تنہائی کے سو رُوپ ہیں
تنہائی کے سو روپ ہیں۔ اس کا ایک روپ ایسا ہے جس میں انسان خود ایک اداسی گھولتا ہے اور اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کر کے ایک لطف سے آشنا ہوتا ہے جیسے آج تنہائی کسی ہمدمِ دیرینہ کی طرح کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے.چنانچہ تنہائی کا یہ رُوپ کسی حد تک رومانوی ہوتا ہے۔ اس میں مجبوری کا عمل دخل نہیں ہوتا، ایک تنہائی رُوح کی ہوتی ہے اور یہ سانس کی عطا کے ساتھ آپ کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ اس پر اختیار نہیں ہوتا، یہ ودیعت کردہ ہوتی ہے اور یہ انسان کو اس کائنات کی وُسعت میں اُس کے ذرہ وجود کا احساس دلاتی ہے کہ تمہاری حیثیت اس جہانِ رنگ و بو میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تنہائی کبھی اس سرشاری کی جستجو میں اختیار کی جاتی ہے جو صرف خالق کی قربت کو حاصل کرنے کے لیے خلق سے جُدا ہونے کی صورت میں ہی نصیب ہوتی ہے۔ ایک جغرافیائی اور نسلی تنہائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے قبیلے سے کٹ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان صرف تنہائی میں ہی ارتقا کی منازل طے کرتا ہے کہ وہ سب سے الگ ہو کر ہمہ وقت ایک سوچ میں مبتلا رہتا ہے اور کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنے بھی تخلیقی ذہن ہوتے ہیں۔ وہ ادیب ہوں یا سائنسدان صرف تنہائی میں ہی اپنے من میں ڈوب کر ہی سراغ زندگی پاتے ہیں .اور تو اور صرف تنہائی میں ہی پیغمبری اترتی ہے۔ بے شک آخری تنہائی قبر کی ہوتی ہے جو ہم سب کا مقدر ہے، لیکن ان سب میں سے اذیت ناک آخری برسوں کی تنہائی ہوتی ہے، جب انسان فنا کے آخری کناروں پر آ کھڑا ہوتا ہے اور اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب اذن ہو جانا ہے کہ زمین پر تمہارے دن پورے ہو گئے اور وہ فنا کی تاریک کھائی میں گر کر معدوم ہو جاتا ہے۔ چلئے یہ سب تو قدرت کی جانب سے ودیعت ہو چکا، عمر کی گزران پر کسی کا اختیار نہیں لیکن میرے نزدیک یہ تنہائی تب مزید اندوہناک ہو جاتی ہے جب انسان اپنے آخری برسوں میں اپنے وطن سے دُور کسی اجنبی سرزمین پر اس سے دوچار ہوتا ہے۔ اپنے وطن میں چاہے وہ کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو جائے، اس کے آس پاس اپنے لوگ ہوتے ہیں، اپنی زبان اور اپنی ثقافت کی مہک ہوتی ہے، اپنے موسموں میں دن رات کرتا ہے جن سے اس کی بچپن سے آشنائی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن کے پرندوں کی بولی سمجھتا ہے اور وہ پرندے بھی اس سے شناسا ہوتے ہیں۔ دیار غیر میں آپ بے شک زندگی کا بیشتر حصہ بسر کر لیں آپ کبھی بھی وہاں کے موسموں، زبان اور ثقافت سے ہم آہنگ نہیں ہوتے اجنبی ہی رہتے ہیں۔ جوانی تو گزر جاتی ہے لیکن عمر کے آخری ایام میں پرائے دیس میں ہونا ایک عذاب سے کم نہیں چونکہ میں بھی عمر کے آخر حصے میں پہنچ چکا ہوں اس لیے اس بار امریکہ میں مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں اپنے وطن میں اپنے آخری برس بسر کر رہا ہوں۔ میں نے وہاں بہت سے اپنے ہم عمروں کو دیکھا بلکہ اپنی عمر سے کم کے لوگوں کو دیکھا جو تنہائی کا شکار ہو کر کچھ مجذوب سے، کچھ گمشدہ سے ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کامیاب اور متمول لوگ ہیں، ایک مدت سے امریکہ میں مقیم ہیں لیکن اس عمر میں آ کر وہ اس تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں جو صرف دیار غیر میں پاکستانی بوڑھوں پر نازل ہوتی ہے اور وہ کسی حد تک بہک جاتے ہیں، میں دو تین ایسے دوستوں سے ملا جن کے ساتھ پہلی ملاقات تقریباً پندرہ برس پیشتر ہوئی تھی۔ پھر وقفے وقفے سے جب کبھی امریکہ جانا ہوتا ان سے میل ملاقات کا سلسلہ جاری ہو جاتا اور وہ اچھے بھلے ہوا کرتے تھے لیکن اس بار مجھے واضح طور پر محسوس ہوا کہ ان کا ذہن بھٹک رہا ہے۔ بے وجہ قہقہے لگانے لگتے ہیں اور کبھی بے وجہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی آل اولاد رزق روزگار کے سلسلوں میں ان سے بچھڑ چکی ہے اور وہ تنہا رہتے ہیں۔ اگر اہلیہ حیات ہے تو وہ بھی انہی کی مانند ذہنی طور پر بھٹکتی رہتی ہے۔ ان میں انکل امتیاز ہیں جو پاکستان ٹوبیکو میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھے، ان کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ ایک پرآسائش مکان میں تنہا رہتے ہیں۔ ایک بیٹی کبھی کبھار آ نکلتی ہے۔ بیٹے بہت ہوا تو کسی عید پر کسی دور کی ریاست سے آئے اور اگلے روز چلے گئے۔ انکل ممتاز کا گھر ان نوادرات سے بھرا پڑا ہے جو دنیا بھر کی سیاحت کے دوران انہوں نے جمع کی تھیں۔ وہ کسی نہ کسی بات پر اٹک جاتے ہیں۔ تارڑ صاحب میں نے یہ روغنی تصویر تبت کے ایک بھکشو سے خریدی تھی۔ پانچ منٹ کے بعد پھر مسکراتے ہوئے کہیں گے، تارڑ صاحب میں نے یہ روغنی تصویر تبت کے ایک بھکشو سے خریدی تھی۔ کچھ دیر بعد آپ کا ہاتھ پکڑ کر پھر اسی تصویر کے پاس لے جائیں گے، تارڑ صاحب میں نے.کبھی میرے سفر ناموں پر اٹک جائیں گے کہ تارڑ صاحب.آپ کے سفرنامے پڑھ کر میں نے دنیا دیکھی۔ وقفے وقفے کے ساتھ وہ یہی فقرہ دہراتے چلے جائیں گے۔ اکیلے بیٹھے ٹیلی ویژن کو تکتے رہیں گے اور ٹیلی ویژن کی سکرین سیاہ ہے۔ ایک اور صاحب ہیں احسان نام کے.بیگم ماشاء اللہ حیات ہیں۔ پاکستان میں مجھ سے ملنے کے لیے بھی آئے تھے۔ ہر تقریب ہر دعوت پر پہنچ بھی جاتے ہیں۔ بچے ان سے ملنے آتے ہیں تو ان کے بچوں کو سرزنش کرتے ہیں کہ تم اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور خفا ہو جاتے ہیں۔ ایک روز ان کا فون آیا، کہنے لگے "تارڑ صاحب. آپ سے ایک ضروری کام پڑ گیا ہے۔ پاکستان میں اپنے دو تین جاننے والوں کے فون نمبر دیجئے۔ ایسے لوگ جن کے ساتھ میں فجر کی نماز کے بعد کم از کم ایک گھنٹہ باتیں کر سکوں " عجیب سی فرمائش تھی، میں نے کہا احسان صاحب آپ اپنے عزیزوں یا دوستوں کے ساتھ فون پر کیوں باتیں نہیں کر لیتے، کہنے لگے "تارڑ صاحب میں انہیں صبح سویرے روزانہ فون کرتا ہوں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، پتہ نہیں کیوں .اور اگر بات کر لیں تو صرف دو تین منٹ، ایک گھنٹہ کوئی بات نہیں کرتا" جب میں نے معذرت کی کہ احسان صاحب مشکل ہے۔ تو خفا ہو کر بولے "کیوں .!" میں نے کہا وہاں کے بوڑھوں کو اور بہت سے کام بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً پوتے پوتیوں سے کھیلنا، بازار سے سبزی اور پھل وغیرہ لانا. عزیزوں، رشتے داروں سے ملنا وغیرہ.۔ احسان صاحب نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے "ان کے پاس موبائل تو ہوں گے.بازار جاتے ہوئے مجھ سے باتیں کر لیں لیکن کم از کم ایک گھنٹہ اس سے کم نہیں ".میں کئی بار تلمیذ حقانی کا تذکرہ کر چکا ہوں، جسے بڑھاپے میں لاہور چھوڑ کر ٹورنٹو میں اپنے بیٹے کے پاس جانا پڑا.وہاں وہ ان لوگوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا جو اس کے ساتھ لاہور کی باتیں کریں۔ اس کی موت میں بیماری کے علاوہ لاہور سے بچھڑنے کا غم بھی شامل تھا۔ طارق مجید اچھے بھلے پارک میں دوڑتے پھرتے تھے۔ اپنے بچوں کے پاس دیار غیر میں منتقل ہو گئے۔ پچھلے دنوں ان کی موت کی خبر آ گئی۔ میں ایک ایسے بوڑھے میاں بیوی کو جانتا ہوں جو ساہیوال سے کینیڈا چلے گئے، بچوں نے بلا لیا۔ وہ دونوں ایک نزدیکی پارک میں جا کر کسی بنچ پر بیٹھ جاتے اور پھر رونے لگتے۔ وہاں کون پوچھتا ہے کہ کیوں رو رہے ہو۔
اگر آپ عمر رسیدہ ہیں اور صحت مند تو پاکستان میں تنہا رہ لیجئے، اولاد کی محبت میں اپنا وطن نہ چھوڑئیے۔ وہاں کوئی نہیں پوچھے گا کہ کیوں رو رہے ہو۔ وہاں کی مٹی میں بھی کوئی مہک نہیں ہے۔ یہاں کی مٹی ہی آپ کو قبول کرے گی اور آپ کے بزرگوں سے ہمیشہ کے لیے ملا دے گی۔ ماں باپ بھی تو یہیں اس مٹی میں آپ کے منتظر ہیں۔