وسائل اور مسائل کے مخمصے
وسائل اورمسائل دونو ں زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ زندگی میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ زندگی کا اصول نہیں ہے، بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی وسائل سے بھرپور اور مسائل سے بے نیاز ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف انگنت لوگوں کی تعداد مسائل کا شکار رہتی ہے، بعض اوقات وسائل والے لوگ بھی اپنے وسائل کو مسائل بنالیتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اپنے مسائل کو ہی اپنے وسائل میں بدل دیتے ہیں، جانوروں کے بھی وسائل اورمسائل ہوتے ضرور ہیں لیکن انھیں ان کا شعور نہیں ہوتا، جنات کیونکہ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ گلی محلوں سے دور نسبتاً پسماندہ آبادیوں میں صرف لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے جعلی پیروں اور بابوں کو ہی جنات نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے موضوع سے ہٹ جائیں ہم وسائل اور مسائل کے ساتھ جڑے مخمصوں کی طرف ہی لوٹتے ہیں تاکہ بحث کا دائرہ ضرورت سے زیادہ پھیلنے نہ پائے بہتر ہے کہ پہلے وسائل اور مسائل کی تعریف کر لیجائے کیونکہ ونوں کا یہی مخمصہ ہے کہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحد ہ کرکے سمجھنے کی بجائے انھیں ایک دوسرے کا نعم البدل سمجھ لیتے ہیں جس کے باعث زندگی بھر مخمصوں کا شکار رہتے ہیں۔
وسائل میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس کی بنیاد پر یا جنھیں استعما ل کرکے کوئی شخص کوئی تنظیم ادارہ گروہ حکومت یا قوم اپنے مقاصد کے حصول کو ممکن بناسکتی ہے اس تعریف کے مطابق وسائل میں خود انسان کے شخصی اوصاف رشتے اور دوستیاں، تعلیمی قابلیت اور ہنرمندیاں، محولیات، جغرافیائی مدوجزر اور موسمی تغیرا ت تک شامل کئے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف مسائل کی تعریف میں ان مقاصد کے حصول کی راہ میں آنے والی ساری رکاوٹوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں مخمصے کی تعریف بھی ضروری ہے۔ مخمصہ اس کیفیت کو کہتے ہیں جب آدمی وسائل کو مسائل سے جدا کرکے دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہو، یہ صرف فرد تک ہی محدود نہیں ہوتا۔ مخمصے کا شکار ملک اور قومیں بھی ہوتی ہیں اور اسی اصول کے تابع رہ کر ہو تی ہیں۔ آج کل تو امریکہ جیسی سوپر پاور بھی اس مخمصے کا شکار ہے کہ افغانستان کے ساتھ کیسا برتائو رکھے کیونکہ امریکہ کے لئے بھی افغانستان کی موجودہ فتح یاب صورت حال نے ایسی شکل اختیار کر دی ہے کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے وسائل کے دائرے میں سمجھے یا مسائل کے؟ پڑوسی ملک ہندوستان اس سے بھی بڑے مخمصے کا شکار ہوچکاہے کیونکہ جن باتوں کو وہ اپنے لئے وسائل سمجھ بیٹھا تھا داراصل و ہ اس کے لئے گھمبیر مسائل بن گئے ہیں۔
بڑی بڑی جاگیروں، کارخانوں، بنگلوں، کاروں اور دیگر قسم کی قیمتی جائیدادوں کے وارثتی مالک جن کو باپ کی اچانک موت ایسے بے بہاوسائل کا مالک بنادیتی ہے کہ وہ اگر بہتر سوچ سمجھ کے مالک نہ ہوں تور طرح طر ح کے اللے تللوں میں سب کچھ لٹا کر کوڑیوں کے محتاج ہوجاتے ہیں یعنی بڑی آسانی کے ساتھ اپنے وسائل کو قلیل عرصہ میں اپنے مسائل میں تبدیل کردیتے ہیں کہیں اس کے الٹ بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف اگر کوئی بیٹا باپ کی مو ت پر اچانک کروڑ پتی بن جاتا ہے تو دوسری طر ف ایک غریب باپ کے اچانک مرجانے پر ایک کم عمر نوجوان بیٹا بیٹھے بیٹھے باپ بن جاتا ہے، چھوٹے کم سن اور نادار بہن بھائیوں کا ایسا باپ جس کے پاس محنت مشقت اور کڑی جدوجہد کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ ایسا نوجوان اگر اپنے عزم اور اپنی ہمت کے بل بوتے پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور کوئی قابل ستائش مقام اور مرتبہ حاصل کرلے تو کہاجائے گا کہ اس نے اپنے مسائل کو اپنے وسائل میں تبدیل کرلیا ہے۔ ا نسان کو زندگی کے ہر مقام مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے لئے اسے ہر لمحہ تیار بھی رہنا چاہئے، لیکن اسے ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہوئے زند گی میں قدم بقدم آگے بھی بڑھتے رہنا چاہئے اور مسائل پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے بالکل ویسے ہی کہ اگر اس کے گھر میں پانی بھر جائے تو وہ اسے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، زندگی کے تمام مسائل افرد و اقوام کے لئے یکساں ہوتے ہیں، فرق نتائج میں ہوتا ہے کہ کوئی ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کرتا اور کوئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فر دارہتا ہے۔ اسی پر دونوں کی کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار ہے۔
مطلب یہ کہ امریکہ جیسی سپر پاور نے گزشتہ بیس سالوں میں کھربوں ڈالر افغانستان کی جنگ میں جھونک دیئے اور سوائے رسوائی اورعبرتناک شکست کے اس کے کچھ ہاتھ نہ آیا، ناصرف خود ناکام ونامراد ہو ابلکہ اپنے ساتھ اٹھائیس مغربی ترقی یافتہ ممالک کوبھی شرمندگی سے دوچار کیا۔ ڈالروں کے وسائیل پوری دنیا کی غربت میں نمایاں کمی لاسکتے تھے لیکن جب وسائل کا استعمال منفی اور سلفی خواہشات کو بھینٹ چڑھ جائے تو وسائل برباد ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ننگے پیر، ننگے سر اور خالی پیٹ افغانیوں نے اپنی لازوال ہمت اور فولادی عزم کے ساتھ اپنے گوناگوں مسائیل کو معجزاتی طور پر اپنے وسائل میں اس طر ح تبدیل کیا کہ دوست تو دوست اب دشمن بھی عش عش کررہے ہیں۔ اسی عزم وہمت کے تحت پاکستان کی مسلح افواج نے گذشتہ بیس سالوں میں جس طرح چاروں طرح سے دہشت گردی کے نرغے میں رہتے ہوئے اپنے مسائل کو اپنے وسائل میں بدلا اُس پر پوری دنیا حیر ان وششدرہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا جب امریکہ کی طرف سے بھی پیش گوئی ہونے لگے تھیں۔ 2015تک پاکستان دنیا کے نقشے پر نہیں ہوگا۔ 70ہزار جانوں کی قربانی دے کر پاکستان نے اس دوران اٹھارہ ہزار دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ان دہشت گردوں کو جنھیں بھارت کی کھلم کھلا شہہ کے علاوہ درپردہ بین الالقوامی حمایت بھی حاصل تھی تبھی تو اس وقت کا واویلا اور شور شرابا فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر اس جنگ میں شامل سبھی طاقتوں کو کچھ اس انداز سے سمجھ آرہا ہے کہ لاکھ چاہنے کے باوجود اپنی خفت اور شرمندگی نہیں چھپا سکے۔
نیتجہ یہ نکلا کہ آدمی کو وسائل پر اترانا اور مسائل سے گبھرانا نہیں چاہے ورنہ دونوں وبال جان بن سکتے ہیں۔ کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اللہ کے خوف کو ذہن میں ر کھتے ہوئے وسائل کا استعمال اور اسکے کرم پر یقین کے ساتھ مسائل کا مقابلہ کیا جائے اور مسائل کو حل کرکے اپنے لئے وسائل پیدا کیے جائیں۔