ظلم رہے اور امن بھی ہو
افغانستان میں جونہی بیس سالہ جنگ ختم ہوئی تو امن آگیا، شہروں میں روز مرہ کے جرائم کی تعداد غائب ہونے کی حد تک ختم ہوگئی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ظلم اور امن تو ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لیکن جرائم اور امن نہ صرف ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ جرائم تو بعض اوقات پنپتے ہی امن کے زمانے میں ہیں۔ اس لئے کہ ظلم جنگ کے زمانے میں پروان چڑھتا ہے جبکہ امن کے زمانے میں ظلم بے شک دُور ہوجاتا ہے لیکن جرائم بڑھتے رہتے ہیں۔ غلط فہمی تب پیدا ہوتی ہے جب لوگ جرم کو بھی ظلم سمجھنے لگ جاتے ہیں جبکہ دونوں کی سرشت ہی مختلف ہے ظلم آدمی دوسرو ں پر کرتاہے جبکہ جرم کا مرتکب آدمی خود ہوتاہے اس میں شک نہیں کی جنگی جرائم بھی ظلم ہی کے دائرے میں آتے ہیں۔ تبھی فرمایا گیا ہے کہ "کفر کا نظام تو چل سکتاہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا" یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اللہ کی ہر نافرمانی چاہے چھوٹی ہویا بڑی، ظلم میں شمار ہوتی ہے۔
ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیبت ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے جسے مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ آج کل ہم بکرے کا گوشت کم اور کسی نہ کسی مسلمان بھائی کا گوشت زیادہ کھاتے ہیں۔ ایک تو مفت ملتاہے اور دوسرا سبھی کھاتے ہیں اسلئے تردد کیوں ہو؟ غیبت کا معنی یہ ہے کہ کسی کی غیرموجودگی میں اسکی برا ئی کرنا لیکنظلم پر گلہ اوراحتجاج ظالم کی غیر موجودگی میں بھی بیان کرنا غیبت کے دائرے میں نہیں آتا۔ ہر ملک اپنے مفادات کا ایک طرف تو تحفظ کرتا ہے اور دوسری طرف انھیں آگے بڑھاتاہے۔ فرانس کے صدر ڈیگال نے ایک مرتبہ کہا تھا " کسی غیر تمندقوم کا کوئی دوست نہیں ہوتا" یہ کسی ملک کی طاقت استطاعت، قوت اور اس کے لیڈروں کی جرأت پر منحصر ہوتاہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کا کس دلیری کے ساتھ تحفظ کرتے ہیں۔ چوہتر برس بعدآ خر کار قدرت نے پاکستان کو اتنی جرأت عطا کردی ہے کہ پاکستا ن نے مسلسل ا تار چڑھائوکی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑی تفصیل کے ساتھ تہہ بہ تہہ چھپے ہوئے انسانی حقوق کے خلاف جاری رکھے گئے بدترین بھارتی اقدامات کو بے نقاب کرنے کی ابتدا کی ہے۔
پاکستان نے اس سلسلے میں ایک ڈوزیئر کی شکل میں جو ناقابل تردید دستاویزی ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں ان کا جھٹلانا بھارت اور اسکے حواریوں سمیت کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے مطابق اس کے اندر جنگی جرائم میں ملوث اُن 1128لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے کشمیر میں ظلم وبربریت کا بازار گرم رکھا۔ ایسے 946واقعات کی تفصیل جن کے تحت 1785کشمیریوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی گئی 474 ایسے واقعات کی تفصیل جن کے تحت 485کشمیر یوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ 14ایسے وقعات کی تفصیل جن کے تحت 63کشمیری خواتین پرجنسی زیادتیاں اور تشدکیا گیا۔ 110ایسے واقعات کی تفصیل جن کے تحت 177ایسے لوگو ں کی نشاندہی کرائی گئی جو مقبوضہ کشمیر میں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے. 1246 ایسے لوگوں کی نشاندہی جو گذشتہ پانچ سالوں میں پیلٹ گن کے ذریعے بینائی سے محروم ہوئے اور ہندوستانی فوج کے ان سارے یونٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے آڈیوکلپ ا س ڈوزئیر میں شامل کئے گئے ہیں جن میں ہندوستانی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں تعینات افسروں کی وہ گفتگو رریکارڈ کی گئی ہے جس میں وہ کھلم کھلا کشمیریوں کی نسل کشی کے منصوبے بتا رہے ہیں اور من گھڑٹ او رفیک کشمیری حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کی منصوبہ بندیاں بتائی جارہی ہیں کشمیری عورتوں اور نوجوان بچیوں کی عصمت داری اور ان پر جنسی زیادتیوں کے دل دہلا دینے والی ناقابل تردید تفصیلات درج کی گئی ہیں مقبوضہ کشمیر کے اکثریتی مسلم علاقوں کو باہر سے لائے گئے ہندواکثریت سے بدلنے کے لئے جوطرح طرح کے جتن کئے جارہے ہیں ان حقائق پر سے بڑی کامیابی اور پُر اثر انداز سے پردہ ہٹا یا گیا ہے۔
یہ کوشش پی ٹی آئی کی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی ہے، ریاست پاکستان کا مطلب پی ٹی آئی اور عمران خان نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان ہم سب پر مشتمل ہے پاکستان کی فوج، عدلیہ، پارلیمان، ساری نوکر شاہی، سارے ادارے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے عظیم اور غیر تمند لوگ شامل ہیں۔ وہ عظیم لو گ شامل ہیں جو چوہتر سالوں سے اس ملک کے اتار چڑھائو نہایت صبر واستقامت کے ساتھ بھگت رہے ہیں اس ملک کا کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے اس ملک کی حفاظت اور بقاکے لئے طرح طرح کی قربانیاں نہ دی ہوں جس ملک میں بسنے والے بوڑھے باپ جوان بیٹے کے پرچم میں لپٹے جنازے کو سیلوٹ کرتے ہوں، مائیں ملک کے لئے بیٹوں کی شہادت پر فخر کرتی ہوں اور عورتیں عین جوانی میں بیوہ ہونے کے باوجود پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ قومی پرچم کو بوسہ دیتے ہوئے یتیموں کو باپ کے نقش قدم پر چلانے کے لئے پر عزم رہتی ہوں، پاکستان کی ریاست ایست ہی عظیم لوگوں پرمشتمل ہے۔ پاکستان کا ادیب، شاعر، فنکار، لکھاری، مزدور، کسان اور طالب علم کون ہے جو اس ملک کا خیرخواہ نہیں؟
ہاں مگر جعفر اور صادق ہر قوم میں ہوتے ہیں جس تھالی میں کھاتے ہیں اس تھالی میں چھید کرتے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہرملک کی تاریخ اپنی صفوں میں غداروں اور فسادیوں سے بھری ہوئی ہے۔
ایسے بدترین لوگ گھروں کے اندر بھی ہوتے ہیں، گلی محلوں شہروں ملکوں اور قوموں میں ہرسطح اور ہر مقام پر ہوتے ہیں ہم نے اپنی صفوں میں ایسے لو گوں کو پہچاننا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ منافق بھی بظاہر اسی طرح نظر آتے ہیں جس طرح کے مخلص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان ہی ان کا قلع قمع کرنے کے لئے ضر وری ہوتی ہے، ان کے بارے میں اللہ کا ارشاد بھی یہی ہے کہ جب انھیں کہاجاتا ہے کہ ملک میں فسا د مت پھیلائو تووہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح چاہتے ہیں ہم فساد تو نہیں پھیلارہے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے قوم کی پشت پناہی کے ساتھ گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے اندر اور باہر دونوں قسم کے د شمنوں کے خلاف برسر پیکار رہ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دنیا کا اضطر اب اس با ت کا ثبوت ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اگر بکھری ہوئی حیثیت کے ساتھ یہ قوم اس طرح کھیل سکتی ہے تو اس کی جڑی ہوئی شکل اسے کہاں لے جائے گی؟ ہمیں ظلم اور امن کی باہمی دشمنی کو سمجھنا ہوگا۔