Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Mustansar Hussain Tarar
  3. Bachay Jitney Kachay Itne Hi Meethay

Bachay Jitney Kachay Itne Hi Meethay

’’بچے جتنے کچّے اتنے ہی میٹھے‘‘

کیا نوجوان طالب علموں اور بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟ کیا انہیں کسی بھی سیاسی تحریک میں جھونک دینا مناسب ہے؟

لکشمی مینشن نام کی ایک کولونئیل عمارت جو رہائشی فلیٹوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور پھر تاجر مافیا کے ہاتھوں یوں برباد ہوئی کہ سعادت حسن منٹو کے نام کی تختی ان کے گھر سے اکھاڑ کر کوڑے میں پھینک دی گئی۔ میں نے اپنے بچپن اور جوانی کا ایک بڑا حصہ اس کے فلیٹ نمبر 17میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ بسر کیا۔ ہمارے فلیٹ کی چار کھڑکیاں ہال روڈ مال روڈ چوک یعنی ریگل کی جانب کھلتی تھیں۔ ان کھڑکیوں میں سے جھانکتے ہوئے ہم نے بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے بہت سارے مناظر بہ چشمِ خود دیکھے۔ یہ تحریک بعد میں تحریک نظام مصطفیٰ میں بدلی کہ مذہب کا کارڈ سیاست میں یقینی جیت کا تُرپ پتہ ہوتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق وارد ہو گئے اور موجود رہے جب تک کہ آسمان سے آسمانوں تک اٹھا نہ لیے گئے۔ شہر میں کرفیو نافذ تھا۔ سڑکیں ویران پڑی تھیں اور قانون نافذ کرنے والے بے چارے یکدم نمودار ہونے والے مظاہرین کی گوشمالی کرنے کے لیے ان پر پل پڑتے۔۔ لاٹھی چارج ہوتا، گرفتاریاں عمل میں لائی جاتیں۔ سارا دن آنسو گیس کے گولے پھٹتے اور سانس لینا مشکل ہو جاتا۔ ایک روز دو تین ٹیئرگیس شیل ہمارے صحن میں آ گرے اور دھواں دینے لگے۔ عینی میری اکلوتی بیٹی ابھی پالنے میں تھی، چند ماہ کی تھی، گیس سے آلودہ ہوا میں اس نے چند سانس لیے اور اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ اس کے کچے پھیپھڑوں کو گیس نے ادھیڑ کے رکھ دیا۔ اسے اٹھا کر ہم بھاگ نکلے۔ وہ مرتے مرتے بچی۔ میں نے اس حوالے سے "گیس چیمبر" نام کا ایک افسانہ لکھا۔ زیادہ تر جلوس ہال روڈ کی جانب سے آتے کہ ریگل چوک اس ہنگامے کا مرکز تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ میکلوڈ روڈ کے چوک کی جانب سے ایک ویگن ہال روڈ پر چلی آ رہی ہے اور یاد رہے کہ کرفیو نافذ تھا اور وہ اس ویرانے میں چلی آ رہی تھی، میری کھڑکی کے عین نیچے ویگن رکی۔ اس کے پچھلے حصے میں سے ایک مولانا برآمد ہوئے اور پھر بہت کم عمر بچے اترتے گئے۔ مولانا ہر ایک کے ہاتھ میں ایک سبز پرچم تھماتے جاتے، پھر انہیں بلند آواز میں کہا، چلو قربان ہو جائو، یہ کہہ کر مولانا ویگن میں سوار ہوئے، ویگن تیزی سے واپس چلی گئی۔ بچے ہال روڈ کے ویرانے میں تنہا رہ گئے۔ وہ بہت ڈرے ہوئے تھے، پھر وہ نعرے لگاتے، سبز جھنڈیاں لہراتے ریگل چوک کی جانب بڑھنے لگے۔ کبھی وہ خوفزدہ ہو کر رک جاتے تو ان میں سے ایک جو قدرے بالغ تھا ان کی ہمت بندھاتا اور وہ پھر سے ریگل کی طرف چلنے لگتے اور وہاں چوک میں پولیس اور دیگر حفاظتی اداروں کے مسلح افراد کھڑے تھے۔ میری والدہ ان بچوں کی خیریت کے لیے دعائیں مانگنے لگیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر یکدم گولیوں کی آواز آئی، ان میں سے دو بچے سڑک پر گر گئے اور باقی گرتے پڑتے بھاگ نکلے اور لکشمی مینشن میں پناہ لی جہاں کے مکین ان کی فوری مدد کے لیے پہنچے۔ ایمبولینس آئی اور ان دو سڑک پر اوندھے پڑے بچوں کو اٹھا لے گئی۔ ان کی جھنڈیاں ہال روڈ پر بکھری پڑی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ جانبر نہ ہو سکے ہوں گے۔ وہ سیاست کا چارہ تھے سو کاٹ دیئے گئے۔ کیا کسی لیڈر نے آج تک اس تحریک میں مارے جانے والے نوجوانوں کو یاد کیا ہے؟ سلمان رشدی لعین کی دل آزار کتاب "سٹینک ورسز" کے خلاف اسلام آباد میں ایک مظاہرہ ہوا جس کی قیادت مولانا کوثر نیازی کر رہے تھے اس میں بھی بچوں کو آگے لایا گیا۔ حسب معمول گولی چلی، ہنگامے ہوئے اور شاید چار نوجوان مارے گئے۔ کوثر نیازی آرام سے اپنی کروزر پر سوار ہو کر گھر چلے گئے۔

ڈنمارک میں شائع ہونے والے دل کو دکھانے والے کارٹونوں کے خلاف لاہور میں مظاہرے ہوئے جن میں ایک مقامی مدرسے کے طالب علموں کو آگے کیا گیا۔ لاہور کی چند اہم تاریخی عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ سینکڑوں سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور کاریں ہجوم کے غضب کا شکار ہوئیں، لوگ زخمی ہوئے شاید ایک آدھ ہلاکت بھی ہوئی اور لیڈران کرام اپنے حجروں اور گھروں میں خیریت سے رہے۔

آپ کو سوات کے وہ مولانا یاد ہوں گے جنہوں نے سینکڑوں نوجوانوں کو جہاد پر آمادہ کیا۔ ان کے پاس چند ہتھیار تھے، بیشتر ڈنڈوں سے لیس تھے اور مولانا کا کہنا تھا کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ان میں سے درجنوں نوجوان مارے گئے۔ البتہ مولانا اپنے بیٹوں کو بچا کر لے آئے۔ واپسی پر ظاہر ہے جن کے بچے جان سے گئے تھے ان کے عزیزوں نے طے کر لیا کہ وہ مولانا کو نہیں چھوڑیں گے۔ بدلہ لے کر رہیں گے۔ تب مولانا نے حکومت سے درخواست کر کے اپنی جان بچانے کی خاطر جیل میں پناہ لی۔ ایک مدت تک وہیں مقیم رہے۔ درجنوں۔۔۔۔ نوجوان رزق خاک ہوئے بلا وجہ۔ کیا کسی نے ان کی خاک سے پوچھا کہ تجھ میں جو گہر دفن ہیں ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے۔ آپ یقینا آگاہ ہوں گے کہ خود کش حملے کرنے والے، اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دینے والے بیشتر بہت نو عمر نوجوان ہوتے ہیں۔ ان کے کچے ذہنوں کو آسانی سے بھٹکایا جا سکتا ہے۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی ابھی مسیں بھیگ رہی ہوتی ہیں، بچے ہوتے ہیں۔ ان کو بھی دہشت کی جنگ میں چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایک شدید زخمی نوجوان جس نے اپنے آپ کو اڑا دینے کی کوشش کی تھی جو ہوش میں آیا تو اردگرد چند نرسوں کو دیکھ کر کہنے لگا۔ استاد نے سچ کہا تھا، مرنے کے بعد حوریں ملیں گی۔ اس بیانیے میں قدرے مبالغہ ممکن ہے لیکن بنیادی طور پر یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ میں گواہ ہوں کہ ماڈل ٹائون پارک میں جھیل کے پاس ایک نوجوان اردگرد مؤدب ہو کر بیٹھے بچوں کو جہاد کے ثمرات کے حوالے سے حوروں کے بارے میں نہایت "مدلّل" اور ہوش ربا تفصیلات بیان کر رہے تھے اور میں دیکھ سکتا تھا کہ بچے بے چین ہو رہے ہیں۔ ان بچوں کی عمریں دس بارہ برس کے درمیان میں تھیں۔ مجھے دیکھ کر وہ نوجوان مدرس کہنے لگا "تارڑ صاحب آئیے آپ بھی ان بچوں کی رہنمائی کیجئے" میں نے ہنس کر کہا "نہیں آپ رہنمائی کا حق ادا کر رہے ہیں " میں کچھ مبالغہ نہیں کر رہا بلکہ بہت احتیاط کرتے ہوئے یہ مشاہدہ بیان کر رہا ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصور اور چونیاں میں جو ہولناک جرائم ہوئے ہیں، جس طور بچوں کو درندگی سے ادھیڑ کر انہیں ہلاک کر کے کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکا گیا ہے یہ ایسے سانحات نہیں جن پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو احتجاجی دھرنے دینے چاہئیں۔ در اصل مجھے شدید خدشات ہیں کہ ہماری تاریخ میں ایک مرتبہ پھر سیاسی مقاصد کے لیے بچوں کو استعمال کیا جائے گا۔ میں نے ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں بچے وردیاں پہنے اپنے "قائد" کے کہنے پر سیاسی نعرے لگا رہے ہیں۔ مجھے کچھ غرض نہیں کہ مولانا فضل الرحمن اپنے ساتھیوں سمیت عمران خان کا تختہ الٹتے ہیں یا نہیں، بے شک الٹ دیں۔ اپنی سلطنتیں واپس لے لیں۔ قوم کو آزاد کروا لیں۔ عمران خان کی سلیکٹڈ حکومت اور جعلی حکمرانی کا تیا پانچہ کر دیں لیکن. اس مقصد کے لیے بچوں کو استعمال نہ کریں۔ نہ مولانا کریں اور نہ ہی خان صاحب کریں۔ اپنی اپنی جنگیں لڑیں ان میں بچوں کو شامل نہ کریں۔ موہن سنگھ نے "ساوے پتر" میں ایک بچے کے بارے میں کیا ہی خوبصورت بات کہی ہے۔ بچے جیا نہ کوئی میوہ ڈِٹھا، جڈّا کچّا اوہنا مِٹھّا.بچے ایسا کوئی پھل نہ دیکھا، جتنا کچّا اتنا ہی میٹھا.

اس پھل کو کچا ہی رہنے دیں۔ میٹھا ہی رہنے دیں، اس میں اپنے سیاسی مقاصد کا زہر نہ بھریں۔ اللہ انکے بغیر بھی کامیاب کرے گا، میں دعا کروں گا۔

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed