عقل کے قاتل
اُس واحد نعمت کا نام عقل ہے جو اللہ نے اپنی گوناگوں مخلوقات میں سے میں سے سوائے انسان کے کسی اور مخلوق کو عطانہیں کی۔ انسان کو عقل کی اس نعمت کے طفیل ہی مسجود ملائک کا درجہ عطا کرکے اشرف المخلوقات کے مرتبہ پر فائز کیا گیا۔ اللہ کی شان عجیب وغریب ہے کانٹوں کے نرغے میں گلاب کو پروان چڑھاتاہے۔ جوش ملیح آبادی کا ایک خو بصورت شعر ہے۔
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبز ہ زار کا
پالا ہوا ہے یہ بھی نسیم بہار کا
چمن صرف پھولو ں سے ہی آراستہ نہیں ہو تا۔ ا س میں ہری بھری اور خشک گھاس بھی ہو تی ہے۔ پتے جڑی بوٹیا ں پھوں سے لدی اورجھکی ٹہنیاں اور کیڑوں مکوڑوں سے لبریز درختوں کے سخت اورکرخت تنے بھی ہوتے ہیں خزاں آتی ہے تو سب پر آتی ہے اور بہار آتی ہے تو بھی سارے چمن پر آتی ہے تبھی تو شاعر کہتاہے۔
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں
میرا حق ہے فصلِ بہار پر
عقل گلاب کے اس پھول کے مانند ہے جو کانٹو ں میں گھرارہتاہے۔ پروردگار عالم نے انسان کو صرف عقل سے ہی نہیں نوازا۔ اُس کے اندر اللہ نے طرح طرح کے جذبات او ر احساسات بھی رکھے ہیں۔ ان میں حسد، بغض، عداوت، نفرت، محبت، حرص، غیبت، خلوص ومنافقت، سچ اور جھوٹ، خود پسندی اور ریاکاری اور صحیح اور غلط سب کچھ رکھا ہے یہ سارے جذبات اور احساسات عقل کو کانٹوں کی طرح گھیرے رہتے ہیں۔ کانٹوں کے ہاتھوں مقتول پھولو ں کا بہمانہ قتل روز مرہ کامشاہدہ ہے یہی حال عقل کی غارتگری کا ہے، عقل ہر آنگن میں قتل ہوتی ہے، ہردہلیز پر ماری جاتی ہے، ہر محلے میں موت کے گھاٹ اتاری جاتی ہے، کریہ کریہ، شہرشہر اور ملک ملک کچلی اور مسلی جاتی ہے۔ ہر قتل پر سزا موجود ہے۔ دیت کی صورت میں خون بہا کی رعایت موجود ہے لیکن عقل کے قتل کی کوئی سز ا نہیں۔ عقل کے قتل پر کہیں بھی کوئی نالہ وشیون نہیں ہو تا۔ بھانت بھانت کی بولیاں دن رات بک سکتی ہیں، نعرے اور منشور بک سکتے ہیں، فتوے او ر اعلانات بک سکتے ہیں، وعدے وعید، عتراضات، دوستیاں، دشمنیاں، قصے کہانیاں اورنجانے کیا کیا کھلے بندوں بکتارہتاہے لیکن اگرکوئی چیز جو بکنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی وہ اللہ کی دی ہوئی سب سے بڑی نعمت یہی عقل ہے۔ اسکی لوگوں کے نزدیک کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ عقل کے قاتلوں کی قیمتیں ہیں یعنی جھوٹی گواہی کی قیمت ہے، نفرت کی قیمت ہے، تعصب کی قیمت ہے، الزام کی قیمت ہے، بغض کی قیمت ہے، عداوت کی قیمت ہے، زبان کی قیمت ہے، نسل کی قیمت ہے، گائوں، گھوٹ اور تحصیل وضلع کی قیمت ہے۔ ہر چیز اور ہر با ت کی قیمت ہے۔
