’’کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی
اس کے وجود سے لا علم رہتے ہیں اور اس ٹیلی ویژن سکرین کو گھورتے رہتے ہیں جس میں بارش ہو رہی ہے اور کرکٹ کا کھیل رک چکا ہے۔ یہ تقریباً باسٹھ برس پیشتر کی بھولی ہوئی داستان ہے جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کی جانب سے رتی گلی کی چوٹی سر کرنے کے لیے جو ٹیم منتخب ہوئی اس کا سب سے کم عمر ممبر تھا۔ یہ دراصل پاکستان بھر میں کوہ پیمائی کے لیے ترتیب دی جانے والی پہلی مہم تھی۔ واپسی پر ہم سب کو کالج کے پرنسپل نے "مائونٹینئرنگ کلر" عطا کرنے کا اعلان کیا۔ اشرف امان جو کے ٹو سر کرنے والے پہلے پاکستانی تھے اس حوالے سے کہا کرتے تھے کہ آپ تو ہم سے سینئر کوہ پیما ہیں۔ کیا میڈیا میں آج تک اشرف امان کا تذکرہ ہوا؟ اس طور میرے ایک اور دیرینہ دوست نذیر صابر نے نہ صرف کے ٹو پر قدم رکھا بلکہ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے ایورسٹ کی چوٹی سر کی۔ ازاں بعد بھٹی صاحب اور شمشال کی ثمینہ بیگ نے بھی یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ ثمینہ کو خاصی شہرت صرف اس لیے حاصل ہو گئی کہ وہ ایک بینک کے اشتہار میں نمایاں ہو گئیں۔ صبح کی نشریات کے دوران میں نانگا پربت سر کرنے والے ایک فوجی افسر کا انٹرویو کررہا تھا جب انہوں نے سرسری طور پر اپنے پورٹر رجب شاہ کا ذکر کیا جو ان کے ہمراہ چوٹی تک پہنچ گیا تھا جو شمشال کا رہنے والا تھا۔ میں نے رجب شاہ کو خصوصی طور پر اسلام آباد آنے کی دعوت دی اور ٹیلی ویژن پر اس کا خصوصی انٹرویو کیا۔ رجب شاہ کوہ پیما حلقوں میں متعارف ہوا اور شہور ہوا۔ ازاں بعد وہ مجھے اپنی راہبری میں وادیٔ شمال لے گیا۔ اس وادی نے پاکستان کے چند بڑے کوہ نوردوں کو جنم دیا جن میں مہربان شاہ اور جوشی بھی شامل ہیں لیکن کوئی ان کے کارناموں سے آگاہ نہیں ہے۔ لٹل کریم نام کے ایک کوہ پیما ہیں جو واقعی "چھوٹے" ہیں۔ مجھے ملنے کے لیے سکردو کے ٹو موٹل میں تشریف لائے۔ پوری دنیا انہیں جانتی ہے کہ وہ کیسے ایک نیم مردہ فرانسیسی کوہ پیما کو کے ٹو سے کاندھوں پر ان کو نیچے لے آئے جب کہ ان کی ٹیم ممبر انہیں بے یارومددگار برفیلی بلندیوں پر چھوڑ آئے تھے۔ فرانسیسی ٹیلی ویژن نے اس بہادر اور باہمت شخص کے بارے میں ایک خصوصی ڈاکومنٹری بنائی جسے بین الاقوامی طور پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ ابھی پچھلے دنوں لٹل کریم کی ٹین ایجر نواسیوں نے نانا جان کے ہمراہ ایک بلند چوٹی سر کر لی۔ ہمارے عوام ان ہیروز کے کارناموں سے یکسر بے خبر ہیں۔ وہ اشرف امان، نذیر صابر، رجب خان، مہربان شاہ، بھٹی صاحب اور جوشی کو نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ عمران خان کے ذاتی دوست بے مثال کوہ پیما کرنل شیر خان کو بھی نہیں جانتے، جو خان صاحب کے ہمراہ صبح کی نشریات میں میرے مہمان ہوئے تھے۔ ان سب ہیروز کو کرکٹ کی ڈائن کھا گئی۔
کوہ پیمائی کے میدان میں ابھی پچھلے دنوں چند ایسی شاندار کامیابیاں حاصل کی گئیں جو بے مثال ہیں۔ ان کا تفصیلی تذکرہ کسی آئندہ کالم میں کروں گا۔ آپ کی اور میڈیا کی توقیر کے لیے مختصر طور پر بیان کرنا چاہوں گا۔ کشمور کوہ پیما علی سدپارہ جو پاکستان کی سب بلند ترین چوٹیاں ختم کر چکے ہیں۔ انہوں نے نیپال میں بھی دو معروف بلندیوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد احسن جنہوں نے شاید پاکستان کے شمال میں سب سے زیادہ کوہ نوردوں کی مہموں میں شرکت کی ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ جس میں شہزاد بٹ، عبدل جوشی کے علاوہ بیلجئم کے ڈاکٹر جوسن بھی شامل تھے۔ پورے تئیس روز کی برفانی مہم جوئی کے بعد 5449 میٹر بلند ٹل مین درہ عبور کر لیا ہے۔ اس خطرناک درّے کو 1937ء میں ٹل مین نے کراس کیا۔ ڈاکٹر محمد احسن اس درّے کے پار جانے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ فریال عثمان نامی ایک خاتون نے لیلیٰ پیک کے بیس کیمپ پر قدم رکھا ہے۔ وہ شاید پہلی دادی جان ہیں جنہوں نے اتنی بلند چوٹی کے قریب پہنچ جانے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور سب سے آخر میں ایک حیرت انگیز کارنامہ جو شاید ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ سترہ برس کی عمر کے نوجوان شہروز نے آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند مشہور چوٹی براڈ پیک فتح کر لی ہے۔ کیا وہ ایک قومی ہیرو اور سپرسٹار نہیں ہے؟ کیا اسے حکومت کی جانب سے شاباش نہیں ملنی چاہئے؟
نوجوان شہروز کو جیسا کہ کہا جاتا ہے بچپن سے ہی کوہ پیمائی کا شوق تھا۔ اس کے والد صاحب کا کہنا ہے کہ جب کبھی ہم چھٹیوں پر پہاڑوں کا رخ کرتے تھے شہروز ہم سب سے آگے نکل جاتا تھا اور کسی نہ کسی بلند ٹیلے پر چڑھ کر نعرے لگانے لگتا تھا۔ اس نے نہایت کم عمری میں موسیٰ کا مصلیٰ نام کی چوٹی سر کر لی۔ کوہ پیمائی ایک بہت مہنگا شوق ہے۔ خصوصی سازو سامان درکار ہوتا ہے۔ صرف بلندیوں کے لئے موزوں خیمے سلیپنگ بیگ، بوٹ، جیکٹیں چٹانوں پر چڑھنے کے لئے مضبوط رسے اور اس نوعیت کا بے شمار سامان۔ علاوہ ازیں آپ کو خوراک اور دیگر سامان ڈھونے کے لئے پورٹر درکار ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے تجربہ کار پورٹر جو چوٹی تک آپ کا ساتھ دے سکیں۔ بیس کیمپ سے شروع ہو کر چوٹی تک جاتے راستوں اور برفانی تودوں تک خوراک اور سامان لے جا کر وہاں خیمے نصب کر سکیں۔ انہیں ہائی الٹی چیوڈ پورٹر کہا جاتا ہے اور قابل فہم طور پروہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ شہروزکے والد کا بیان ہے کہ براڈ پیک کی مہم کے لئے انہوں نے محدود وسائل کے باوجود پندرہ لاکھ روپے خرچ کئے۔ شہروز کی براڈ پیک مہم کے حوالے سے براڈ بوائے نام کی ایک نہائت موثر ڈاکومنٹری تیار کی گئی ہے۔ جس کی افتتاحی تقریب کے لئے ملک بھر کے کوہ پیما اور کوہ نورد اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر احسن اور کامران سلیم کی شرکت بھی متوقع ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اگر کہیں ایک بلندی بہت معمولی سی بھی ہو تو اس کے دامن میں کوہ پیمائی کے سامان کے لئے سٹور موجود ہوں گے جب کہ پاکستان کے شمال میں کہیں بھی یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ البتہ سکردو کے ایک بازار میں غیر ملکی کوہ پیمائوں کا استعمال شدہ سامان وغیرہ دستیاب ہے۔ میں نے اپنی "سنو لیک" مہم کے لئے یہیں سے شائد کسی مردہ کوہ پیما کے بوٹ خریدے تھے اس طور جب کوئی غیر ملکی ٹیم کوہ پیمائی کے بعد وطن لوٹتی ہے تو اکثر اپناسامان اور جیکٹیں وغیرہ اپنے پورٹروں کو انعام کے طور پر دے جاتی ہے۔ اگر ہم نے کوہ نوروی اورکوہ پیمائی کی ترویج کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے تو ہم نیپال کو رول ماڈل بنا کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جس کے پاس ایورسٹ اور ایک دو اور بلند چوٹیوں کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کے قومی بجٹ کا بیشتر حصہ صرف ان چوٹیوں تک جانے والے اور ان پر چڑھنے والے کوہ پیمائوں اور سیاحوں کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے اور ہمارے پاس تو شاہ گوری یعنی کے ٹو جیسی دنیا کی سب سے خوبصورت اور عالی شان چوٹی کے علاوہ درجنوں برفیلی بلندیاں کوہ پیمائوں کی منتظر ہیں۔ کیا ہم ایک "کوہ پیما کونسل" تشکیل نہیں دے سکتے جس میں نذیر صابر، اشرف امان اور صد پارہ ایسے تجربہ کار لوگ شامل ہوں اور وہ کوہ نوروی اور کوہ پیمائی کی ترویج کے لئے حکومت کو مشورے دیں بلکہ ایک "مانیٹرنگ پالیسی" بھی تخلیق کریں کیونکہ یہ کام اسلام آبادمیں استراحت فرماتے بیورو کریٹس کے بس کا نہیں، انہیں تو شملہ پہاڑی کی بلندی نہیں معلوم۔ وہ کیا جانے کے ٹو کس برفانی چڑیا کا نام ہے۔