Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Muzamal Suharwardy
  3. Imran Khan Ki Siyasi Tanhai (2)

Imran Khan Ki Siyasi Tanhai (2)

عمران خان کی سیاسی تنہائی (2)

جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اس میں سیاسی کھیل جاری رہتا ہے۔ اپوزیشن کے پاس ہر وقت حکومت پر حملہ کرنے کا موقع رہتا ہے جب کہ حکومت نے خود کو بچا کر چلنا ہوتا ہے۔

کسی بھی حکومت کے لیے پارلیمانی اکثریت کے ساتھ عوامی حمایت اور مقبولیت کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حکومت عوامی حمایت اور مقبولیت کھو دے تو پارلیمانی اکثریت بھی اسے نہیں بچا سکتی۔ اسی لیے جمہوری حکومت کو عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہی کہا جاتا ہے۔ جب کہ آمریت ڈنڈے سے آتی ہے اور ڈنڈا ہی اس کی بقا کی ضمانت ہوتی ہے۔ جیسے ہی ڈنڈا کمزور ہوتا ہے، آمریت کمزور ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں یہ مسئلہ ہر وقت رہا ہے کہ جمہوری حکمران آمر بننے کے شوقین نظر آتے ہیں جب کہ آمر جمہوری بننے کے شوقین نظر آتے ہیں۔ اس لیے نہ ہمیں مکمل جمہوریت مل سکی ہے اور نہ ہی مکمل آمریت مل سکی ہے۔ بہر حال نیم جمہوری حکومت بھی عوامی حمایت اور عوامی مقبولیت کی محتاج نظر آتی ہے۔

عمرا ن خا ن آج جن مسائل اور بحران کا شکار نظرآرہے ہیں، یہ بحران اور مسائل اس لیے بھی شدید ہیں کہ عمران خان اس وقت عوامی حمایت اور عوامی مقبولیت کھورہے ہیں۔ اگر آج انھیں یہ یقین ہو ان کی عوامی مقبولیت اس قدر ہے کہ وہ دوبارہ الیکشن جیت سکتے ہیں تو وہ دوبارہ عوام کے پاس جانے کا اعلان کر دیں اور ایک بھاری مینڈیٹ سے دوبارہ منتخب ہو جائیں۔ یہ ساری چخ چخ ہی ختم ہو جائے۔

لیکن گزشتہ ایک سال کے ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ عمران خان اگر آج ملک میں انتخابات کا بگل بجا دیں تو ان کے لیے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے کسی نہ کسی طرح عمران خان کو اپنے اقتدار کو سنبھالنا ہے۔ ادھر اقتدار کو جتنا سنبھالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اتنے ہی مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔

عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنے سیاسی مسائل کبھی خود حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ پاکستان کی سیاسی قوتوں سے ڈائیلاگ پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ وہ ان سے ڈنڈے سے بات کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ابھی تک تمام تر سیاسی مسائل کو مقتدر قوتوں کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ انھیں بغیر کسی سے بات کیے مطلوبہ نتائج مل گئے ہیں۔

سب کچھ پلیٹ میں رکھا ہوا ان سامنے آگیا ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہوا ہے کہ اب جب مقتدر حلقوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے تو عمران خان خود اپنے حکومتی اور سیاسی مسائل حل کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ جو کام عمران خان نے کبھی کیا ہی نہیں وہ اب اس بحرانی کیفیت میں کیسے کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کبھی کسی سیاسی قوت سے سیاسی مذاکرات کیے ہی نہیں تو اب کیسے کر سکتے ہیں۔

عمران خان کی آج سب سے بڑی دشمن ان کی سیاسی تنہائی ہے۔ ان کے پاس آج پاکستان میں کوئی سیاسی دوست نہیں ہے۔ انھوں نے کسی کے ساتھ کوئی راہ و رسم بنائے ہی نہیں کہ کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہو۔ انھوں نے سب کو ڈنڈے سے ساتھ رکھا ہے اور آج جب ڈنڈا نہیں ہے تو انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کریں۔ اس سے پہلے ہم نے بھٹو کو دیکھا تھا کہ وہ ملک میں مکمل طو رپر سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔ پاکستان کی سب سیاسی قوتیں انھیں نکالنے کے لیے اکٹھی ہو گئی تھیں لیکن اس کا فائدہ ضیاالحق اور اس کے گروپ نے اٹھایا، اس کے بعد ملک کی سیاسی قوتوں نے سبق سیکھا اور مل کر چلنے کی ر اہ نکالتی رہیں۔

اسی لیے ہم نے اتحادوں کی سیاست دیکھی۔ نواز شریف نے بھی ماضی میں جب سولو فلائٹ کرنے کوشش کی تو انھیں نقصان ہی ہوا تھا۔ اس لیے وہ بھی اب مل کر چلنے کی سیاست کرتے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی تنہائی آج ان کے لیے زہر قاتل بنتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے یہ سیاسی تنہائی بڑھے گی مسائل بڑھتے جائیں گے۔

