رشوت کی حقیقت
ہرسماجی برائی یا اچھائی اپنے معاشرتی پس منظر کے علاوہ اپنی علیحدہ سے ایک حقیقت بھی رکھتی ہے۔ اس بات کو سمجھنا اسلئے ضروری کہ ایک معاشرے کی بعض اچھی باتیں کسی دوسرے معاشرے کے لئے بری باتیں ہوتی ہیں اور اسی طرح کسی سماج کی کوئی بری بات بھی کسی دوسرے سماج کے لئے اچھی بات ہوسکتی ہے۔ کسی قوم یا ملک کے ہیرو بعض اوقات کسی دوسری قوم یا ملک کے ولن بھی ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ساری اچھی باتیں یا ساری بُری باتیں ضروری نہیں کہ سارے لوگوں کیلئے اچھی یا بری ہوں۔
جمہوریت کا پرچارکرنے والے ممالک اور قومیں غیر جمہوری ملکوں کی اچھائیوں کو بھی تسلیم نہیں کرتیں اور اسی طرح غیر جمہوری ممالک اپنے نظام کی کامیابیوں کے باعث جمہوری ممالک کی اچھائیوں کو بھی ایک پراپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے حکومتوں کے ایک دوسرے سے مختلف سیاسی اور سماجی نظام ان کی اقدار کو بھی ایک دوسرے کی اقدار سے متصادم کردیتے ہیں۔ ان مختلف نقطہ ہائے نظر کاسب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ لوگوں کی اکثریت اچھائی یابرائی کی حقیقت کو جانے بغیر چیزوں کواچھایا بُرا سمجھنے لگ جاتی ہے۔
نتیجے کے طور پر وہ زندگی بھر کسی اچھائی یا برائی کی حقیقت نہیں جان پاتے۔ زندگی بھر ایک دوسرے سے اُن وجوہات کی بنا پرمحبت اور نفرت کرتے ہیں جن کی کوئی واضح اور ناقابل تردید بنیاد ہی نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ کسی ایک اچھائی یا برائی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس معاملے کا تعلق کئی طرح کی اچھائیوں اور برائیوں سے استوار رہتاہے۔ ان بہت سارے معاملات میں سے آج ہم رشوت کے حوالے سے بات کرتے ہیں جس نے ہمارے ملک، معاشرے کو پست ترین درجے تک پہنچا دیاہے!
آگے بڑھنے سے پہلے ہم رشوت کے عام فہم معنی کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کسی معاشرے کی عمیق ترین پستی رشوت کیسے ایک ناقابل قبول برائی سے ناقابل مذمت اورپھر اس سے بھی آگے بڑھ کر قابل ستائش ہوکر بلند ترین درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ رشوت کا مطلب کسی عہدے داریاسرکاری اہلکار کوکوئی منفعت دیکر اس سے وہ فوائد حاصل کرنا جس کارشوت دینے والا اہل نا ہو اورلینے والا اپنے فرائض منصبی اس رشوت کے عوض بجا لانے میں ناکام رہے۔ یعنی رشوت کا عمل بجا لانے میں دو کردار ہوتے ہیں۔
ایک رشوت لینے والا اور دوسرا رشوت دینے والا۔ ان میں سے اگر ایک کردار بھی نکل جائے تو رشوت کا عمل انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ جس طرح شادی اکیلے آدمی کاکام نہیں اس طرح رشوت بھی اکیلے آدمی کاکام نہیں ہوتا۔ یعنی یہ ایک ایسافعل ہے جو ایک دوسرے کی مرضی اور رضا مندی کے بغیر بالکل بھی انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اب اس مرحلے سے بھی آگے بڑھ کرجاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جن کے لئے رشوت برائی نہیں بلکہ اچھائی کا فعل بن جاتی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکاہے کہ مختلف معاشروں کی اقدار اچھائیوں اوربرائیوں کا تعین کرتی ہیں۔ میرے بچپن کے زمانے میں اقدار کا یہ عالم تھا کہ جس گھر میں رشوت کی کمائی آتی تھی اُس گھر کے بچوں کے ساتھ مجھ سمیت محلے کے دیگر گھروں کے بچوں کوبھی کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ پچاس ساٹھ برسوں میں اقدار نے اس طرح پلٹا کھا یا کہ اب جن بچوں کے گھروں میں رشوت اور بدعنوانیوں سے حاصل کردہ بے شمار پیسہ آتا ہے ان گھروں کے بچے ایسے گھروں کے بچوں کے ساتھ میل جول بالکل پسند نہیں کرتے جو رشوت کی "نعمتوں " اور " برکتوں " سے محروم ہوں۔
زندگی میں جو آسائش اور آرام رشوت کی کمائی سے حاصل ہوتاہے۔ اس طرح کا عیش وآرام ان گھروں کو کہاں میسر ہوتاہے جہاں رشوت کی کمائی کو اچھا نہ سمجھاجاتاہو۔ یہ ہم سب کا روزمرہ کا مشاہدہ ہے اس اتارچڑھائونے ہمارے معاشرے کو اس حد تک متاثر کردیاہے کہ رشوت خوروں نے اب ملک اور قوم کی رہنمائی کا بلند مقام تک حاصل کرلیا ہے۔ لوگ رشوت خوروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
ایسے چوروں اور لٹیروں پر آتے جاتے پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور بڑے بڑے دانشور اور لکھاری اُن کی ناسمجھ میں آنے والی عظمتوں کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ لوگ رشوت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ لوگ رشوت کے ظاہر ی ثمرات ضرور دیکھتے ہیں لیکن اس سے وابستہ سزائوں اور عذاب سے واقف نہیں ہوتے۔
رشوت کا ماخذ کیاہے؟ رشوت کا ماخذ سرمایہ دارانہ نظام اوراس کے لوازمات ہیں۔ رشوت کے جتنے مواقع سرمایہ دارانہ نظام فراہم کرتاہے اُتنے مواقع کوئی اور نظام فراہم نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کلیدی حیثیت کسی اور چیزکے مقابلے میں سرمایہ یادولت کو حاصل ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام چلتاہی سرمائے کی ریل پیل پر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نفع نقصان کا مطلب دولت کی زیادتی یا کمی ہوتاہے۔
دولت خریدوفروخت سے گھٹتی یا بڑھتی ہے۔ اس طرح کے نظام میں ہر بات اور ہرچیز کی قیمت لگ جاتی ہے، یعنی ہر چیز اپنی مالی افادیت سے پہچانی جاتی ہے۔ محنت، تعلیم، صحت، تربیت، جسم، دل دماغ، عقل وفراست، نظریات وخیالات، دوستیاں، دشمنیاں اور وفاداریاں سب باتیں قابل فروخت ہوجاتی ہیں۔ اس نظام میں اولاد سے والدین کی محبت تک نفع نقصان سے متعین ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا ماخذ کیاہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کیا ہوتاہے؟ یہ وہ سیاسی اور اقتصادی نظام ہوتاہے جس میں کسی ملک کی صنعت وتجارت کی باگ ڈور حکومت کی بجائے اُن کی ملکیت انفرادی مالکان کے پاس ہوتی ہے۔ بازار میں قیمتوں کا تعین اُن پر لاگت کے تخمینے کے علاوہ اس پر منافع کی شرح کے حساب سے ہوتاہے۔ اپنے آخری تجزئیے کے لحاظ سے ہر چیز اور بات کے ماپنے کاپیمانہ دولت ہی کاحصول قرار پاتاہے۔
ان بنیادی باتوں کے سمجھنے کے بعد ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں رشوت کی ظاہری افادیت اور اہمیت روزروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ اس اہمیت کوقابل قبول بنانے کے لئے جدید معاشیات میں اسے کمیشن کا نیانام دیا گیاہے۔ اس نئے نام نے بین الاقوامی تجارت میں حکومتی سطح تک خریدوفروخت میں ایک ایسی ناقابل تردید اہمیت اختیار کرلی ہے کہ اسے باہمی تجارتی معاہدوں میں بھی درج کیا جانے لگا ہے۔ کمیشن کے حصول کو عار نہیں سمجھاجاتا کیونکہ اب اسے بین الاقوامی کاروبار کا حصہ بناد یا گیا ہے۔
یہاں اسے کثیر الملکی کمپنیوں کی کاروباری کشش کا ایک حربہ سمجھا جائے یا کوئی اورنام دیا جائے، درحقیقت یہ رشوت ہی ہے۔ اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے یہ رشوت ہی رہے گی "پیار کو پیار ہی رہنے دو کوئی نام نا دو" اگر یہ سب کچھ رشوت ہی ہیتو پھر اس رشوت کی حقیقت کیا ہے؟ آدمی کسی بھی زاوئیے سے اُسے دیکھے یا پرکھے تواس پر آشکارا ہوگا کہ رشوت اپنی حقیقت میں ظلم ہوتی ہے اس کا لینے اور دینے والا دونوں ظالم ہوتے ہیں۔
رشوت اس لئے ظلم ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی دوسرے کا حق مارنے کے لئے دی یا لی جاتی ہے، رشوت کے ذریعے مستحق کا استحقاق اس سے چھین کر کسی دوسرے کو دینا صریحاً ظلم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کُوفے میں وارد ہوتے وقت چوتھے خلیفہ نے فرمایا "اے لوگو اگر کُو فے سے جاتے وقت تم میرے پاس اس سواری، تلوار اور لباس سے کچھ زیادہ دیکھو توسمجھ لینا میں نے تم میں سے کسی کا حق چھینا ہے"۔ یہی وجہ ہے کہ رحمتؐ العالمین نے فرمایا " رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں " اس لئے کہ خدائے رحمان ورحیم کی سلطنت میں بدترین گناہ ظلم ہے۔
تبھی تو فرمایا گیا ہے کہ "کفرکی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں "۔