معذرت کے ساتھ
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق سے پرانی نیاز مندی ہے۔ آج کل وہ ملنے ملانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن بالواسطہ رابطہ رہتا ہے۔ بالواسطہ رابطہ کا ایک ذریعہ سوشل میڈیا بھی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا سے بھی ایک دوسرے کی سوچ اور خیالات کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ دو دن پہلے خواجہ سعد رفیق نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا کہ موسم تیزی سے بدل رہا ہے۔ سرما کی ایک بارش نے گرمی کی حدت کو خوشگوار خنکی میں ڈھال دیا ہے۔ وقت اور موسم کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
بظاہر خواجہ سعد رفیق کے ٹوئٹ کی پہلی دو لائنیں موسم کے بارے میں ہی ہیں، لیکن ٹوئٹ کی آخری دو لائنیں پاکستان کے سیاسی موسم کے بارے میں ہیں۔ جب خواجہ سعد رفیق یہ لکھتے ہیں کہ وقت اور موسم ایک سے نہیں رہتے تو اور لکھتے ہیں کہ اس میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ تو صاف بات ہے وہ سیاسی موسم کی بات کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سیاسی موسم بھی بدل رہا ہے اور بدلتے موسم کی نشانیاں سمجھنے والوں کے لیے واضح ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کے ٹوئٹ سے مجھے تو یہی سمجھ آئی کہ انھیں ملک کے سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ تا ہم دو دنوں بعد انھوں نے ایک نیا ٹوئٹ کر دیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں واپسی کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ 22کروڑ افراد جعلی تبدیلی بھگت رہے ہیں۔ مملکت خداداد سے زیادتی کرنے والے مکافات عمل سے مگر نہیں بچیں گے۔ منتظر رہو اور گواہ رہنا۔ اللہ کریم پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
دونوں ٹوئٹ میں دو دنوں کا وقفہ ہے۔ ان دو دنوں میں خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کا ایک پرانا کلپ بھی شئیر کیا ہے جس میں انھوں نے پولیس افسران کو تڑی لگاتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام آباد جاتے ہوئے ان کے کسی کارکن پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا یا گولی چلائی تو وہ اس پولیس افسر کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دیں گے۔
شاید خواجہ سعد رفیق نے یہ کلپ موجودہ صورتحال کے تناظر میں شیئر کیا ہے جب پولیس ایک کالعدم تنظیم کے مارچ کو اسلام آباد جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خواجہ سعد رفیق اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے لکھتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے اس شخص اوراس کے امدادیوں نے ریاستی اداروں پر برہنہ حملے کیے۔ اپنے حامیوں کو تشدد پر اکسایا۔ مسلح جتھوں سے گھیراؤ کروایا گیا۔ آج ان کے اعمال پوری قوم بھگت رہی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ انھیں ملک کے سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی کا موسم نظر آرہا ہے، لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی پیغام دے رہے کہ تبدیلی کے اس موسم میں ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ وہ مان رہے ہیں عوام رو رہے ہیں۔ لیکن وہ عوام کے رونے کے باوجود اقتدار سے دور رہنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک خاص حیثیت ہے۔ انھوں نے موجودہ دور میں ایک لمبی جیل کاٹی ہے، ان کی جیل بھی آسان نہیں تھی۔ ان کے ساتھ جیل میں ہر وہ سلوک کیا گیا جو ممکن تھا، اگر صرف پروڈکشن آرڈر کی ہی کہانی لی جائے تو اول تو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہی نہیں کیے جاتے تھے اور اگر کسی مجبوری میں جاری بھی ہو جاتے تھے تو صبح پولیس کے ٹرک میں لاہور کوٹ لکھپت جیل سے پارلیمنٹ لے جایا جاتا اور شام کو سیشن کے بعد واپس لاہور لاکر بند کیا جاتا۔
اگلے دن پھر لاہور سے دوبارہ لے جایا جاتا۔ بہت سمجھایا جاتا کہ پنڈی جیل میں بند کردیں لیکن جیل حکام کہتے تھے کہ اوپر سے حکم ہے واپس لاہور بند کریں۔ اس لیے دو دن سفر کے باعث خواجہ سعد رفیق خود ہی جانے سے معذرت کر لیتے۔ اس لیے واقفان حال جانتے ہیں کہ ان پر جیل میں وہ تمام سختیاں کی گئیں جو ممکن تھیں۔ ان کی بیرک میں آگ بھی لگائی گئی۔
جیل سے آنے کے بعد سعد رفیق مجھے پاکستان کی سیاست سے کافی بیزار نظر آئے۔ انھوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ لیکن نجی محفلوں میں وہ اس کا زیادہ اظہار کرتے رہے۔ سیاست ان کے خون میں ہے اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی سیاست نہیں چھوڑ پا رہے ہیں۔ وہ ایک دن سیاست سے کنارہ کشی کا سوچتے ہونگے اور دوسرے دن پھر سیاست ہی شروع کر دیتے ہونگے۔ اسی لیے غیر فعال رہنے کے باوجود جب کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات آئے تو ہمیں خواجہ سعد رفیق بھر پور فارم میں نظر آئے۔
لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جیت خواجہ سعد رفیق کی ہی جیت تھی۔ جو جیت لاہور میں ملی ہے وہ کہیں نہیں ملی۔ تا ہم خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں خدمت کو ووٹ دو کا نعرہ بھی لگایا۔ جس کو میڈیا میں بہت توجہ ملی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ ایک عموی تاثر یہی ہے کہ اسے اس وقت اقتدار میں آنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اقتدار سامنے نظر آتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یہ موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ اس حکومت کے بننے کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یہی موقف رہا ہے۔ لیکن شاید اب اس میں لچک لانے کا وقت آہی گیا ہے۔ اس لیے خواجہ سعد رفیق کو بھی سوچنا ہی ہوگا۔
خواجہ سعد رفیق مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت اور مزاحمت دونوں طرف یکساں مقبول اور قابل قبول ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ مفاہمت کے حامی ہیں کہ مزاحمت کے حامی ہیں۔ مزاحمت والے ان کا لوہے کے چنے والا بیان دکھاتے ہیں اور مفاہمت والے خدمت کو ووٹ دو کے نعروں والے بینر دکھاتے ہیں۔ ان کی شہباز شریف سے محبت ایسی ہے کہ کسی کی نہیں۔ لیکن وہ جاتی عمرہ میں بھی کم مقبول نہیں ہے۔ میں بھی حیران ہوں کہ سعد رفیق نے یہ بیلنس کیسے قائم کیا ہوا ہے۔
خواجہ سعد رفیق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی کے پرانے حامی ہیں۔ ان کی رائے رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کبھی مسلم لیگ (ن) کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر منظم نہیں کیا ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو احتجاجی تحریک چلانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کی رائے میں پہلے تنظیم سازی ٹھیک کرنی ہوگی پھر کوئی تحریک چل سکتی ہے۔
بے ہنگم تنظیم سازی کے ساتھ تحریک نہیں چل سکتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تحریک نجات چلائی تھی تب خواجہ سعد فیق یوتھ ونگ کے سربراہ تھے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ مسلم لیگ کو یو تھ ونگ نے ہائی جیک کر لیا تھا۔ مسلم لیگ کی سنیئر قیادت ان سے اس قدر ڈر گئی کہ انھیں وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ تب سے انھیں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سے سوچ سمجھ کر الگ رکھا گیا ہے۔ اور وہ آج بھی الگ ہی ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کی سوچ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اجتماعی سوچ کی عکاس ہے۔ وہ اکیلے ایسا نہیں سوچ رہے۔ لیکن وہ اس سوچ کو بدلنے کاکردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن شاید وہ خود بھی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ موقف کہ اگر ہمیں اقتدار پلیٹ میں رکھ کر بھی دیا جائے ہم نہیں لیں گے، کوئی سیاسی موقف نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ناراض سیاسی جماعت کا موقف تو ہوسکتا ہے۔ جو ناراض ہے اس لیے کہہ رہی ہے کہ میں نہیں لیتی اقتدار۔ کیا یہ درست سیاست ہے، سوچنے کی ضرورت ہے۔