جب عمران خان نے نواز شریف کی حکو مت کے خلاف دھرنا دیا تھا تب بھی وہ سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔ پارلیمنٹ کی سب قوتیں حتیٰ کہ نواز شریف کی مخالف قوتیں بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھیں۔ لیکن اگر آج عمران خان کسی ایسے بحران کا شکار ہوتے ہیں جہاں ان کے خلاف کوئی دھرنا ہو جائے تو کیا پارلیمان کی سب قوتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔

پارلیمان میں موجود سب سیاسی قوتوں میں سے کوئی بھی عمران خان کے ساتھ کھڑ ا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کے عمران خان کے اتحادی بھی ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ اس لیے پارلیمان میں عمران خان کی سیاسی تنہائی ان کے لیے دن بدن خطرناک ہوتی جارہی ہے۔

وہ پارلیمان میں اپنی عددی اکثریت کھوتے نظر آرہے ہیں۔ ان کو نکالنا آسان نظر آرہا ہے۔ ان کے اپنے حلیف ان کے حریف بنتے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان نے حکمرانی کا ایک ایسا انداز اپنایا جس میں دشمنوں کی تذلیل کے ساتھ ساتھ حلیفوں کی بھی تذلیل کی جاتی رہی ہے۔ جن کے ووٹوں پر حکومت کھڑی ہوئی ہے ان کو بھی یہ احساس دلایا جاتا رہا کہ وہ ڈنڈے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اسی لیے حلیفوں میں سیاسی دشمنوں سے زیادہ غصہ نظرا ٓرہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے ساتھ زیادہ ظلم ہوا ہے۔ ان کے ووٹوں پر حکومت بھی کی گئی ہے اور ان کی تذلیل بھی کی گئی ہے۔ اسی لیے عمران خان کے حلیف خود چل کر اپوزیشن کے پاس جا رہے ہیں۔

عمران خان نے تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک میں بڑے بڑے عوامی جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک کمزور فیصلہ ہے۔ اگر انھوں نے عوام میں جانا ہے تو انتخابات کا اعلان کر دیں، اور اگر وہ اس وقت انتخابات کا رسک نہیں لے سکتے تو ان کی اس کمزوری کو سب جانتے ہیں۔ وہ جلسوں سے اس کمزوری کو چھپا نہیں سکتے۔ اگر ان میں سیاسی ہمت ہے تو وہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کر دیں۔

اور اگر وہ یہ نہیں کر سکتے تو اپوزیشن اور مقتدر حلقے ان کی اس کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی لیے ان کے لیے سیاسی بحران دن بدن بڑھتے جائیں گے۔ عجیب صورتحال ہے کہ اپوزیشن فوری انتخابات چاہتی ہے جب کہ عمران خان انتخابات سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ عمران خان کے لیے مسائل کی بنیاد یہی ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں عمران خان ایک جمہوری حکمران ہوتے ہوئے بھی تنہا نظر آرہے ہیں۔ آج تو یہ سوال بھی اہم ہو گیا ہے کہ ان کی اپنی جماعت میں سے بھی کتنے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ ان کی جماعت میں ٹوٹ پھوٹ نظر آرہی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ ناراض ہیں۔

تحریک انصاف میں ایک سے زائد متبادل وزیر اعظم نظر آرہے ہیں۔ ان کی قیادت پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اگلے چند دن میں ان کی جماعت میں مزید توڑ پھوڑ نظر آئے گا۔ اختلافی آوازیں مزید مضبوط ہوتی نظر آئیں گی۔ ترین گروپ دوبارہ فعال نظر آئے گا۔ نئے گروپ بھی بنیں گے جو اختلاف کرتے نظر آئیں گے۔ میرے لیے یہ سوال اہم ہے کہ اس قدر سیاسی تنہائی میں عمران خان کیا کریں گے۔

کیا وہ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن ز یادہ لوگوں کا خیال یہی ہے کہ جیسے جیسے ان کے گرد گھیر ا تنگ ہوتا جائے گا اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ خود ہی کوئی بڑی غلطی کر دیں گے جس سے ان کے مخالفین کا کام آسان ہو جائے گا۔ سیاسی کھیل کو لمبا چلانے کے لیے جو تحمل اور حکمت عملی چاہیے، وہ نظر نہیں آرہا ہے، انھیں غصہ بھی جلدی آتا ہے اور وہ رد عمل بھی فوری دیتے ہیں۔

ایک سیاسی بحران میں کسی بھی لیڈر کے لیے یہ دونوں چیزیں نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے دشمنوں کا بھی یہی خیال ہے کہ جیسے جیسے دباؤ بڑھے گا وہ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دیں گے۔ جس سے کام آسان ہو جائے گا۔

Check Also

Final Call Ka Nateeja Sifar

By Muhammad Riaz