زیدی فوٹو گرافرز اور شاہد زیدی کا کمال فن
چلئے آپ بھی کیا یاد کریں گے ہم آج کی بات نہیں کرتے۔ آج سے تقریباً ستر برس پیشتر کے زمانوں کا قصہ چھیڑتے ہیں۔ ہم ان دنوں کافی نابالغ ہوا کرتے تھے یعنی ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور کافی لاڈلے بھی ہوا کرتے تھے کہ سب سے بڑے بیٹے تھے۔ کیا ہوا جو ہماری رنگت قدرے مشکی ہوا کرتی تھی۔ یعنی ہم کالے شاہ کالے بھی نہیں تھے اور گورے وغیرہ تو ہرگز نہیں تھے۔ بس بین بین معاملہ تھا۔ کرائون پرنس کے لئے کہاں لکھا ہے وہ گورا ہو۔ ابھی پچھلے دنوں برطانوی شاہی خاندان میں بی بی مرکل کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اور جو انگلستان کی بادشاہت کی درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے اس کی وہ تصویر ملاحظہ فرمائیے جس میں اس کی سگی نانی جان اپنے اس شہزادے ہو جانے والے نواسے کو کیسی الفت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے اور نانی جان ماشاء اللہ سو فیصد نیگرو یعنی افریقن نسل کی ہیں۔ چنانچہ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر ہم مشکی ہوا کرتے تھے اور پھر بھی لاڈلے ہوا کرتے تھے تو اس میں چنداں مضائقہ نہ تھا۔ اس لاڈلے پن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اباجی سے فرمائش کی کہ مجھے فوٹو کھینچنے کے لئے کیمرہ خرید دیں۔ یاد رہے کہ ان دنوں کیمرے کم کم ہوا کرتے تھے۔ یا تو میوہسپتال روڈ پر اپنی تین ٹانگوں پر کھڑے ملتے تھے اور فوٹو گرافر سیاہ کپڑے کی ایک سرنگ میں سر گھسیڑ کر ایسی فوٹو اتارتا تھا جسے آپ تو کیا آپ کی امی جان بھی نہیں پہچان سکتی تھیں کہ یہ تو میرا لال ہے اور اگر ہے تو عجیب سا نہیں۔ کسی کا بھی لال ہو سکتا ہے یا پھر اگر ہوتا تھا تو چاچا ایف ای چودھری کے پاس کیمرہ ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ کوئی معمولی فرمائش نہ تھی۔ ابا جی مجھے مال روڈ پر واقع"زیدی فوٹو گرافرز" کی سحر انگیز دکان پر لے گئے۔ مبلغ ساڑھے بائیس روپے کا کوڈک برائونی کیمرہ چمڑے کے کیس کے ساتھ خرید کیا اور ان دنوں جو زیدی صاحب ہوا کرتے تھے انہوں نے تب کے زمانوں کا فوٹو گرافی کا ایک سنہری اصول حفظ کرا دیا کہ بیٹا جس شے کی تصویر اتارو عمارت ہو یا کوئی شخص بس یہ خیال رکھو کہ سورج تمہاری پشت پر ہونا چاہیے۔ اس زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے میں نے لاہور ہائی کورٹ، شالیمار باغ اور شاہی قلعہ کی جو تصویریں اتاریں وہ ریڈیو کے رسالے"آہنگ" میں بچہ فوٹو گرافی کے صفحے پر شائع ہوئیں۔ یقین نہ آئے تو میری کسی ویب سائٹ پر چیک کر لیجیے۔ اس کوڈک بے بی برائونی کیمرے کے ساتھ ہی میں نے پرنس کریم آغا خان کے والد پرنس علی خان کی ایک یادگار تصویر اتاری۔ پرنس علی خان یو این او میں پاکستان کے نمائندے تھے۔ لاہور ایئر پورٹ اترے تو بیگم وقار النسا نون نے ان کا استقبال کیا اور ایک لم ڈھینگ سے بچے نے جو کیمرے کا رخ ان کی جانب کر کے فوٹو پلیز فوٹو پلیز کہہ رہا تھا اور ہاں بعدمیں اسی کیمرے سے میں نے پہاڑوں کے پس منظر میں ایک تنی ٹنڈ منڈ شجر کی تصویر اتاری۔ جو ان دنوں کے الحمرا کے آل پاکستان فوٹو گرافی مقابلے کے لئے چن لی گئی۔ اور یہیں پر دیگر تصویروں کے ہمراہ نمائش کے لئے آویزاں کی گئی۔ آج اسی الحمرا کی سرزمین پر لیکن ایک شاندار گیلری میں "زیدی فوٹو گرافرز" کی تاریخی اور قدیم تصویروں کی نمائش ہو رہی تھی اور شاہد زیدی ہر تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر نہائت جذباتی انداز میں ان کی تاریخی اہمیت اور تخلیقی پہلوئوں کے بارے میں بے شمار شائقین کے اشتیاق کی آبیاری کر رہے تھے اور یہ دو چار برس نہیں کم از کم ایک صدی کا قصہ تھا۔ یہ وہی شاہد زیدی تھے جن کے والد صاحب سے میں نے اپنا پہلا کیمرہ حاصل کیا تھا۔ دیواروں پر تصویریں نہ تھیں تاریخ اور ثقافت کے گمشدہ اوراق تھے۔ حضرت قائد اعظم کی آفیشل پورٹریٹ زیدی نے بنائی جس کے لئے بابائے قوم ان کے سٹوڈیو میں تشریف لائے۔ لیاقت علی خان، نواب ممدوٹ کے علاوہ تحریک پاکستان کے بہت سے سرکردہ راہنمائوں کی تصویریں بھی ماضی کی یادگاریں تھیں۔ یہ تصویریں گزر چکے زمانوں کی گلیوں کے گمشدہ اوراق تھے جنہیں دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب اداسی نے جنم لیا کہ کہاں گئے وہ دن برطانوی عہد میں کیتھیڈرل چرچ میں گورا فوجیوں کی شادی کا منظر۔ دولہا دلہن کے دونوں جانب برطانوی افسر تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ مہاراجہ آف شیخو پورہ ہندو اور سکھ نوبیاہتا جوڑے، 1949ء کی پاکستان کرکٹ ٹیم کی گروپ فوٹو میں نے فضل محمود، شجاع الدین، خان محمد اور امتیاز احمد کو پہچان لیا۔ برطانوی فوج کی ایک بانکی گوری نرس جس کی ٹوپی ترچھی تھی۔ نمائش گاہ کا مہمان خصوصی وہ سو برس سے بھی زیادہ قدیم پورٹریٹ کیمرہ تھا جو شاہد زیدی کے بزرگوں نے کسی انگریز صاحب بہادر سے خریدا تھا جس کا خصوصی لینز ہاتھ سے تخلیق کیا گیا تھا۔ ان قدیم تصویروں کی کشش سعید اختر اور ڈاکٹر اعجاز انور کو بھی کھینچ لائی تھی جو ان دنوں اپنے سٹوڈیوز سے کم ہی باہر نکلتے ہیں۔ سعید اختر نے بھی قائداعظم کی ان گنت پورٹریٹس بنائیں۔ تحریک پاکستان کے راہنمائوں کو ایک بڑے کینوس پر تصویر کیا۔ وہ بجا طور پر مصور پاکستان کہلانے کا حقدار ہے اور ڈاکٹر اعجاز انور نے تو لاہور کی قدیم عمارتوں، جھروکوں اور بازاروں کو واٹر کلر سے نہیں اپنے خون سے پینٹ کیا ہے تبھی اس کی تصویروں میں زندگی کی حرارت دوڑتی ہے۔ شاہد زیدی مجھ سے دو چار برس ہی چھوٹے ہوں گے لیکن اب بھی ان پر ایک بلیک بک ہرن کا گمان ہوتا ے وہ ایسے چوکڑیاں بھرتے ہیں۔ سردیوں میں مچھلیاں پکڑتے ہیں ان کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے ہیں ان سے باتیں کرتے ہیں اور پھر واپس پانی میں ڈال دیتے ہیں۔"ہراموش ناقابل فراموش" کی کوہ نوردی کی مہم میں وہ میرے ساتھی تھے اور سب سے آگے نکل نکل جاتے تھے۔ ہراموش کے قصبے کی برفانی تنہائی میں انہوں نے اپنے قدیم کیمرے کے ساتھ چند نایاب تصویریں اتاریں۔ شاہد زیدی نے مجھ پر عنائت کی اور اپنے سٹوڈیو میں میری پورٹریٹ بھی بنائی۔ میں نے غور سے سب پورٹریٹس دیکھیں اور کہا، شاہد صاحب!آپ نے میری پورٹریٹ نمائش میں کیوں شامل نہیں کی؟ اپنی شرارتی مسکراہٹ کو نمائش کیا اور کہنے لگے’جن لوگوں کی پورٹریٹ آویزاں ہیں وہ تو مر چکے ہیں آپ تو ابھی زندہ ہیں ماشاء اللہ۔ میں نے کہا کہ جی نہیں ان میں سے دو شخصیتیں بھی تو ابھی زندہ ہیں۔ کہنے لگے بس ان کی رخصتی کا خدشہ ہے اس لئے۔ ویسے بندے نے مرنا تو ہوتاہے، اگر شاہد زیدی سے پورٹریٹ بنوا کر مرے تو بہتر نہیں ہے۔ کم از کم تصویر کی تاریخ میں تو محفوظ ہو جائے۔