برطانوی کرائم ایجنسی کا فیصلہ
قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کی تحقیقات میں بے گناہ قرار پا گئے ہیں۔ میں نے لفظ بے گناہ اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان کے مشیر احتساب ضد کر رہے ہیں کہ وہ بری نہیں ہوئے ہیں۔
ویسے تو میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ہی یہ لکھا تھا کہ شہباز شریف کو ابھی پاکستان میں بھی سزا نہیں ہوئی، اس لیے حکومت کا یہ موقف درست نہیں کہ ان کے ساتھ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے مشاورت نہیں ہو سکتی۔ میری دلیل تھی کہ قانون کی نظر میں ہر شخص معصوم ہے جب تک اسے سزا نہ ہو جائے۔ اس لیے شہباز شریف قانون اور آئین کی نظر میں ابھی بھی معصوم ہے۔ کالم کے لکھنے کے بعد رات کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے ان کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ آگیا۔
جب شہباز شریف نے برطانیہ میں ڈیوڈ روز کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ انھوں نے ایک سیاسی جوا کھیلا ہے۔ اگر وہ یہ مقدمہ جیت جاتے ہیں تو انھیں پاکستان میں سیاسی طور پر بہت فائدہ ہو گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ وہ یہ مقدمہ برطانیہ میں ہار جاتے ہیں تو انھیں پاکستان میں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ اس مقدمہ کی ابتدائی سماعت بھی شہباز شریف کے حق میں ہوئی ہے۔ اس لیے قانونی ماہرین کی یہی رائے ہے کہ شہباز شریف یہ مقدمہ بھی جیت سکتے ہیں۔
شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کا ویسے تو سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سیاست میں کبھی حصہ بھی نہیں لیا ہے۔ کوئی انتخاب بھی کبھی نہیں لڑا۔ وہ ایک مکمل کاروباری انسان ہیں جو خود کو سیاست سے دور رکھتے رہے ہیں۔ سیاسی لوگوں سے ان کا ملنا جلنا بھی بہت کم ہے۔
بہت کم سیاسی لوگ انھیں جانتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھیں بہت ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ اسی لیے جب نیب نے ان پر چڑھائی شروع کی تو انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کا سارا کاروبار پاکستان میں ہے۔ وہ پاکستان سے جانا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن حکومت کے عزائم ان کے حوالے سے نیک نہیں تھے، اس لیے ان کا جانا ہی بہتر سمجھا گیا۔
ویسے تو حکومت نے صرف سلمان شہباز ہی نہیں بلکہ ان کی بہنوں، بہنوئی اور والدہ کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان سب کا بھی پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود شہباز شریف نے سیاسی طور پر ایک ثابت قدمی دکھائی ہے۔
پاکستان میں تو سلمان شہباز کے خلاف گھیر ا تنگ کرنے کا عمل 2018سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن جب وہ پاکستان سے چلے گئے تو پاکستان میں احتساب کے اداروں نے لندن میں بھی ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا عمل شروع کیا۔ اگر مشیر احتساب شہزاد اکبر کی بات مان لی جائے کہ وہ بری نہیں ہوئے ہیں تو وہ یہ بات تو مان لیں کہ دو سال بعد جب سلمان شہباز اور شہباز شریف کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو منی لانڈرنگ کرپشن اور فراڈ کے کوئی ثبوت نہیں ملے، اس لیے انھوں نے تحقیقات بند کر کے ان کے اکاؤنٹس کو غیر منجمند کر دیا۔
مشیر احتساب یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ انھوں نے اور نیب نے ان تحقیقات میں بھر پور تعاون کیا ہے۔ پاکستان میں شہباز شریف اور سلمان شہباز کے خلاف قائم تمام مقدمات کی تفصیل اور ان مقدمات کی تفتیش برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو فراہم کی گئی۔
پاکستان کے تمام اداروں کے پاس سلمان شہباز اور شہباز شریف کے خلاف جو بھی ثبوت تھے وہ برطانیہ کو فراہم کیے گئے اور اب کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ نے حکومت کے تمام ثبوت اور مقدمات کو جھوٹ قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستانی حکام کے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر سلمان شہباز اور شہباز شریف پر کوئی بھی مقدمہ قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ ان کو کوئی ثبوت ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے، اسے سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔
نیب کے قانون کے تحت نیب کو صرف الزام لگانا کافی ہوتا ہے، بے گناہی ثابت کرنا ملزم کا کام ہے، اس لیے اگر ناکافی ثبوتوں کے ساتھ بھی کوئی الزام لگا کر ریفرنس دائر کر دیتا ہے تو اس کی نیب قانون میں گنجائش موجود ہے۔ نیب عدالت ملزم سے بے گناہی کا ثبوت مانگے گی۔ نیب عدالت مبینہ ملزم سے کہے گی کہ نیب نے آپ پر یہ الزام لگایا ہے آپ اس کا جواب دیں۔ یہ ویسے انصاف کے بنیادی فلسفہ کی نفی ہے۔ ایسا قانون پاکستان میں تو ہے لیکن برطانیہ کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہاں اگر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سلمان شہباز اور شہباز شریف کے خلاف کوئی الزام لگاتی ہے تواس الزام کو ثابت کرنا بھی نیشنل کرائم ایجنسی کا ہی کام ہے۔ الزام ثابت کرنا تفتیش کاروں کا کام ہے اور تفتیشی ایجنسی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اس کے لگائے ہوئے الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکے تو ملزم کو تفتیشی ایجنسی پر مقدمہ کرنے کا بھی قانونی حق ہے۔
جب کہ پاکستان میں بری ہونے کے بعد بھی کسی کو نیب پر مقدمہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لیے برطانیہ کے اور پاکستان کے قوانین میں فرق نے نیشنل کرائم ایجنسی کو پاکستان کے غیر معیاری ثبوتوں پر مقدمہ قائم کرنے سے روکے رکھا۔ حالانکہ برطانیہ نے ہی پاکستان کی ایک بزنس پرسنیلٹی کی دولت پاکستان کو واپس کی تھی۔ تب بھی نیشنل کرائم ایجنسی نے ہی تحقیقات کی تھیں، اس لیے ایسا نہیں ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے ملزم نہیں پکڑے ہیں۔
حکومت اور بالخصوص مشیر احتساب شہزاد اکبر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برطانیہ میں بے گناہ ہونے سے سلمان شہباز اور شہباز شریف کے خلاف پاکستان میں مقدمات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن عوام کی عدالت میں شہباز شریف کے امیج کو بہت فائدہ ہوگا۔ قانون کی عدالت سے مقدمہ عوام کی عدالت میں آتا ہے اور عوام کی عدالت کے فیصلے قانون کی عدالت کے فیصلوں پر برتر ی رکھتے ہیں۔
اس لیے ویسے تو اب اخلاقی طور پر پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دیگر مقدمات بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف جب عدالتوں کو بتائیں گے برطانیہ نے انھیں انھی الزامات میں بری قرار دیا ہے تو پاکستانی عدالتوں پر بھی بوجھ آئے گا کہ ہم کیسے گناہ گار قرار دیں۔ جب یہ بتایا جائے گا کہ ان الزامات کی تحقیق برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی کی ہیں اور انھوں نے ان الزامات کو غلط قرار دیا ہے تو پھر نیب عدالتیں کیا کہیں گی۔
جب پاکستانی حکام نے برطانوی ایجنسی کی تحقیقات میں مدد کی ہے، بھرپور تعاون کیا ہے توپھر پاکستانی حکام اس تحقیقات کے نتائج سے خود کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتا ہے۔ یہ دلیل کمزور ہے کہ شہزاد اکبر کے ایسٹ ریکوری یونٹ کی درخواست پر یہ مقدمہ دائر ہوا تھا کہ نہیں، اہم ہے کہ شہزاد اکبر کا ایسٹ ریکوری یونٹ ان تحقیقات میں لمحہ بہ لمحہ شامل رہا اور برطانیہ کی تحقیقاتی ایجنسی کے سامنے کچھ ثابت نہیں کر سکا۔
شہباز شریف اور سلمان شہباز اب برطانیہ کے سرٹیفائیڈ بے گناہ ہو گئے ہیں۔ برطانیہ نے ان کی بے گناہی پر ایک ایسی مہر ثبت کی ہے جس کو عوام کی عدالت میں بہت قبولیت ہوگی۔ عوام تو پہلے بھی احتساب کے اس عمل پر شکوک و شہبات کا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن برطانیہ نے تو اب اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اس کا شہباز شریف کو سیاسی طور پر بہت فائدہ ہوگا جب کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ یہی حقیقت ہے۔