فرعونیت کیا ہے؟
فرعونیت کا مطلب تکبر، بڑائی، غرور اور سرکشی بتائے گئے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے فرعون حضرت موسیٰ ؑ کے دور پیغمبری میں خدائی کا دعویٰ کرنے والا ایک بادشاہ تھا۔ فرعونیت کا لفظ اب اس کے حوالے سے زبان زد خاص وعام ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی اس نام سے اُسی طرح واقف ہیں جس طرح قرآن، انجیل اور تورات پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔
بادشاہوں میں جو مقام واہمیت تاریخی طورپر فرعون کو حاصل ہوئی ہے وہ عالمی سطح پر جانے جانے والے دیگر مشہور ومعروف بادشاہو ں جیسے نمرود، سکندراعظم، چنگیزخان، اکبر اعظم وغیرہ کو حاصل نہیں ہوسکی۔ جن بادشاہوں کے نام درج کئے گئے ان میں سے نمرود کے علاوہ کسی نے خدا ہونے کو دعویٰ نہیں کیا۔ نمرود اور فرعون برائی میں ابلیس سے بھی آگے مانے گئے ہیں کیونکہ ابلیس اللہ کا نافرمان ہے انکا ری نہیں۔ فرعونیت ابلیسیت سے اس لئے بدتر ہے کہ وہ اللہ کے انکار کے ساتھ ساتھ خود کو خدا منوانے پر بھی مصر ہے۔
فرعونیت ایک ایسی برائی ہے جسے سب لوگ برائی سمجھنے کو باوجود اس کا مرتکب ہونے پر حسب موقع اور حسب ضرورت کبھی دیر نہیں لگاتے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کو جان لینا ضروری ہے کہ فرعونیت کے لئے کسی قوم یا ملک کی بادشاہت ضروری نہیں ہوتی۔ آدمی اپنی کسی بھی حالت میں فرعون ہو سکتاہے۔ فرعون صرف بااقتدار شخص ہی نہیں بنتا بلکہ ہر بااختیار شخص فرعون بننے میں دیر نہیں لگاتا لیکن جسے اللہ بچائے وہ بچ جاتاہے۔ ہر بااختیار شخص فرعون نہیں بنتا لیکن یہ حقیقت ہے اور ایک عام مشاہدہ ہے کہ بااختیار لوگوں کی واضح اکثریت اپنی کسی بھی حیثیت میں فرعون بن کر دکھاتی ضرور ہے ہے۔
عام فہم الفاظ میں فرعون وہ ہوتاہے۔ جو اپنے احساس برتری کے باعث کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ جو چاہتاہے کہ ہر کام اُس کی مرضی کے مطابق اور خواہش کی تکمیل میں ہو۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ وہ صر ف حکم دے سکتاہے حکم مان نہیں سکتا۔ لوگ اسکے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کی زندگی، رزق اور ہرطرح کی ملکیت اس کی ذات کی کی مرہون منت ہے۔ دوسرے لفظوں میں سارے لوگ اسکے غلام ہیں اور وہ اُن کا آقا۔ اس قسم کی ذہنی کیفیتوں کا مالک فرعون کہلاتاہے۔ شیطان نے تو سجدے سے انکار کے بعد بھی اللہ کی عزت کی قسم کھائی تھی کیونکہ وہ اللہ کو اللہ مان رہا تھا جبکہ فرعون نے کسی کی عزت کی قسم نہیں کھائی کیونکہ وہ فرعون اپنے علاوہ کسی کو عزت دار سمجھتا ہی نہیں تھا۔
کون لوگ فرعون ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے پہلے چند ملتے جلتے سوالوں کا جواب دینا ضرروی ہوگا۔ کیا ایک ناخلف، نافرمان اور گستاخ بٹیا فرعون نہیں ہوتا؟ کیا ایک ظالم وجابر اور اولاد کی زندگی اجیرن کردینے والا باپ فرعون نہیں ہوتا؟ کیا جائیداد میں بہنوں بھائیوں کا وارثتی حق مارنے والا فرعون نہیں ہوتا؟ کیا دفتروں میں ماتحتوں کو بات بات پر ذلیل کرنے و الا افسر فرعون نہیں ہوتا؟ کیا مدرسے میں بچوں کو ظلم وزیادتیوں کے بعد مار مار کر ادھ موا کردینے والااُستاد فرعون نہیں ہوتا؟ کیا رقمیں بٹورنے والا لکھاری اور دن رات کے بحث مباحثوں میں غلط بیانیاں بیچنے والا تجزیہ کار فرعون نہیں ہوتا؟ کون سا ایسا رشتہ ہے جس پر معاشرتی ڈھانچہ استوار ہے اور وہ فرعونیت سے عاری ہے؟ کیا مختلف ذاتوں اور ان کے خود کو ایک دوسرے سے برتر قرار دینا، وڈیرہ پن، اور جاگیر داری کے زعم میں مبتلا ہونا فرعونیت نہیں ہے؟