اگر کسی شئے کی قیمت نہیں ہے توبیچاری عقل کی قیمت نہیں ہےاب آپ کہیں گے بھئی جن ساری باتوں کی قیمتیں گنوائی گئی ہیں وہ سب کسی نا کسی کی عقل کے باعث ہی تو لگتی ہیں۔ عقل مند آدمی ہی تومنشور بنا سکتاہے اور نعرے ترتیب دے سکتاہے جنہیں پھر ایک منظم اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بیچا جاتاہے۔ فتوئے اور وعظ بیچنے والا بھی توعقلمند ہوتاہے، کبھی تحریر کا لکھاری بھی بے عقل سمجھا گیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں لکھاری کی عقل کو تو سراہا جاتا ہے بالکل اِسی طر ح مغرب کی اذان کے فوراً بعد ملک اور قوم کو راہ راست پر لانے کے لے روزانہ براہ راست مخاطب کرکے اپنے سونے چاندی میں پروئے جانے والے الفاظ سے ناظرین پر وجد طاری کرنے والا بے عقل نہیں بلکہ عقل کل سمجھا جاتا ہے بدنصیبوں اور بدبختوں کے منہ پر مارے جانے والے اکثر فیصلے عدل او رانصاف کے منہ پر طمانچہ ہونے کے باوجود نافذ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ کسی عقل سے عاری دماغ کی اختراع نہیں ہوتے۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی؟
اس گہری بات کو سمجھنے کے لئے ذرا گہرائی میں اترنا پڑے گا ذرا سوچنا پڑے گا اور غو ر کرنا ہو گا عقل کا خالق بھی ہم سے غور وفکر کا مطالبہ کرتاہے، ہر با ت پر غور وفکر کا مطالبہ کرتاہے، کائنات کی تخلیق او راُس میں جاری وساری نظام پر غور وفکر کامطالبہ کرتاہے، خود انسان کے وجود اور کائنات کے ساتھ اُس کے تعلق پر غور وفکر کا مطالبہ کرتاہے، دن اور رات کے مدوجز پر غور کرنے کا مطالبہ کرتاہے، تاریکیوں سے روشنی کی طرف آنے جانے پر غور وفکر کا تقاضہ کرتاہے، ایمان والوں کے ایمان اور مشرکوں کے کفر پر غور وخوض کرنے کا مطالبہ کرتاہے او رصحیح راستہ چننے اور غلط راستے سے دُو ر رہنے پر غور وفکر کرنے کامطالبہ کرتاہے کیوں؟ کیا جب آدمی ر استے سے بھٹک جاتاہے تو عقل سے عاری ہوتاہے؟ جس وقت ظلم کرتاہے کیا اُس وقت عقل سے خالی ہوتاہے؟ کیا اُسکی عقل اُس وقت چرنے چلی جاتی ہے جب و تکبر اور نخوت سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتاہے؟ نفرتو ںکے بیج بونے کے بعد اُسی سانس میں صفیں درست کرنے کی تلقین کرنے والا ہر گز بے عقل نہیں ہوتا۔ معلوم ہونا چاہئے کہ فساد پھیلانے والا بہت عقلمند ہوتاہے۔ شیطان کو بظاہر عقل نہیں دی گئی لیکن جو کھلی چھٹی اُسے قیامت کے دن تک دی گئی ہے وہ عقل پر بہت بھاری ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عقل ایک دودھاری تلوار ہے اگر ایک طرف قدرت نے عقل کو اچھے اور برے، حق وباطل، روشنی اور تاریکی، صحیح اور غلط جھوٹ او رسچ وغیرہ میں امتیازکر نے کی مکمل قوت عطا کررکھی ہے تو دوسری طرف اس امتیاز کو برتنے کا اختیا ر آدمی کی اُس طبیعت کو دے رکھا ہے جس کے اندر یہ عقل لاتعداد کانٹوں میں گھری رہتی ہے۔ اسد اللہ خان غالب فرماتے ہیں۔
جانتاہوں ثواب طاعت وزُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی