اسلام آباد میں انٹیلی جنس کانفرنس
اس وقت عالمی سیاست افغانستان کے گرد گھوم رہی ہے اور پاکستان اس کا محور بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افغانستان میں ہونے والی نئی تبدیلیوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنے کا موقع دیا۔ ورنہ اس سے قبل پاکستان عالمی سیاسی تنہائی کا شکار محسوس ہو رہا تھا۔
یہ درست ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ہم سفارتکاری کی ایک نئی شکل دیکھ رہے ہیں۔ جہاں دنیا کے اہم ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے ابھی اجتناب کر رہے ہیں، وہاں اس نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے راستے بھی تلاش کر رہے ہیں۔ اس طرح ایک طرف حکومت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے دوسری طرف تعاون کرنے کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
اسی تناظر میں اسلام آباد میں سات ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اس کانفرنس کی میزبانی کی۔ روس، چین، ایران کے ساتھ ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل نے بھی عالمی سطح پر بہت توجہ حاصل کی تھی۔
بالخصوص ان کی چائے کی پیالی کو عالمی سطح پر خصوصی کوریج دی گئی۔ اس چائے کو سفارتکاری کے تناظر میں بہت سے معنی دیے گئے۔ جس طرح بھارت میں اس چائے کے کپ کی وجہ سے غصہ نظر آیا، اس نے پاکستان میں اس چائے کے کپ کو بہت مقبول بنا دیا۔ ویسے بھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے بعد کابل میں عبوری حکومت کا اعلان ہو گیا۔ جوڑنے والوں نے ان کے اس دورے کو کابل میں عبوری حکومت کے قیام میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے سے بھی جوڑا۔ ایک رائے بنائی گئی کہ ان کے جانے سے تمام رکاوٹیں دور ہوئیں۔
افغانستان کے ہمسائے سات ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کی اسلام آباد کانفرنس، پاکستان کی میزبانی اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کردارکو عالمی سطح پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ روس اور چین کی اس کانفرنس میں شرکت نے اس کی اہمیت کو بڑھایا۔ روس کے ساتھ ماضی میں افغانستان کی وجہ سے پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں بلکہ افغانستان کی وجہ سے ہی پاکستان اور روس کے درمیان سرد مہری رہی ہے۔ لیکن اب جب امریکا افغانستان سے گیا ہے پاکستان نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کیا ہے۔
روس اور پاکستان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی آغاز ہوا ہے لیکن ابھی روس اور پاکستان کے درمیان وہ تعاون نظر نہیں آرہا جس کی توقع کی جاتی ہے۔ تاہم روس کی انٹیلی جنس کانفرنس میں شرکت نے اس کانفرنس کو بہت اہم کر دیا۔
اب جب دنیا افغانستان کی نئی طالبان حکومت کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں تو حساس اداروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جب باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہوتے تو پھر ممالک کے درمیان انٹیلی جنس روابط ہی تعلقات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اسی لیے ہم نے دیکھا ہے کہ اس کانفرنس سے قبل سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی پاکستان کے دورہ پر آئے اور انھوں نے بھی پاکستان کے اعلیٰ عسکری اور انٹیلی جنس افسران سے ملاقات کی۔ سی آئی اے ڈائریکٹر کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ نہیں تھا۔ وہ اس سے قبل بھی پاکستان کے دورہ پر آئے تھے۔ اس لیے اگر امریکا بھی افغانستان کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات نہیں رکھ رہا تو وہ ابھی انٹیلی جنس رابطے بحال رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ افغان بحران میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنر ل فیض حمید کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ انھوں نے فہم وفراست کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ دنیا ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ امریکا طالبان مذاکرات، امریکی انخلا اور طالبان حکومت کے قیام تک تمام مراحل میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے پاکستان کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکا، روس، چین سمیت تمام اہم ممالک پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان ماضی کی طرح کسی ایک گروپ یا کسی ایک سپر پاور کی پراکسی نہیں بنا ہے بلکہ ہم پوری دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ ماضی میں ہم نے یہی غلطی کی ہے کہ مکمل طور پر امریکا کے کیمپ میں چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے باقی دنیا ہم سے دور ہو جاتی تھی۔ لیکن اس دفعہ ہم مغرب ا ور مشرق دونوں کو ساتھ لے کر چل ر ہے ہیں۔ روس، چین اور امریکا سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں ایران کی اس کانفرنس میں شرکت بھی بہت خوش آیند ہے۔ کیونکہ اس کانفرنس سے قبل ایران سے پاکستان کے بارے میں اچھے بیانات سامنے نہیں آئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پنجشیر کو لے کر ایران کو بہت سی غلط فہمیاں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایران بھارت کی زبان بول رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں ایران کے خدشات دور ہو گئے ہوں گے۔
پاکستان نے ایران کی غلط فہمیاں دور کر دی ہوں گی۔ دونوں ممالک کو اس طر ح ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے کے بجائے انٹیلی جنس ذرایع سے بات کر لینی چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آیندہ کے لیے کوئی روڈ میپ ضرور طے ہوا ہوگا۔
بھارت کو اس کانفرنس سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے بین قابل دید ہیں۔ بھارت نے افغانستان کے حوالے سے خودکو اہم رکھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ ایک ماہ کے لیے جب بھارت کو سکیو رٹی کونسل کی صدارت ملی تو بھارت نے اس دوران افغانستان پر دو اجلاس کیے۔ لیکن ان اجلاسوں میں بھی کوئی خاص فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ بھارت نے بھی دہلی میں ایسے اجلاس منعقد کیے ہیں لیکن ان کو بھی عالمی سطح پر وہ اہمیت نہیں حاصل ہو سکی۔
اب بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اس وقت پاکستان کو مائنس کر کے وہ جو بھی کھیل کھیلنے کی کوشش کرے گا وہ ناکام ہی ہوگا۔ پاکستان کو مائنس کرنے کے چکر میں اب بھارت افغانستان کے کھیل سے خو د مائنس ہو گیا۔ دیکھا جائے تو بھارت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ بھارت افغانستان کے حوالے سے عالمی تنہائی کا شکار ہو گیاہے۔
پاکستان میں ہونے والی کانفرنس میں تمام ممالک نے افغانستان کے حوالے سے آیندہ مل کر چلنے کا اعادہ کیا ہے۔ افغانستان کی مدد بھی مل کر کرنے کا فیصلہ ہواہے۔ اور آیندہ افغانستان میں القاعدہ سمیت دہشت گردی کے کسی نیٹ ورک کے قیام کو روکنے کے لیے بھی مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
مجھے امید ہے کہ آیندہ انٹیلی جنس سربراہان کی ایسی کانفرنس میں افغانستان کے نئے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی بلایا جائے۔ افغانستان میں تمام ممالک کے انٹیلی جنس نیٹ ورک موجود ہیں۔ وہاں سب نے اپنا کوئی نہ کوئی نیٹ ورک بنایا ہوا ہے۔ اس لیے اگر ان ممالک کے سفارتخانے کام نہ بھی کریں تب بھی وہاں ان کے انٹیلی جینس نیٹ ورک فعال ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
آئی ایس آئی کا افغانستان میں کردارہمیشہ سے اہم رہاہے۔ دنیا ہمارے کام کی معترف رہی ہے۔ اب بھی ہم نے سہولت کاری کی ہے، اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس لیے میری رائے میں یہ کانفرنس ایک بروقت قدم تھا۔ آئی ایس آئی کو دنیا کے دیگر حساس اداروں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تا کہ کوئی غلط فہمیاں اور ابہام نہ رہے۔ یہی پاکستان کا مفاد ہے۔ اسی میں افغانستان کی بہتری بھی ہے۔