بچوں کا مذاق
لوگ عام طور پر اپنے ہم عمروں، دوسروں کے خیالات، جذبات، احساسات یا نظریات وغیرہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ نوجوان بڑے بوڑھوں کا، مرد عورتوں کا اور عورتیں مردوں کا مذاق کرتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بظاہر بزرگ اور ذمہ دار لوگ بچوں کا مذاق اڑائیں۔ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن ان کا مذاق نہیں اڑایا جاتا۔ بچے اپنے ہوں، یا دشمن کے، ان کا مذاق نہیں اڑایا جاتا۔ سب سے زیادہ گھنائونا اور ناقابل جرم بچوں کا مذاق اڑانا ہے، ان کے حقوق اوران کی فلاح و بہبود کا مذاق اڑانا ہے۔ اس لیے کہ بچے معصوم اوربے قصور ہوتے ہیں۔ انہیں بڑوں کے گناہوں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ ان کے اندر بغض، حسد، نفرت، حقارت اور مذاق اڑانے کا مادہ بالکل بھی نہیں ہوتا۔
قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی موضوعات پرلکھنے سے پرہیز کرتا ہوں۔ میں لوگوں کی تقسیم کے بجائے اچھائی اور برائی کی تقسیم کا قائل ہوں۔ سچ اور جھوٹ کی تقسیم کا قائل ہوں۔ حق اور ناحق اور ظلم وز یادتی اور مساوات و بھائی چارے کی تقسیم کا قائل ہوں۔ اس لیے کہ اپنے پرائے کی تقسیم آدمی کو متنازع بنا دیتی ہے۔ بہترین تقسیم وہ ہے جسے اللہ نے روا ر کھی ہے۔ اللہ کے نزدیک علم والا اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ کو ایک اور لاشریک ماننے والا اور بہت سارے خدائوں کو ماننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی کو کسی پر کسی قسم کی برتری ہے تو وہ رنگ نسل زبان اور علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر حاصل ہے جو نیک ہے وہ برتر ہے جو اچھا ہے وہی افضل ہے۔
آج اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بھی پاکستان کے اندر نہ صرف بچوں کا بلکہ ان کے حقوق کا بھی مذاق اڑایا جارہا ہے۔ وہ حکومت ہے جو کشمیر جیسے بین الاقوامی تنازع کو زندہ کرنے والی، اسرائیل کو بے نقاب اور امریکہ جیسی سپر پاور کو آنکھیں دکھانے والی حکومت ہے، اسی حکومت میں بننے والے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن محترمہ تحسین افشاں باجوہ اور دیگر صوبائی ممبران سمیت کمیشن کے تمام ملازمین کو گزشتہ دو سالوں سے نوکر شاہی کی ریشہ دوانیوں اور مرکزی حکومت میں براجمان بعض وزراء کی بے حسی کے باعث ابھی تک کسی قسم کی کوئی تنخواہ نہیں مل سکی۔
کمیشن کی چیئرپرسن ہونے کے ناطے وہ تن تنہا بچوں کے حقوق کے علاوہ اپنے کمیشن کے حقوق کے لیے بھی لڑ رہی ہیں۔ وہ بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور اقدامات کرنے کے ساتھ ا پنے اور اپنے کمیشن کے تمام ملازمین کے حقوق کے لیے بھی لڑ رہی ہے۔ اپنے ذاتی تعلقات اور رکھ رکھائو کے باعث یونیسکو جیسے بین الاقوامی ادارے سے اپنے کمیشن کے لیے کچھ مالی فوائد حاصل کر کے اس مردے میں جان ڈالنے کے لیے کوشاں ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ شیریں مزاری کی جانب سے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس بے رحمانہ حقیقت کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ میں فنڈز کی موجودگی کے باوجود محض متعلقہ قوانین کی اب تک منظوری نہ ہونے کے باعث حقوق اطفال کے تحفظ کے لیے قائل کردہ کمیشن کی کسمپرسی، بے چارگی اور لاچاری تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کا منہ چڑاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
مذاق اور کیا ہوتا ہے؟ مذاق صرف کسی بات یا شخص پر ہنسی اڑانے کا نام ہی نہیں ہے کسی پر احسان کر کے اسے جتانا بھی اس کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احسان جتانے سے احسان ضائع ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ نے احسان کا بدلہ صرف احسان رکھا ہے۔ اس کے علاوہ احسان کا کسی بھی قسم کا بدلہ احسان کا مذاق اڑانا ہی ہوگا۔ کسی فقیر کو دھتکارنا اس کی غربت کا مذاق اڑانا ہوتا ہے۔ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اس کی مجبوری کا مذاق اڑانے کے زمرے میں آتا ہے اس پس منظر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کیا قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کو گزشتہ دو سالوں سے تنخواہوں سے محروم ر کھنا جوبچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن وجود میں لایا گیا تھا کیا اس کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟ ہمارے ملک میں غریب بڑوں کا مذاق تو شروع دن سے اڑایا جاتا ہے لیکن بچوں کا مذاق وہ حکومت اڑا رہی ہے جو ہر ایک کے لیے انصاف کے نام پر منتخب ہو کر آتی ہے۔
وہ حکومت جس نے دنیا بھر میں ہر سطح پر بھارت اور امریکہ سمیت ا ٹھائے گئے طرح طرح کے غیر منصفانہ اقدامات پر بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے آواز بلند کی ہے۔ جو ریاست مدینہ کے فلاحی اقدامات نافذ کرنے کی خواہشمند ہے، جو ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کوشاں ہے اور اسی بنا پر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ ایسی حکومت اور ایسے بے داغ حکمران کے لیے یہ کتنے دکھ اور اضطراب کی بات ہو گی کہ اسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کا مذاق اڑانے کا طعنہ دیا جائے۔ بچے وہی کرتے ہیں جو ان کے بڑے کرتے ہیں۔ بچے صرف ماں باپ کے دین پر ہی نہیں چلتے ان کی دنیا پر بھی چلتے ہیں۔
بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے بڑوں کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب دروازہ پر دستک کے بعد وہ گھر میں موجود بچے کو کہتا ہے کہ کہہ دو ابا گھر پر نہیں ہے تو وہ بچے کی سمجھ اور کردار کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ یہی اولاد اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کرسکتی ہے اگر بڑے چاہتے ہیں کہ بچے بڑے ہو کر ان کا مذاق نہ اڑائیں تو آج سے اور اسی وقت والدین کو بچوں کا مذاق اڑانا بند کر دینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔
چوتھے خلیفہ فرماتے ہیں "لڑکیاں نیکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نعمتیں۔ نیکوں پر ثواب ملتا ہے اور نعمتوں کا حساب لیا جائے گا۔" اس عظیم تنبیہ کی روشنی میں والدین کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ بچوں کا کسی صورت مذاق نہ اڑائے۔ اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی گزشتہ دو سالوں کی تنخواہیں بلاکسی تاخیر فوراً جاری کرے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