے۔ ڈیوڈ رو ز والی خبر والا معاملہ بھی درست سمت نہیں جا رہا ہے۔ یہ سب ناکامیاں عمران خان کے لیے آج مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ایک طرف عوام مسائل حل کرنے میں ناکامی ہے تو دوسری طرف اقتدار کے کھیل میں بھی مشکلات بن رہی ہیں۔
مشکل یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے باقی اہم افرادکا بھی احتسا ب نہیں ہوسکا۔ جن پر ریفرنس بنائے گئے، وہ سب باہر آگئے ہیں اور آج حکومت مشکل میں پھنسی ہوئی ہے۔ اگر شہزاد اکبر عمران خان کی اپوزیشن کا ٹھیک احتساب کر دیتے تو آج حکومت کو مشکلات نہ ہوتیں۔ بہرحال میں اس فلسفہ کو نہیں مانتا کیونکہ مشکلات اپنا راستہ خود ہی نکال لیتی ہیں۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف میں خود احتسابی کا دور چل رہا ہے، ناکامیوں پر بات ہو رہی ہے۔ شاید اس لیے شہزاد اکبر کے دن بھی پورے ہوگئے۔