’’مچھلیاں ٹکیلا اور ویوا پاکستان‘
احمد فراز کے محبوب کو تو دن میں تتلیاں ستاتی تھیں اور مجھے آبنائے میکسیکو کے سمندر میں مچھلیاں ستاتی تھیں۔ وہ رنگین اور خوش نظر نہ تھیں۔ سرمئی رنگ کی تھیں اور میرے زیر آب بدن کے گرد تیرتی تھیں۔ کبھی ٹانگوں کے درمیان میں سے گزرجاتی تھیں اور کبھی اپنے پوپلے منہ سے میرے جسم کو چیک کرتی تھیں کہ کیا یہ بوڑھا ماس کھایا جا سکتا ہے یا کھا لیا تو کہیں ہمیں فوڈ پوائزنگ تو نہیں ہو جائے گی۔ ابھی سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا جب میں سوئمنگ کاسٹیوم زیب تن کر کے ساحل پر جا پہنچا۔ دورو دور تک ریت کا پھیلائو۔ دھوپ سے بچائو کے لئے چھپر اور صرف لہروں کی چھپاک چھپاک کی سرگوشیاں۔ ساحل ویران پڑا تھا اور سمندر میرا منتظر تھا۔ بہت آسودگی دینے والے نمکین پانی میری کمر تک چلے آتے۔ میں اس سے آگے جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ مجھے بھی اتنی سی سوئمنگ آتی تھی کہ اگر کوئی گہرے پانیوں میں دھکیل دے تومیں ہاتھ پائوں مار کر بمشکل ڈوبنے سے بچ سکتا تھا۔ پانیوں سے رغبت بہت تھی۔ شائد چناب کے پانیوں کا اثر تھا۔ سمندر، دریا اور جھیلیں تو اپنی جگہ میں تو بچپن میں کم از کم ایک بار نانی جان سے چوری چھپے گکھڑ منڈی کے ایک جوہڑ میں بھی نہایا تھا۔ یوں کہ ڈبکی لگا کر سر باہر نکالا تو اس پر مینڈک کا ایک بچہ براجمان تھا۔ بہرطور یہ طے ہے کہ کھیلوں میں ہم بہت پھسڈی ہوا کرتے تھے اور ان میں سوئمنگ بھی شامل ہے۔ صبح سویرے ادھر ویرانی تھی لیکن دن کے وقت اس پرائیویٹ ساحل پر بڑی رونقیں ہوتی تھیں لیکن میمونہ ساتھ ہوتی تھی اور وہ مجھے "رونقوں" کی جانب دیکھنے نہ دیتی تھیں کہ خبردار۔ سب لفنگیاں ہیں۔ کچھ پہنتی کیوں نہیں۔ سمندر کی سطح پر مختلف کشتیاں اور موٹر بوٹس تیرتی پھرتی تھیں اور ان میں وہ سپیڈ بوٹس بھی تھیںجن کی مدد سے پیرا گلائڈنگ کی جاتی تھی۔ سپیڈ بوٹ کے رسے سے منسلک بہت بڑا بیلون آہستہ آہستہ فضا میں بلند ہوتا تھا اور اس کے ساتھ بندے پیرا گلائڈنگ کے شوقین جوڑے آسمان کی قربت میں چلے جاتے تھے۔ میں نے طے کر رکھا تھا کہ میں جان پہ کھیل جائوں گا لیکن آبنائے میکسیکو کے سمندروں پر بلند ہو کر ان کے نظارے ضرور کروں گا، لیکن عین وقت پر عینی نے اعتراض کر دیا کہ ابو جب آپ بیلون کے ساتھ اوپر اٹھیں گے توہوا کا زور بہت ہو گا اور ممکن ہے آپ اتنی بلندی برداشت نہ کر سکیں۔ اس عمر میں کوئی بھی ہیجان خیز تجربہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اس لئے آپ پیرائے گلائیڈنگ بھول جائیے۔ چنانچہ ہم بھول گئے ویسے کچھ قلق ہوا کہ دیگر ہیجان خیز تجربے تو بڑھاپے کی آمد پر خواب ہوئے اور اب اس تجربے پر بھی پابندی لگ گئی۔ ویسے عینی درست کہتی تھی اب تو سمندر میں کھڑا رہنے کے لئے بھی کوشش کر کے اپنا توازن قائم رکھنا پڑتا تھا کہ پانی کا بہائو آپ کے قدم اکھاڑتا تھا۔ سورج کا ایک کنارہ ایک نیم سرخ خنجر کی مانند سمندر یں سے ابھر رہا تھا۔ میں اپنا رخسار پانی کی سطح کے برابر رکھتا تو سمندر پر پھیلتی سرخی مجھ تک بہتی ہوئی چلی آتی۔ میرے پاس بلال کے گوگلز تھے جو میں نے اپنی آنکھوں پر "کھوپوں" کی طرح چڑھائے اور سانس روک کر زیر آب چلا گیا۔ یکدم ایک گہری آبی خاموشی اتری۔ باہر کی تمام آوازیں منقطع ہو گئیں اور میں تنہائی کی ایک عجیب الوہی کیفیت سے دوچار ہوا۔ جو لوگ سکوبا ڈائیونگ سے شغف رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ سمندر کی تہہ میں اتر کر کیسے انسان اس دنیا سے کٹ کر ایک اور خاموش جہان میں چلا جاتا ہے۔ مچھلیاں، چٹانیں، آبی پودے اور چٹانیں اور کبھی کوئی عجیب رنگوں کا آبی پھول۔ میرا خیال ہے کہ صوفیا کرام پر بھی اس نوعیت کی کیفیت طاری ہوتی ہو گی۔ اس دنیا کے شور سے منقطع ہو کر ایک ایسے جہان میں اتر جانا جہاں آپ تنہا ہیں اور خاموشی ہے اور اس خاموشی میں ایک موجودگی ہے جو ہم کلام ہوتی ہے۔ میرے مسلم ماڈل سکول کے کلاس فیلو اور دوست، ڈاکٹر خالد محمود بٹ۔ دنیا کے بڑے کڈنی سرجنوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ سکوبا ڈائیونگ کا شوقین۔ دو برس پیشتر مکمل سازو سامان کے ساتھ نقاب پہنے کسی جزیرے کے پانیوں میں اترا۔ تہہ میں پہنچ کر یکدم اس کا دل تھم گیا اور وہ مر گیا۔ پتہ نہیں اس نے وہاں کیا دیکھا کہ وہ تاب نہ لاسکا اور مر گیا۔ یہ جو الوہی کیفیتیں ہوتی ہیں ان میں اترنے میں جان جانے کا خدشہ تو ہوتا ہے۔ برداشت ساتھ نہ دے تو وصال ہو بھی سکتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب میں پانیوں سے ابھر کر سطح پر آیا تو سرمئی رنگ کی مچھلیاں مجھے ستانے لگیں۔ وہ تعداد میں زیادہ ہو چکی تھیںاور میں ذرا آگے بڑھتا تو وہ میرا پیچھا کرتیں۔ شائد یہ میرا وہم تھا کہ مجھے کبھی کبھار محسوس ہوتا جیسے مچھلیاں میرے بدن میں کاٹنے کی کوشش کر رہی ہیں اور واقعی میرا تعاقب کر رہی تھیں اور تب اس لمحے مجھے "فش مساج" والی مچھلیوں کا خیال آیا۔ کمبوڈیا کے علاوہ میکسیکو میں بھی میں نے دیکھا تھا کہ آپ کے دونوں پائوں پانی سے بھرے ہوئے ایک تسلے میں ڈبو دیے جاتے ہیں اور پھر درجنوں کی تعداد میں نہائت چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پانی میں چھوڑ دی جاتی ہیں جو صر ف مردہ ہو چکے ماس کو نہائت رغبت سے کھاتی ہیں۔ یوں آپ کے پائوں اور خاص طور پر ایڑھی وغیرہ کا جو مردہ ماس ہوتا ہے اس کا صفایا ہو جاتا ہے اور پائوں نویں نکور ہو جاتے ہیں۔ میں نے یہ "فش مساج" لینے سے اجتناب کیا کہ مجھے گدگدی ہو گی اوریوں بھی آوارہ مچھلیوں کا کیا اعتبار کہ کب مردہ ماس سے اکتا کر زندہ ماس کھانا شروع کر دیں۔ چنانچہ آبنائے میکسیکو کی یہ مچھلیاں جو اک ہجوم کی صورت میرے بدن کے گرد منڈلا رہی تھیں اور مجھے ان کے ارادے نیک نہ لگے۔ عین ممکن تھا کہ یہ بھی گوشت خور مچھلیوں کی نسل میں سے ہوں ورنہ یہ صرف میرے پیچھے پیچھے کیوں چلی آتی تھیں یعنی "جہاں میں جاتی ہوں وہیں چلے آتے ہو "وغیرہ تو میں نے سمندر میں غسل موقوف کیا اور شتابی سے باہر ساحل پر آ گیا۔ سورج بلند ہوا تو سمندر کی سطح پر گویا پارے کی ایک تہہ بچھ گئی۔ دمکنے لگا۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے لگا۔
ہم اس سویر پہلی بار"فائنٹ پلایا مجیرس" ریسورٹ کی قید میں سے باہر نکلے اور اصلی میکسیکو کی فضا میں سانس لیا اور اس کی نیم ویران لینڈ سکیپ سے آشنا ہوئے۔ یہ ایک طے شدہ سفر تھا جو تقریباً سولہ گھنٹے پر محیط تھا اور آج ہم نے قدیم مایا تہذیب کی کچھ حیرتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا۔ ان میں سرفہرست "چچن اتزا" کا عظیم اہرام تھا جسے حال ہی میں آج کی دنیا کے سات عجائبات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاو مایا عہد کے زیر زمین عظیم تالاب"اِک کِل" کی گہرائی میں اترنا تھا(جاری ہے)