گریبان میں جھانکنے کی جرات
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جرات کسے کہتے ہیں؟ جنگی محاذوں پرغیرمعمولی بہادری کے جوہر دکھانے والوں کو ستارہ جرات سے نوازا جاتاہے۔ ستارہ جرات غازیوں کو ملتا ہے۔ غیر معمولی جرات اور بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے محاذ جنگ پر شہادت پاجانے والے کو نشان حیدر ملتا ہے۔ جرات کا مظاہرہ محاذجنگ پر دشمن کے ساتھ مقابلے تک ہی محدودنہیں ہوتا جرات کا مظاہرہ ہر طرح کے دشمنوں کے ساتھ زندگی کے ہرموڑ پر اور مختلف اوقات میں لوگوں کو کرنا پڑتاہے۔ ایک فوجی کو اگر ملک کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ دشمن باہر کا ہے یا اندر کا اپنا یا پرایا۔ کیوں؟ اسلئے کہ دشمن دشمن ہوتاہے۔
دشمن بننے کے لئے کسی بھی قسم کی تخصیص کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بھی ملکی اور قومی مفادات کیخلاف اقدام کرتاہوا پایا جائے وہ دشمن تصور کیا جائے گا۔ جو شخص اپنے ہی ملک اورقوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں دانستہ یا نادانستہ مصروف ہو، وہ بلاشبہ ننگ ملت، ننگ دین اور ننگ وطن کہلائے گا۔ شروع دن سے لوگ اپنی د شمنیوں کو قابل قبول بنانے اور جواز فراہم کرنے کے لئے مختلف قسم کے خوشنما نعروں اور اعلانات کا سہارا لیتے رہے ہیں تاکہ ان کے اصلی چہرے چھپے رہیں۔ یہ طریقہ کار کسی ایک ملک یا قوم کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک او ر قوموں میں دوستیاں تو چہروں پر نقاب ڈالے بغیرنبھائی جاتی ہے لیکن دشمنیاں ہمیشہ چہروں پرنقاب اوڑھ کر ہی کی جاتی ہیں۔
جوشخص میدان میں کھڑے ہوکر اپنی پوری پہچان کے ساتھ دشمن کو ببانگ دہل للکارے درحقیقت وہی جراتمند ہوتاہے۔ اسکے علاوہ دشمنی کرنیوالا، منافق توہوسکتاہے بہادر اورجراتمند ہرگزنہیں۔ جرات کی بات میں اس معاشرہ میں کررہاہوں جس میں ایک شوہر چاہتے ہوئے بھی اپنے بیوی بچوں تک کو جرات نہیں دکھاسکتا۔ ایک بیچارہ عام سا مسلمان جتنا بیوی سے ڈرتاہے اس کا آدھا بھی اگر اللہ سے ڈرنا شروع کردے تو پاکستان کے سارے دلدر دُور ہوسکتے ہیں۔
جرات ایک وصف ہے۔ ایک ایسا وصف جو آفاقی ہے۔ دنیا میں کوئی قوم اور ملک جرات کو ایک بہترین انسانی وصف سمجھے بغیر نہیں ملے گا۔ کیوں؟ اسلئے کہ جرات سچائی سے جنم لیتی ہے۔ جرات کا ماخذ روشنی ہے۔ سچائی بھی ایک روشنی ہی ہوتی ہے۔ جھوٹ اور تاریکی کئی کئی قسموں کی ہوتی ہے اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ تاریکیوں کو چھوڑ کر روشنی کی طرف آئو۔ جھوٹ کو چھوڑ کر سچائی کی طرف آئو جھوٹے پر اللہ نے قرآن میں لعنت کی ہے جس پراللہ لعنت کرے وہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ظالم پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ منافق پر اللہ نے لعنت کی ہے اسی لئے ظالم بادشا ہ کے سامنے کلمہ حق کہناجہاد بتایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کوئی انتہائی جرّی سچا اور نیک ہی کلمہ حق بغیر کسی طمع وخوف کے ادا کرنے کی جرات کرسکتاہے۔ جس شخص میں جرات ختم ہوجائے وہ پنک پانک کا بال بن جاتاہے جو میز پر کھیلی جاتی ہے ایک ٹھپہ لگے تواُدھر چلا جاتاہے اور دوسرے ٹھپے سے اُدھر سے واپس اِدھر آجا تاہے۔
ایسا شخص اپنی شناخت کھودیتاہے دوسروں کے تھپیڑوں پرہی اِدھر سے اُدھر ہوتارہتاہے۔ جرات آدمی کو پہاڑ بنا دیتی ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں " سنگ بجائے خود سنگین است" یعنی پتھر اپنی جگہ پر جمارہتاہے۔ جرات آدمی کو ہلا نہیں سکتی۔ اُسے ہلانے والے خود ہل کر رہ جاتے ہیں جراتمند صر ف افراد ہی نہیں ہوتے قومیں بھی ہوتی ہیں اور ملک بھی۔ جس طرح جھوٹے صرف لوگ ہی نہیں ہوتے قومیں اور ملک بھی ہوتے ہیں۔ اکیسیویں صدی کے تیسر ے عشرے میں ایک بھوکی ننگی اور چاروں طرف سے دھتکاری ہوئی قوم نے صرف اپنے روشن ذہن ودماغ اور ازلی سچائی کی بنیادپر وہ جرات دکھائی جس نے جدید دور کے قیصر وقصریٰ کو پاش پاش کردیا۔ طالبان کی فتح کے بعد لوگوں کو اقبال کے اس مصرعے کی پوری طرح سمجھ آئی کہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی
اللہ نے تو نشانیاں کھول کھول کر سامنے رکھی ہوئی ہیں لیکن ان نشانیوں کا ادراک وہی کرتاہے جو ان نشانیوں کے دکھانے والے غیب پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ جو اللہ کی بجائے اسلحہ، گولہ بارود اور تیغ وتفنگ پر یقین رکھتا ہے وہ درحقیقت اُس روشنی اور سچائی سے محروم رہتاہے جو آدمی کو جرات اور بے باکی عطا کرتی ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جرات اور بے باکی بھی بھیس بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے۔ شیطان کے تابع جرات اور بے باکیاں بھی میدان عمل میں جگہ جگہ موقع محل کے مطابق کارفرمانظر آتی ہیں۔ اکثر لوگ ان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور زندگیا ںبرباد کربیٹھتے ہیں۔ سب کچھ دائو پر لگا دینے کے باوجودکچھ بھی وصول نہیں کرپاتے۔ خود بھی رُل جاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں، مداحوں، دوستوں اور پیروکاروں کو بھی رُول کے رکھ دیتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھنے کے لئے ایک واقعہ کا سہارا لینا ضروری ہے۔ کسی محلے میں ایک بدمعاش مشہور تھا جس سے لوگ ڈرتے تھے۔ سارا محلہ اس کے خوف میں مبتلا تھا کیونکہ اس کے ظلم وزیادتیوں کے آگے سبھی بے بس تھے۔ وہ کسی بھی وقت کسی کی پگڑی اچھال دیتا اور رسواء کردیتا تھا جس کے باعث اہل محلہ ہمہ وقت سہمے سہمے رہتے۔ اِس سب کے باوجود اُس بدمعاش کے بارے میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ وہ اس قدر ظالم تھا کہ اپنی بہنوں سے پیشہ کراتا تھا۔ اس کا نام سنتے ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔
اللہ کا کرناکیا ہوا کہ ایک نوجوان نے اس محلے میں کرائے پر گھر لے لیا۔ آس پاس کے لوگوں نے اسے تنبیہ کی کہ محلے کے اُس بدمعاش سے بچ کر رہنا جس سے پورامحلہ تنگ تھا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کسی میں بھی نہیں تھی۔ نوجوان نے محلے میں رہنا شروع کردیا۔ ایک دن وہ نوجوان سر جھکائے اپنے راستے پر چل رہا تھا کہ کسی نے اُسے کہنی مار کر کہا کہ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے اور یہ کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا۔ نوجوان بولا بھئی آپ کون ہیں؟ وہ بولا کیا تم مجھے نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ میں اس علاقے کا بدمعاش ہوں۔
میری مرضی کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔ نوجوان کو لوگوں کی تنبیہہ کے ساتھ ساتھ وہ بات بھی یاد آگئی کہ یہ بدمعاش بہنوں سے پیشہ بھی کراتاہے۔ اُس نے تنک کرکہا "اچھا توتم وہ بدمعاش ہو جو بہنوں سے پیشہ کراکے ان کی کمائی کھاتاہے؟ تمہاری بدمعاشی بھلا کیا بدمعاشی ہے؟ " یہ جواب سن کر وہ بدمعاش بولا "یہ کون سا آسان کام ہے۔ تم میں جرات ہے تو تم کرلو"؟ بالکل صحیح کہا اُس بدمعاش نے۔ بے شرم، بے غیرت اوربے حیاء بننا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتاہر آدمی چور اچکا اور بدمعاش نہیں بن سکتا۔ اس کے لئے بھی انتہائی جرات ہمت اور حوصلہ درکار ہوتاہے۔
اب یہ آدمی پرمنحصر ہے کہ اسے شیطانی جرات اور بے باکی چاہئے یا رحمانی عزم وہمت اور جرات۔ اس کا تعلق گریبان میں جھانکنے کی جرات پرمنحصر ہے۔