قومی بچت کے بابوں کی تعظیم کیجیے
ویسے تو بڑھاپا ایسی بلائے ناگہانی ہے کہ اس کا شکار ہونے والے ہر شخص پر ترس آتا ہے لیکن دو مقامات ایسے ہیں جہاں بیٹھے ہوئے منتظر بوڑھے دیکھ کر قدرے دکھ ہوتا ہے۔ ایک تو کسی ہسپتال میں، کسی ڈاکٹر کے کمرے کے باہر اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے بوڑھے پر۔ اور ان بابا جی نے اکثرکانپتے دونوں ہاتھوں میں اپنے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹیں اور دیگر نسخہ جات پر مشتمل ایک فائل سینے سے لگا کر رکھی ہوتی ہے۔ بے شک ان کا بیٹا بہت منت کرے کہ اباجی اسے مجھے دے دیں لیکن وہ اسے اور مضبوطی سے پکڑ کر انکاری ہو جاتے ہیں کہ نہیں دوں گا۔ دوسری جگہ جہاں منتظر بوڑھے لوگوں کو دیکھ کر ان پر ترس آتا ہے وہ قومی بچت کے مرکز ہیں اور یہاں وہ میڈیکل فائل کی بجائے اپنی وہ پاس بک سینے سے لگائے ہوتے ہیں جس میں اس رقم کا اندراج ہوتا ہے جو انہوں نے بڑھاپے کے لئے ایک ایک پیسہ جمع کر کے بچائی ہوتی ہے۔ یہاں وہ اس رقم کا ماہانہ منافع حاصل کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ ہسپتال کے بابوں اور قومی بچت کے بابوں میں صرف ایک فرق ہوتا ہے کہ ان کی آنکھوں میں کسی حد تک ناامیدی ہوتی ہے کہ جانے میں اب کبھی تندرست ہوں گا یا نہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید ہوتی ہے کہ آج واپس جا کر پوتے پوتیوں کو آئس کریم کھلائیں گے۔ گھر کے جو بل میرے ذمے ہیں ان کو ادا کریں گے اور بہوکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ مشاہدے میرے اپنے ہیں کیونکہ میں خود بھی ذاتی طور پر ایک سند یافتہ بابا ہوں۔ یہ ہڈ بیتی ہے جو بیان کر رہا ہوں۔ آج سوچا تھا کہ کوئی نہائت سنجیدہ بصیرت افروز اور تاریخی حقائق کے تناظر میں ایک کالم تحریر کروں تاکہ میری بھی دھاک بیٹھ جائے کہ ایسے کالموں کے لئے کسی تجربے وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ کوئی آپ کے تاریخی حقائق اور تجزیوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔ چیلنج کر کے اس نے جانا کہاں ہے۔ لیکن عین وقت پر یہ منتظر بابوں کی تصویر سامنے آ گئی اور میں نے سوچا کہ ان کے دکھ کو بھی تو بیان کرنا چاہیے کہ یہ میرے دکھ بھی تو ہیں۔ مسلم امہ کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں پھر کبھی کر لیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میں بھی اپنے متعدد میڈیکل معائنوں وغیرہ کی فائل سینے کے ساتھ لگاکر کسی ڈاکٹر کے کمرے کے سامنے منتظر بیٹھا ہوں اور عجب لاچارگی کی حالت میں بیٹھا ہوں۔ اگر کسی نے پہچان لیا تو عجیب رونی سی شکل بنا کر پوچھے گا کہ تارڑ صاحب خیریت ہے۔ بھلا خیریت ہوتی تو میں ہسپتال میں بیٹھا ہوتا۔ بیوقوف۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہاں جی۔ بس یونہی چیک اپ کروانے کے لئے آ نکلا تھا اور وہ حضرت آپ کی جانب یوں دیکھتے ہیں جیسے دم رخصت ہے اور پھر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے آپ تو ہمارا سرمایہ ہیں اور پھر جاتے ہوئے مڑ کر دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ سرمایہ منجمد تو نہیں ہو گیا۔ قومی بچت کے مرکز میں جب آپ اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں اپنی پاس بک سینے کے ساتھ لگائے تو آس پاس اگر کوئی پہچان لے تو وہ آپ کی جانب نہائت خدا ترسی سے دیکھتا ہے کہ اچھا تارڑ صاحب بھی فُقرے ہیں۔
دراصل پچھلے ہفتے اوپر تلے چار قومی بچت کے مراکز تک جانے کا اتفاق ہوا۔ میری بیگم کی جمع پونجی فیروز پور روڈ پر واقع مرکز میں محفوظ تھی۔ وہاں پہنچے تو مرکز غائب۔ دروازے مقفل۔ ادھر ادھر سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ مرکز یہاں سے شفٹ ہو کر جانے کہاں چلا گیا ہے۔ اگلے روز صبح کی سیر کے چند بابا لوگ سے پوچھ گچھ کی۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر انیس کہنے لگے وہ تو ماڈل ٹائون کی فلاں مارکیٹ میں منتقل ہو گیا۔ اگلی سویر ہم دونوں کشاں کشاں وہاں پہنچ گئے اور اسے تلاش کرنے میں چنداں دشواری نہ ہوئی کہ اس کے مقفل دروازے کے باہر بابوں کے ڈھیر تھے۔ ادھر ادھرمرکز کے کھلنے کا انتظار کرتے ہوئے۔ ظاہر ہے بابیاں بھی تھیں۔ دروازے کے قریب ٹوکن رکھے تھے دو مختلف رنگوں کے۔ ایک صاحب کہنے لگے تارڑ صاحب ٹوکن لے لیجیے باری جلدی آ جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کون سے رنگ کا ٹوکن لوں۔ کہنے لگے۔ دونوں رنگوں کے لے لیجیے۔ کسی کی تو باری آئے گی۔ اور ہاں اس سے پیشتر کارپارکنگ کے لئے مبلغ تیس روپے بھی ادا کئے۔ بہرحال دروازے کھلے تو بابا لوگ نوجوانوں کی مانند قلانچیں بھرتے اندر داخل ہو گئے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ایک سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود نہائت خوش اسلوبی اور تنظیم سے سب کام ہو رہے تھے۔ اگرچہ سٹاف بہت ناکافی تھا اور بابا لوگ بہت کافی تھے۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ایک پرانے واقف کار اور مہربان ارشاد کریمی صاحب چلے آ رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان دنوں وہ اس مرکز میں منیجر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ کریمی صاحب شکل سے پرانی فلموں کے ہیرو لگتے ہیں اور بہت ہنس مکھ اور خوشگوار شخصیت کے مالک۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں بلکہ دفتر میں داخل ہونے والے ہر شخص کو عمدہ دودھ کی چائے پلائی اور تمام مسائل حل کر دیے۔ کریمی صاحب نہ صرف ادب سے شغف رکھتے ہیں بلکہ سیرت النبی ؐ بھی ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس سے اگلے روز میں ڈیفنس کے ایچ بلاک میں واقع اس مرکز کی جانب گیا جہاں میری جمع پونجی محفوظ تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گیارہ بجنے کے باوجودوہ بند ہے۔ میرا تو دل دھک سے رہ گیا کہ کیا پتہ نیا پاکستان تعمیر کرنے کے لئے میری مختصر رقم بحق سرکار ضبط کر لی گئی ہو۔ البتہ یہاں ایک نوٹس آویزاں تھا کہ یہ مرکز اب ڈیفنس کے زیڈ بلاک میں شفٹ ہو گیا ہے اور ہاں یہاں میں آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ میں نے کریمی صاحب سے شکائت کی کہ حضور مرکز شفٹ کرتے ہوئے اپنے اکائونٹ ہولڈرز کو اگر بذریعہ ڈاک اطلاع کر دیں تو بہت سے بابوں کا بھلا ہو گا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تارڑ صاحب، ہم ایسا نہیں کرتے اوراس میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل بہت سے عمر رسیدہ افراد نے اپنی اولاد اور عزیزوں سے چوری چھپے ہمارے بہبود اکائونٹ میں رقم جمع کروائی ہوتی ہے۔ اگر ہم بذریعہ ڈاک ان کو مرکز کی تبدیلی سے آگاہ کریں تو ان کا بھید کھل جائے گا۔ اولاد کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ والدین سے ناراض ہو جائیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ جمع شدہ پونجی ان کے حوالے کریں۔ ایسا ہو چکا ہے اس لئے ہم گھر اطلاع جان بوجھ کر نہیں کرتے۔
بہرحال اب ہم چوتھے مرکز جا پہنچے۔ یہ ابھی زیادہ پرہجوم نہ تھا۔ یہاں کے انچارج سعد احمد مونگا بھی بہت ہی مددگار ثابت ہوئے۔ روپے پیسے کا لین دین ایک حساس مسئلہ ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی پر سٹاف کا پورا کیریئر دائو پر لگ سکتا ہے۔ اس کے باوجود مرکز کا عملہ بہت خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ہاں یہ یاد رکھئے کہ یہاں آنے والے بیشتر حضرات عمر رسیدہ ہوتے ہیں۔ زود رنج ہوتے ہیں۔ کچھ بہکے بہکے بھی ہوتے ہیں تو اس نوعیت کے لوگوں کے ساتھ سارا دن ڈیل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک صاحب آئے شائد بیوروکریٹ ہوا کرتے تھے۔ کہنے لگے کائونٹر پربیٹھی فلاں لڑکی نے کھردرے انداز میں بات کی ہے۔ پہلے سوچا اس کا تبادلہ بلوچستان کروا دوں پھر خیال آیا کہ تنہا لڑکی بلوچستان میں کیا کرے گی اس لئے میں نے سوچا جانے دو۔ ایک شکل سے بہت متمول دکھائی دیتی بوڑھی خاتون بار بار حساب کر رہی تھی کہ میرے اکائونٹ میں دس لاکھ کم کیسے ہو گئے۔ مونگا صاحب نے بتایا کہ آپ یہ رقم نکلوا چکی ہیں۔ جانے لگیں تو مڑ کر کہنے لگیں۔ پر وہ دس لاکھ گئے کہاں۔
میں پہلی بار بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفہ بپسی سدھوا کو گلبرگ کے قومی بچت کے مرکز میں ملا تھا۔ ماڈل ٹائون میں طارق عزیز آتے جاتے رہتے ہیں۔ ڈیفنس میں مشہور فکشن رائٹر اکرام اللہ سے ملاقات ہو گئی۔ ویسے آپ سے ایک راز کی بات کہوں۔ قومی بچت کے ان مراکز میں آنے والے سب تو نہیں بیشتر افراد وہ ہوتے ہیں جنہوں نے ساری عمر رزق حلال کی جدوجہد کی۔ کرپشن میں اجتناب کیا۔ اگر وہ ایسے نہ ہوتے تو لندن میں اپنے ذاتی فلیٹوں میں براجمان مے نوشی کر رہے ہوتے۔ تھوڑے سے منافع کے حصول کے لئے ان مرکزوں میں دھکے نہ کھا رہے ہوتے۔ ان بابوں کی تعظیم کیجئے۔ ان کا خیال رکھیے! یہ آخری لوگ ہیں!