Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Muzamal Suharwardy/
  3. Kaveh Moussavi Ki Maafi

Kaveh Moussavi Ki Maafi

کاوے موسوی کی معافی

براڈ شیٹ موجودہ حکومت کی ناکامیوں میں سے ایک بڑی ناکامی ہے۔ جس کی مکمل تحقیقات نہیں ہو سکی ہیں۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ براڈ شیٹ کے معاملے کی انکوائری کے لیے جو کمیشن بنایا گیا، اس نے بھی شفاف تحقیقات کے بجائے اس پر مٹی ڈالنے اور اس کو ختم کرنے کی ہی کوشش کی۔

اسی لیے براڈ شیٹ کمیشن کو عرف عام میں مٹی پاؤ کمیشن بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے نہ تو پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اس معاہدے کے ملزمان کی نشاندہی کی اور نہ ہی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی سفارش کی۔ حکومت بھی اس معاملے پر مٹی ڈالنا ہی چاہتی تھی۔ اس لیے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک دفعہ معاملہ دبانے کے بعد دوبارہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا حالانکہ وہ مخالفین پر الزام لگانے کا تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بہر حال براڈ شیٹ نے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہمیں بھاری جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا ہے۔

یہ سب اپنی جگہ موجود تھا لیکن اب براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے اپنے تازہ بیان میں میاں نواز شریف سے ان پر لگائے گئے تمام الزامات پر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ کاوے موسوی نے کچھ عرصہ قبل نواز شریف پر بہت سنگین الزامات لگائے تھے۔ جن میں رشوت دینے کا الزام بھی شامل تھا۔ ان کے الزامات کے جواب میں حسین نواز نے ان کے خلاف پہلے مرحلے میں ہتک عزت کی کارروائی لندن میں شروع کی تھی۔

حسین نواز کے اس مقدمے کی ابتدائی سماعت میں کاوے موسوی نے ہتھیار پھینک دیے اور مقدمہ نہ لڑنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد برطانوی قوانین کے تحت انھیں حسین نواز کو بیس ہزار پاؤنڈ ہرجانہ ا ور قانونی اخراجات ادا کرنے پڑے۔ اس طرح بغیر مقدمہ لڑے صرف مقدمہ دائر کرتے ہی حسین نواز کو بیس ہزار پاؤنڈ مل گئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ وہی کاوے موسوی ہیں جنھوں نے لندن میں ہی پاکستان سے نہ صرف مقدمات جیتے ہیں بلکہ ہرجانے وصول کیے ہیں۔ جو شخص ایک طرف پاکستان سے مقدمے جیت رہا ہے، وہ دوسری طرف حسین نواز سے ہار رہا ہے۔

سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ حسین نواز کو ہرجانہ کی ادائیگی کے بعد کاوے موسوی کو اندازہ تھا کہ میاں نواز شریف بھی ان پر مقدمہ کریں گے اور میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ برطانیہ میں بغیر ثبوت الزامات پر آپ ہتک عزت کے مقدمات سے بچ نہیں سکتے۔ اسی لیے قانون کی معمولی فہم رکھنے والے انسان کو بھی یہ بات سمجھ آئے گی کہ کاوے موسوی نے میاں نواز شریف کی جانب سے مقدمہ سے بچنے کے لیے معافی مانگ لی ہے۔ کاوے موسوی اب حکومت پاکستان اور نیب کا کھیل کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جب انھوں نے الزام لگائے تھے تب وہ شاید نیب کے کھیل میں شامل تھے۔ اب جب کاوے موسوی اور نیب کے راستے الگ ہو چکے ہیں تو انھوں نے معافی مانگنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ کچھ دوست یہ رائے بھی دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی پاکستان کی سیاست میں واپسی کے لیے کام شروع ہو گیا ہے۔ میاں نواز شریف کی نہ صرف وطن واپسی بلکہ سیاست میں واپسی کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے۔ موسوی کا بیان اور معافی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن میں اس کو درست نہیں مانتا۔ موسوی اب پاکستان کا کھلونا نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، اس لیے ایسے سازشی خیالات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ویسے کیا میاں نواز شریف کے لیے کاوے موسوی کی معافی کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اخلاقی فتح سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ درست ہے کہ اس سے میاں نواز شریف کو ایک اخلاقی فتح حا صل ہوئی ہے، لیکن شاید پاکستان کی عدالتیں ان کی اس اخلاقی فتح کو کوئی خاص اہمیت نہ دیں۔ موسوی کی معافی عام پاکستانی کے لیے تو بہت اہم ہوگی لیکن عدالتوں کے لیے شاید اہم نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ نواز شریف کو پاکستان کے نظام انصاف سے انصاف دلوانے میں کوئی خاص مددگار نہیں ہوگی۔ لیکن پھر بھی موسوی کا یہ بیان کہ انھیں اکیس سال کی تحقیقات کے دوران میاں نواز شریف کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا، پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں اپنی گونج قائم رکھے گا۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو جھوٹ اور جھوٹے الزامات سے پاک رکھنے کے لیے ہتک عزت کے قوانین اور نظام انصاف بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بلا شبہ ہتک عزت کے بہترین قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین نہ صرف عالمی معیار کے حامل ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا نظام انصاف ان قوانین کے تحت بروقت انصاف نہیں دے سکا ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں ہتک عزت کے مقدمات سالہا سال التوا کا شکار رہتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں مغربی دنیا میں ہتک عزت کے مقدمات کا ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اسی لیے آپ دیکھیں کہ برطانیہ میں کئی پاکستانی میڈیا ادارے ہتک عزت کے مقدمات ہارے ہیں اور ان کو بھاری جرمانے ہوئے ہیں۔ جب کہ انھیں خبروں پر پاکستان میں مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ آج پاکستان میں جھوٹ کی تمام آمیزش کی بنیادی وجہ نظام انصاف کی یہی کمزوری ہے۔

آج پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر الزمات کی جو بھرمار نظر آتی ہے، ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ اور چور چور کا جو شور نظرا ٓتا ہے، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ آپ الزام لگا کر صاف بچ سکتے ہیں۔ آپ کسی کو بھی عوامی جلسہ میں چور یا ڈاکو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مہذب دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر پاکستا ن کے سیاسی کلچر کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہتک عزت کے حو الے سے نظام انصاف کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

کاوے موسوی کی معافی ہمارے سیاستدانوں اور ریاستی زعما کے لیے سبق ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر کھیلے گئے کھیل ایک دن بے نقاب ہو ہی جاتے ہیں۔ جھوٹ کی بنیاد پر نکالے گئے سیاسی قائدین عوام کی عدالت سے سرخرو ہی رہتے ہیں۔ اسی لیے آج پاکستان کے نظام انصاف سے مرضی کے فیصلوں کے باوجود میاں نواز شریف پاکستان کی عوام کی عدالت سے بری ہیں۔ لوگ ان سزاؤں کو نہیں مان رہے ہیں۔ لوگ ان کے نام پر ووٹ دے رہے ہیں۔ ان کو مائنس کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور وہ آج بھی پاکستان کی سیاست کے محو ر ہیں۔ تاہم اس لڑائی اور کھیل میں پاکستان کا بہت نقصان ہوگیا ہے۔ جس کے ذمے داران آزاد پھر رہے ہیں۔ انھیں ایک مخصوص قسم کا این آر او حاصل ہے۔ انھیں مقدس گائے کہا جاتا ہے۔ نظام انصاف اور نظام قانون ان کو چھو نہیں سکتا ہے۔

اسی لیے وہ آزاد پھر رہے ہیں۔ حالانکہ موسوی کے بیان کے بعد ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہونا چاہیے تھا۔ انھیں قانون کی گرفت میں آجانا چاہیے تھا۔ کون تھا وہ جس نے موسوی سے معاہدہ کیا؟ کون تھا جس نے اس معاہدے میں بروکر کا کردار ادا کیا ہے؟ کون تھا جو حال ہی میں لندن میں حکومت پاکستان کی طرف سے موسوی کو ملتا رہا؟ موسوی نے ڈیوڈ روز پر جو الزمات لگائے، ان پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔ یہ سب سوال ہمارے ارد گرد موجود ہیں، لیکن ان پر کوئی کچھ ایکشن لینے اور ان کے جواب ڈھونڈنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan