طرح طرح کے سائے
سائے طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ سائے تو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ جو دعا دی جاتی ہے وہ دعا ہے "اللہ ماں باپ کا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پر سلامت رکھے" اس سے پنجابی کی یہ ضرب المثل بھی نکلی ہے "ماواں ٹھنڈ یا ں چھانواں، تپتی دُوپہر میں کسی گھنے درخت کی چھائوں جو سکون اور اطمینان فراہم کرتی ہے اسکا کوئی نعم البدل نہیں۔ کہتے ہیں سرکاردوعالمؐ پر ہر وقت بادل کاایک ٹکڑا سایہ کئے رکھتاتھا اور اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ سرکار ؐ کا اپنا سایہ نہیں ہوتا تھا۔ کیوں؟ ایک تو قدرت کو یہ گوارا نہ تھا کہ آپ ؐ کا سایہ بھی کبھی آپ سے آگے بڑھے اور دوسرا یہ کہ کوئی شقی القلب اور بدبخت آپ ؐ کے سائے کی بھی بے حرمتی نہ کرنے پائے۔ اس لئے تو کہاگیا ہے کہ
بہ مصطفیٰ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبیست
(رسول تک پہنچنے کی کوشش کرو کیونکہ سارا دین وہی ہیں اگر اُن تک نہ پہنچ سکے تو پھر سب بولہبی کے سوا کچھ نہیں)آگے بڑھنے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سایہ ہوتاکیا ہے؟ یعنی لفظ "سایہ "کا مطلب کیا ہے؟ یہ لفظ کہاں کہاں استعمال ہو سکتا ہے؟ سایہ ایک مذکرلفظ ہے اس کا مطلب پرچھائیں، پر تو، عکس، جن بھوت کا اثر، آسیب حفاظت، سرپرستی، حمایت اور محبت کا اثر۔ اس لفظ کو مختلف طریقوں یا موقعوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً سایہ اُتارنا، یعنی جن بھوت کے اثرات کو دُور کرنا آسیب دفع کرنا، سایہ افگن یعنی سایہ ڈالنے والا، حفاظت یا مدد کرنے والا، سایہ بال ہما یعنی ایک فرضی پرند ہماکاسایہ جس کے متعلق مشہور ہے کہ جس کے سر پربیٹھ جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔
سایہ پڑنا، پرچھائیں یا عکس پڑنا یا صحبت کا اثر ہونا۔ سایہ ڈھلنا یعنی سورج کا مغرب کی طرف جھک جانا، سایہ عا طفت یعنی مہربانی کا سایہ، حمایت مہربانی مد د یا حمایت کرنے والا سایہ ہوجانا یعنی صحبت کااثر ہوجانا، آسیب زدہ ہوجانا، سائے تلے آنا یعنی حفاظت میں آنا، پناہ میں آنا، سائے سے بھاگنا یعنی ڈرنا، بھڑکنا، نفرت کرنا بدکنا، دور دور رہنا سائے کی طرح یعنی ساتھ ساتھ پھرنا، ہروقت ساتھ لگے رہنا اور سائے میں آنا مطلب سائے میں آناچھائوں میں آناپناہ یا سرپرستی حاصل کرنا۔ اس مختصر سے کالم میں لفظ "سایہ" کا استعمال جہاں جہاں بھی ہوگا انہی معنوں میں لکھا جائے گا۔
کیا سایوں کی قسمیں ہوتی ہیں؟ وجودی سایوں کی قسمیں تو ہو نہیں سکتیں کیونکہ یہ طبعیاتی اصولوں کے خلاف ہوگا۔ ہر فرد کا سایہ ہوتاہے جو سورج کے آتار چڑھائو اور مختلف مقامات کے حساب سے بڑھتا گھٹتارہتاہے۔ البتہ محاوراتی اور تشبیہاتی سایوں کی قسمیں ضرور ہوتی ہیں۔ فی الوقت ہم سایوں کی دوبڑی قسموں کی بات کرتے ہیں۔ برکتوں اور رحمتوں والے سائے اورخوف اور وحشت والے سائے۔
ماں باپ اور بزرگوں کے سائے برکتوں اور رحمتوں والے ہوتے ہیں جبکہ ظالموں بدمعاشوں، چوروں، ڈاکوئوں اور دہشتگردوں کے طرح عذاب لانے والے سائے خوف اور وحشتوں کے سائے ہوتے ہیں۔ ایک زندگی کی علامت کے سائے ہوتے ہیں اور دوسرے موت کی علامت کے۔ ایک طرح کے سایوں کے لئے لوگ دعائیں مانگتے ہیں اور دوسری قسم کے سایوں سے پنا ہ مانگی جاتی ہے ایک قسم کے سائے لوگوں کو انسان بناتے ہیں اور دوسری قسم کے سائے جانور بنادیتے ہیں۔
ایک قسم کے سائے محبتیں اجاگر کرتے ہیں اور دوسری قسم کے سائے نفرتوں کے انبارلگادیتے ہیں امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہمارے بنکروں کوہاتھوں ہاتھ لیتے تھے، ہمارے ڈاکڑوں اور انجینئر وں کی دنیا بھر میں مانگ تھی، بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کے اندر بھی پاکستان کے ماہریں کا نام تھا۔ پھر وہ کون سے آسیب کا سایہ تھا جس نے ہمارے سفر کو روک دیا؟ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جس کا دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا بے نام ونشان ہوکر رہ گئی۔ اس ٹیکسٹائیل سیکٹر کا پاکستانی سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ملیں لگانے لگا۔
بنگلہ دیش او ر سری لنکا کے ٹیکسٹائل سیکٹر نے اس موقع سے اتنافائدہ اٹھایاکہ نئی نئی مشینوں کے حصول اورجدت او ر مہارت میں اسقدرآگے بڑھ گئے کہ پاکستان نے جب تین سال پہلے دوبارہ تازہ ہوا کے ساتھ صنعتی سفر شروع کیا تو بنگلہ دیش اور سر ی لنکا کے مل مینجروں کی خدمات لینا شروع کردیں تاکہ اپنے کارخانوں کو جدیدترین اصولوں اورماہرانہ بنیادوں پر چلا یا جاسکے۔ پاکستان کے کارخانوں میں اپنے جیسے ان ملکوں کے مینجروں کی بڑی تعداد میں درآمد اسی ضرورت کی عکاس ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان ملکوں کے ہنر مند اور ماہرین استعداد کار، پیشہ وارانہ مہارت اور سب سے بڑھکر خلوص نیت میں امریکہ اور مغربی ترقی یافتہ ممالک کے ہنر مندوں سے کسی طور کم نہیں۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش میں پروڈکشن سائنسی بنیادوں پر ہورہی ہے جس کے باعث سیالکوٹ میں بھی فیکٹریوں کے اندر ناصرف بنگلہ دیش اور سری لنکا بلکہ کوریا اور جاپان سے بھی ماہرین بلائے گئے تاکہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کیا جاسکے بہت سارے لوگ نہیں جانتے کہ امریکہ اور یورپ کے گاہک ہر روز سیالکوٹ کی کسی نا کسی فیکٹری کے اندر آتے رہتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے برانڈ ز سیالکوٹ سے اپنی پروڈکشن کراتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ صنعتی قوانین کی پابندیوں کے عادی ہوتے ہیں اس لئے مقامی سطح پربھی وہ ان قانونی پابندیوں کو نافذ کراتے ہیں جو اکثر اوقات ہمارے کارکنوں کوہضم نہیں ہوتیں۔
صنعتی روایات بالکل مختلف ہیں۔ مزدوروں سے لے کر مالکوں تک مختلف ہیں۔ کوریا میں جو شخص سب سے پہلے فیکٹر ی میں داخل ہوتاہے اور سب سے آخر میں نکلتا ہے وہ فیکٹری کامالک ہوتاہے۔" وہ کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہے" یہی آسیب کا سایہ ہمارے دفتروں پر بھی منڈلاتارہتاہے۔ ہسپتالوں، تھانہ، کچہریوں اور ہر اُس چاردیواری کے اوپر منڈلاتا رہتاہے جس کے اندر دوطرح کے لوگ کام کرتے ہیں یا کام سے آتے ہیں۔ بااختیارلوگ اور مجبورلوگ۔ بااختیار لوگ بہت کم اوراورمجبور لوگ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
پاکستان ایسی ہی چاردیواریوں کا مجموعہ ہے جس پر طرح طرح ناانصافیوں، ظلم وزیادتیوں، رشوتوں، سفارشوں، لوٹ مار اور ذاتی مفاد ات کے سائے گذشتہ کئی دہائیوں سے منڈلارہے ہیں۔ یہی وہ سائے ہیں جن کے تحت ذاتی مفادات کے لئے حرکتیں تیزتراورقومی مفادات کاسفرآہستہ آہستہ طے ہورہاہے۔ دنیا کے کسی اورملک اورقوم پر ایسے سائے نہیں منڈ لاتے جیسے سائے مملکت خداد اد پاکستان پرمنڈ لاتے ہیں۔ کیسے؟ دنیا کے دیگر ممالک پربیرونی خطرات کے سائے منڈلاتے ہیں۔ جبکہ ہم پر ہمارے اپنے شرم ناک اعمال کے تباہ کن سائے منڈ لاتے ہیں۔
اللہ فرماتاہے " احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں " اور ہم احسان کرنے والے کو سینے سے لگانے کی بجائے اسے اجتماعی طور مارنے کے بعد جلاکر راکھ کردیتے ہیں۔ پھر شرمندہ ہونے کے بجائے اتراتے ہیں کہ ہم نے یہ سب کچھ اُس رسول پاک ؐ کے نام پر کیا جس نے اپنے پر کوڑا پھینکنے والی عورت کی بیمار پرسی کرکے بتا دیا تھا کہ آپؐ کی رحمت کا سایہ سب کے لئے ہے۔
جو قوم دن رات سایہ خدائے ذولجلال میں رہنے کادعویٰ کرتی ہے، اسے شیطان الرجیم کے طرح طرح کے رسوا کن سایوں کے نیچے سے نکل جانا چاہئے۔