مولانا عطا الرحمن کا فارمولہ
پاکستان کی سیاست بظاہر چین ہی چین بتا رہی ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پہلے بولنے کی باری ملنے اور نہ ملنے پر لڑنے والے کبھی پی ڈی ایم میں اتحادی بھی تھے۔ تاہم جے یو آئی (ف) اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے۔
ہمیں جے یو آئی (ف) اور مولانا فضل الرحمٰن کے موقف میں تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑے نظرا ٓتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے راستے تلاش کر رہی ہیں اور ایک دوسرے سے بازی لینے کی کوشش میں ہیں۔
اس ماحول میں گزشتہ روز میری جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عطاء الرحمٰن کے ساتھ ریاض درانی مرحوم کی رہائش گاہ پر ایک طویل نشست ہوئی۔ جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنما بلال میر اور ان کے ساتھی بھی موجود تھے۔ ریاض درانی لاہور میں جے یو آئی (ف) کی پہچان تھے۔ لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ ان کی موت کے بعد بھی مولانا عطا الرحمٰن وہاں موجود تھے اور ان کے بچوں کے ساتھ ویسے ہی بیٹھے تھے جیسے مرحوم ریاض درانی کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ بلال میر اور ریاض درانی کی محبت اور ساتھ بھی قابل دید رہا ہے۔
مولانا عطاء الرحمٰن، مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی الگ سیاسی پہچان بنائی ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کے کردار کی اپنی اہمیت ہے۔ میں نے مولانا عطا الرحمٰن سے پوچھا کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا جو ماحول ہے اس کے خاتمے کا کوئی فارمولہ تو ہوگا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں معاہد کرنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کیسا معاہدہ؟ انھوں نے کہا ملک میں ڈیرھ دو سو لوگ ہیں جنھوں نے ملکی سیاست کو یر غمال بنایا ہوا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوکسی کے اشاروں پر سیاست کر تے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو جھکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آپ لوگ انھیں انتخابی میدان کے جیتنے والے گھوڑے کہتے ہیں۔
مولانا عطا الرحمٰن نے کہا جس جماعت کو بھی برسر اقتدار لانا ہوتا ہے، مقتدر قوتیں ان گھوڑوں کو اس جماعت میں شامل کرواتی ہیں۔ اصل میں یہی لوگ اسٹبلشمنٹ کے لوگ ہیں۔ یہ ہر بار جیتنے والی جماعت میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان ڈیڑھ دو سو لوگوں کی نشاندہی کر کے آپس میں معاہدہ کر لیں کہ ان کو کسی بھی صورت میں اپنی سیاسی جماعت میں شامل کیا جا ئے گااور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت انھیں ٹکٹ دے گی۔
جب یہ نام نہاد الکٹیبلز ہی انتخابی میدان سے باہر ہو جائیں گے، کھیل خود بخود صاف ہو جائے گا۔ آپ دیکھیں یہ پہلے ق لیگ میں تھے۔ پھر ن لیگ میں آگئے اور اب تحریک انصاف میں ہیں۔ یہ صورتحال سب صوبوں میں ہے۔ انھی کی وجہ سے غیر منتخب قوتوں کا پاکستان کی سیاست میں اثر و رسوخ ہے۔ اس جوڑ کو توڑنا ہوگا۔ ایک دفعہ یہ ٹوٹ گیا باقی معاملات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو اگر سیاسی آزادی چاہیے تو انھیں اپنے لوگوں کو ٹکٹ دینا ہوں گے۔ کرائے کے امیدواروں سے جیت بھی کرائے کی ہی ہوتی ہے۔ کبھی نہ کبھی تو سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں مولانا عطا الرحمٰن ٹھیک بات کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اسٹبلشمنٹ کے گھوڑوں کی نہ صرف نشاندہی کرنا ہوگی بلکہ ان کے حوالے سے ایک چارٹر بھی تیارکرنا ہوگا۔ جس بھی سیاستدان نے ایک سے زائد بار سیاسی جماعت تبدیل کی ہو اور الیکشن سیاسی جماعتیں بدل بدل کر لڑے ہیں۔
ان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ ابھی تو ہمیں سیاسی جماعتیں ان کے ہاتھوں میں یر غمال اور ان کی محتاج نظر آتی ہیں۔ اگر ایک دفعہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ طے کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ یہ سب اپنی سیاسی موت خود ہی مر جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ ان کے پاس اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ بینک ہوتاہے لیکن وہ ووٹ بینک اتنا بڑا نہیں ہے کہ تنہا الیکشن جیت جائیں۔ انھیں سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں نے سوال کیا، آگے کیا پروگرام ہے۔ انھوں کا جواب تھا، جے یو آئی (ف) اپنے موقف پر قائم ہے۔ میں نے کہا، آپ کے سیاسی دوست تو کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ ان کا موقف تھا، نہیں نواز شریف موقف پر قائم ہیں۔ میں نے کہا، ان کی جماعت کمزور نظر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا ووٹ تو نواز شریف کا ہے۔ بات تو نواز شریف کی ہی چلے گی۔ اس لیے ہم نواز شریف کو دیکھتے ہیں۔ ادھر ادھر نہیں دیکھتے۔ آپ دیکھیں شہباز شریف بھی پی ڈی ایم میں آئے۔
میں نے کہا، پیپلزپارٹی تو چلی گئی۔ کہنے لگے نہیں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ بجٹ کے بعد ماحول بدلے گا۔ ابھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی راہیں مستقل جدا ہو گئی ہیں۔ یہ ایک عارضی منظر نامہ ہے۔ بجٹ کے بعد کھیل پھر بدلے گا۔ منظر نامہ تبدیل ہو گا۔ یہ سب بجٹ کے لیے ہے۔ میں نے کہا بجٹ پاس ہو جائے گا۔ کہنے لگا ہاں، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ کھیل بجٹ کے بعد شروع ہوگا۔ آپ بجٹ کے دس دن نکلنے دیں۔ پھر دیکھیں کیا ہوتا۔
میں نے کہا آپ کو کیا نظر آرہا ہے۔ انھوں نے کہا قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں۔ میں نے کہا عمران خان خود ہی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ انھوں نے کہا ماحول ایسا بن جائے گا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا۔ انتخابات میں جانا ہی ہوگا۔ میں نے کہا، کیا آپ اور ن لیگ اگلا انتخاب ملکر لڑ سکیں گے۔
کہنے لگے، کے پی اور بلوچستان میں ہمارے ساتھ ملکر ن لیگ کو بہت فائدہ ہوگا۔ ان کے پاس پنجاب ہے جو سب کے سامنے ہے۔ ہمارا پنجاب میں ووٹ بینک ہے، ہم سندھ میں بھی ہیں۔ اس لیے ہمارے ساتھ ملکر وہ فائدے میں ہوں گے۔ سیاسی اتحاد باہمی ضرورت کے تحت بنتے ہیں۔ اگر ن لیگ کو ہمارے ساتھ اتحاد میں فائدہ ہوگا تو ضرور بنائے گی۔ ہم بھی دیکھیں گے کہ اس میں ہمارے موقف کی کتنی جیت ہے۔ ہمارے لیے نظر یہ بہت اہم ہے۔