چوہدری پرویز الٰہی نے سیاسی منظرنامہ کلیئر کر دیا
چوہدری پرویز الٰہی کے ایک حالیہ انٹرویو نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر چھائے ہوئے بادل ختم کر دیے ہیں۔ انہوں نے منظر نامہ کافی حد تک کلیئر کر دیا ہے۔
میرے خیال میں یہ ابہام کہ حکومتی اتحادی کدھر جا رہے ہیں، وہ بھی ختم ہو گیا ہوگا۔ میں تو کافی دن سے لکھ رہا تھا کہ اتحادی دن بدن حکومت اور بالخصوص عمران خان سے دور ہو رہے ہیں تاہم چوہدری پرویز الٰہی کی گفتگو نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ انہوں نے ہر چیز صاف کر دی ہے۔
میرے لیے چوہدری پرویزالٰہی کی گفتگو کا یہ حصہ اہم نہیں کہ حکومتی اتحادی اب اپوزیشن کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت تھی جسے انہوں نے بیان کیا ہے۔ گفتگو کی اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان تعلقات بھی اب کوئی اچھے نہیں رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان اب ارکان اسمبلی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھلی باتیں کرتے ہیں اور اپنی تمام تر نااہلیوں اور نا کامیوں کا ذمہ دار اسٹبلشمنٹ کو ٹھہراتے ہیں۔ عمران خان آجکل گفتگو کر رہے ہیں کہ انہوں نے اسٹبلشمنٹ کی بہت تابعداری کر لی ہے جو ان کی بڑی غلطی تھی۔ اس لیے وہ اب مزید تابعداری نہیں کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام سیاسی حلقوں کے لیے یہ ایک بڑا واضح پیغام تھا۔
یہ ابہام ختم نہیں ہو رہا تھا کہ کیا عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت اب بھی حاصل ہے کہ نہیں۔ اکثر لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ نہیں آپ دیکھنا آخر میں یک دم اسٹبلشمنٹ سارا کھیل بدل دے گی۔ اسٹبلشمنٹ اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔ ایسی کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہلکا سا اختلاف ہوا تھا۔ لیکن بات دوبارہ طے ہو گئی ہے۔ نئی نئی تھیوریاں پیش کی جا رہی تھیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جیسے ماضی میں عمران خان ایک جادوئی طاقت کے ساتھ بحران پر قابو پا لیتے تھے۔ اسی طرح اب بھی آپ دیکھیں کہ وہ جادوئی طاقت میدان میں آئے گی اور سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ سب ٹھیک ہے کہ ایک تاثر دیا جا رہا تھا جس سے ابہام موجود تھا۔
لیکن چوہدری پرویزالٰہی نے اس حوالے سے تمام منظر نامہ کھول کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے کے بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کہا کہ پہلے سوچنا پھر تولنا اور پھر بولنا چاہیے۔ ان کی گفتگو سے لگتا ہے کہ جانور والا بیان متعلقہ حلقوں میں کوئی بھی خاص پسند نہیں کیا گیا۔ ورنہ اس سوال کو چوہدری پرویزاالٰہی ہنس کر ٹال بھی سکتے تھے۔
اپوزیشن تو اس سے پہلے الزام لگاتی تھی کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی میدان میں شکست دینے کے لیے نیب کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نیب نیازی گٹھ جوڑ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے ایک حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ چوہدری مونسالٰہی کے عمران خان کے خلاف بیان دینے کے بعد عمران خان نے نیب کو ہدایت کی کہ چوہدری مونس الٰہی کو کسی کیس میں گرفتارکر لیا جائے۔
جب نیب والوں نے بتایا کہ ان کے خلاف اب کوئی کیس نہیں ہے تو کہا گیا کہ کچھ ڈھونڈیں۔ چوہدری پرویزالٰہی نے بتایا ہے کہ عمران خان اپنے مخالفین کے خلاف نیب کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ اور نیب کو بطور ایک ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اب چوہدری مونس الٰہی کو بھی کوئی وضاحت دینے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی کہ انہوں نے حمایت کا بیان دیکر واپس مخالفت پر کیوں اتفاق کیا۔ چوہدری پرویزالٰہی نے صورتحال کو کافی حد تک واضح کر دیا ہے۔
عمران خان کے بارے میں ان کی رائے یوں اخبارات میں سامنے آئی ہے کہ ان کے اندر کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اسی لیے وہ ساڑھے تین سال میں بھی نہیں سیکھ سکے ہیں۔ ان کی یہ تشبیہ بھی کمال ہے کہ ساڑھے تین سال تک عمران خان کی نیپی بدل بدل کر انہیں چلایا گیا ہے۔ اور ا ب نیپی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ اس کو بدلنے کی سہولت مزید نہیں دی جا سکتی۔
یہ درست ہے کہ ق لیگ اور عمران خان کے درمیان پہلے دن سے کوئی اچھے تعلقات نہیں تھے۔ عمران خان کا ان کے ساتھ سلوک بھی کوئی اچھا نہیں تھا۔ عمران خان جان بوجھ کر چوہدری پرویزالٰہی سے ملنے سے اجتناب کرتے تھے۔
ساڑھے تین سال کے دوران ایسے کئی مواقعے آئے کہ چوھری پرویزالٰہی گورنر تھے اور عمران خان لاہور آئے۔ بلیو بک کے تحت گورنر نے وزیر اعظم کا استقبال کرنا ہوتا ہے کیونکہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمایندہ ہو تا ہے۔ لیکن وزیر اعظم ہاؤس سے چوہدری پرویزالٰہی کو کہہ دیا جاتا تھا کہ آپ ایئرپورٹ نہ آئیں۔ وزیر اعظم نہیں چاہتے کہ آپ ایئرپورٹ آئیں۔ چوہدریوں کے پاس زیادتیوں کی ایسی طویل فہرست ہے کہ عمران خان اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ وہ مجبوری میں ساتھ چلتے رہے۔ اور آج مجبوریاں ختم ہو گئی ہیں اور نظر آرہا ہے کہ وہ آزاد ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ 2018کے انتخابات کے فوری بعد چوہدری پرویزالٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے تیار تھی۔ ان کی طرف سے پیشکش بھی کی گئی۔ لیکن ملکی حالات نے چوہدری پرویزالٰہی کو تب یہ آفرقبول کرنے نہیں دی۔ وزارت اعلیٰ ان کے گھر پہنچ گئی تھی لیکن نیپی کلچر نے انہیں روک دیا۔ لیکن آج وہ اس پیشکش کو قبول کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
چوہدری پرویزالٰہی کے انٹرویو نے ملک کے سیاسی منظر نامہ میں صف بندی کوواضح کر دیا ہے۔ سب کچھ صاف ہو گیا ہے۔ یہی سیاست ہے۔ اور یہی سیاسی اعلان ہے۔ انہوں نے تو باقی اتحادیوں کی طرف سے بھی اعلان کر دیا ہے۔ کہ سب اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اب تحریک عدم اعتماد پر بس رسمی کارروائی باقی رہ گئی ہے۔