اب آئیے متمدن اور مہذب دنیا کی طرف۔ کیا یوکرین پر حملہ آور ہونے کے بعد صرف روس ہی فرعونیت کی مثال رہ گیا ہے؟ کیا ہندوستا ن کی کشمیر پر فرعونیت، اسرائیل کی فلسطین پر فرعونیت اور امریکہ کی پوری دنیا پر فرعونیت کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟ کیا صرف کوئی آمرہی فرعون ہوتاہے؟ کیا ستائیس میں سے چھبیس شرائط پوری کرنے والا پاکستان اب بھی گرے لسٹ سے نکلنے کے قابل نہیں سمجھا گیا جبکہ اسی فیٹف کے ممبر ملکوں میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کی کارکردگی پاکستان سے بہت پیچھے ہے اس پر طرہ یہ کہ انہی ممالک کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو آئندہ جون تک فیٹف کی گرے لسٹ میں ہی رکھیں۔ فرعونیت اور کیا ہوتی ہے؟
جہاں جہاں آدمی مسلمہ ااصولوں کو پامال کرتاہے اور اپنی من مانی کرتاہے، وہاں وہاں وہ فرعونیت کا مرتکب ہوتاہے۔ معاشرتی علوم میں یہ ایک عام تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک آمر ہی فرعون ہوتاہے حالانکہ آج کی دنیا میں آمر فرعون کم اور آئینی اور جمہوری فرعون زیادہ ہیں، جن کی قیاد ت امریکن صدرکررہے ہیں۔ ہمارے ہاں کے بعض آئینی اور جمہوری حکمرانو ں کی فرعونیت پاکستان عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہاں پر ایک اور بات کا واضح کر دینا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ فرعون صرف امیر ہی نہیں ہوتا۔ غریب بھی فرعون ہوسکتاہے۔ میں نے مردے نہلانے والے ایک غسال کو مردہ نہلاتے ہوئے فرعونیت کا مرتکب ہوتے دیکھا ہے۔ یوکرین کی قیادت نے ثابت کردیا ہے کہ فرعونیت کیخلاف فرعونیت سے مدد مانگنا کسقدر مضحکہ خیز اور تباہ کن ہوسکتاہے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی سے دُور رہنا چاہئے۔
فرعونیت ہر قسم کے ظلم وزیادتیوں کا مجموعہ ہوتی ہے اس کا کوئی پہلو بھی مثبت نہیں ہوتا۔ تاریخ کا ایک ایک ورق یہ بات ثابت کررہاہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرعونیت صرف انفرادی نہیں ہوتی۔ آج کل تو انفرادی فرعونیت کے مقابلے میں اجتماعی فرعونیت نے زیادہ زور پکڑ رکھا ہے۔ بچارہ یوکرین نیٹو اور یورپی یونین دونوں کی مشترکہ فرعونیت کا شکار ہے بھارت میں ہندوتوا کی اجتماعی فرعونیت نے ہٹلر کی نازی فرعونیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی گنتی کی فرعونیت نے علیحدہ سے ایک ادھم مچا رکھا ہے۔ اقوم متحدہ کا یہ گورکھ دھندہ اپنی تکذیب آپ کے حساب سے چل رہاہے۔ اس لئے کہ ایک سو اکتالیس ملکوں کے مقابلے میں پنتیس مخالف ووٹوں والے ملکوں کی مجموعی آبادی اُن سے زیادہ ہے کیونکہ ان میں چین، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی بڑی آبادیوں والے ملک شامل ہیں جبکہ خود روس نے اس قراد داد کو ویٹو کیا ہے۔
فرعونیت کیسے ختم ہوتی ہے؟ فرعونیت صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ غرق ہونے لگتی ہے۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ فرعون صرف اس وقت موسیٰ کے خدا پر ایمان لاتاہے جب فرعون غرق ہونے لگتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ فرعونیت آدمی کی سرشت میں داخل ہے۔ انسان بڑا بے صبرا بھی ہے اور ناشکر ا بھی۔ اقبال کے الفاظ میں
موسیٰؑ و فرعون شبیرؓ ویزید
ان دوقوت از حیات آیدپدید
زندہ حق از قوت شبیری ؓاست
باطل آ خرداغ حسرت میری است
یہ دوقوتیں ہمیشہ سے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہی ہیں اور اس وقت تک برسرپیکار رہ ہیں گی جب تک کہ فرعونیت غرق نہ ہو جائے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اپنے اندر فرعونیت کہاں کہاں گھر کئے ہوئے ہے۔ اگر ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