عجیب و غریب قوم
"آفندی کے مضامین" نامی کتاب میں اس عنوان سے جو مضمون آج سے تقریباًتیس برس پہلے شائع ہواتھا، اس کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرتاہوں تاکہ آج کے تناظر میں صورت حالات مزیدواضح ہوسکے۔
"موجودہ دورتعلیم کادور ہے اورساری دنیاسوائے اس عجیب وغریب قوم کے شرح تعلیم کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہے۔ بڑی بڑی غریب اورپسماندہ قومیں بھی جہالت کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں لیکن جس عجیب وغریب قوم کو میں جانتا ہوں وہ اپنی پیدائش کے دن سے لے کر اب تک اگر کسی میدان میں باقاعدہ طور پر کامیاب ہوئی ہے تو صرف تعلیم کے خلاف جنگ میں کامیاب ہوئی ہے۔ وہ واحد قوم ہے جس نے جہالت کو گلے سے لگارکھا ہے اور کسی قیمت پر عشق جہالت کی لذت کوگنوانانہیں چاہتی۔ علم سے اس قوم کو ایک خاص چڑ ہے۔ علم سے بے زاری اس کا شیوا ہے اور اسکول کھولنا ایک منافع بخش کاروبار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یوں لگتا ہے کہ ہر آدمی اپنی مرضی کی تعلیم جس قیمت پر چاہے حاصل کرسکتاہے کیونکہ ہر سند ہر جگہ مناسب داموں پر دستیاب ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ سولہ سالوں کی تعلیمی سند سولہ گھنٹوں میں خرید سکتاہے۔
"اگر دماغی صحت وتندروستی کے لئے حصول علم ضروری ہے تو جسمانی توانائی کے لئے کھیل کو د ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیسیویں صدی کے آغاز سے ہی کھیل کو تعلیم کا ایک باقاعدہ اور ضروری حصہ قرار دیا گیا۔ اب جہاں علم دشمنی ضابطہ حیات بن چکی ہو، وہا ں کھیل کود کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے؟ کیونکہ بین الالقوامی سطح پر گلی ڈنڈا اور بنٹے نہیں کھیلے جاتے بلکہ کھیل کھیلے جاتے ہیں ان کے لئے تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جو زیر بحث قوم کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اس عجیب وغریب قوم کے لئے کھیلوں کی اہمیت کو وہی مقام حاصل ہے جو تعلیم کو حاصل ہے۔
نتیجتا ہر سطح اور ہر مقام پر جس کے جی میں جو آئے کھیلنے لگ جاتاہے۔ جس کے باعث ہر چیز کھلونا بن کے رہ گئی ہے۔ اب ایک نیا کھلونا اس قوم کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے کلاشنکوف کہتے ہیں۔ اس کھیل کے مقابلے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑا مزہ آتا ہے۔ ہارنے والا بس ہار ہی جاتا ہے اور جیتنے والا اس وقت تک کھیلتا رہتاہے جب تک ہار نہیں جاتا۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ جن کھیلوں کی تربیتی سہولتیں تک میسرنا ہوں پھر اُن کھیلوں میں اس قوم کو بین الالقوامی سطح پر ناقابل شکست سمجھا جاتاہے۔ ایسی قوم کو عجیب وغریب نا کہاجائے تو کیا کہا جائے؟"
"بات سے بات نکلتی ہے اور پھر نکلتی چلی جاتی ہے۔ جس کاکہنا بھی غلط اور نا کہنا بھی مصیبت ہوتا ہے۔ چونکہ غلط ہونا مصیبت سے کم خطرناک ہوتاہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ آدمی با ت کرتا چلاجائے۔ مثلاً یہ کہ زیر تذکرہ قوم کے نزدیک رقص حرام ہے۔ موسیقی حرام۔ گویا گانا بجانا اورناچنابالکل حرام ہے۔ ان سب باتوں کو اس قوم کے "ماموں لوگ" بالکل حرام سمجھتے ہیں، لیکن اس قوم کو ہروقت نچاتے رہتے۔ ہر شخص محور قص ہے اور دوسروں کو نچارہا ہے۔ جو نچا نہیں سکتاوہ فی سبیل اللہ خود ناچ رہا ہے۔
اس قوم کے ہر طبقے کے افراد نے اپنا اپنا الگ راگ بنا رکھا ہے۔ جیسا کہ ہر راگ کی اپنی خاصیت ہوتی ہے جووقت اور مقام کے مطابق ہی اپنا اثر دکھا تی ہے، اسلئے بے شمار لوگ آپ کو موسیقی ترتیب دینے میں مصروف نظرآئیں گے۔ جو خود ساختہ راگوں کی بنیادپر ترتیب دی جاتی ہے۔ چونکہ رقص وموسیقی باجماعت حرام ہیں لہذا ناسمجھوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس کے باعث اندھوں میں کانے موسقیاروں کی دھنیں بہت مقبول ہیں۔ پوری قوم بس ایک دھن پر سوار ہے۔ جس کے باعث حاسد موسیقار اپنی اپنی لئے میں کچھ اس طرح کی شدت پیدا کردیتے ہیں جسے بناء رقص گایا نہیں جاسکتا۔ جس بات پر کھلکھلا کر ہنسی آتی ہے وہ یہ ہے کہ موسیقی کو بالکل حرام سمجھنے والی یہ قوم، دنیا بھر میں آلات موسیقی بنانے کی ماہر سمجھی جاتی ہے اور اسکے موسیقاروں نے مشرقی ہونے کے باوجود مغربی موسیقاروں سے اپنی عظمت منوا چھوڑی ہے"۔
"جس عجیب وغریب قوم کا میں ذکر کررہاہوں وہ مذہبی طور پر مسلمان ہے۔ اس بنا پر وہ ایک وہ ایک بہت بڑے ملک سے علیحدہ ہوگئی تھی کیونکہ علیحدگی میں ہی اُس کی بقا تھی۔ مختلف مذاہب کی تعلیمات سے واقف حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کی رُو سے نماز کو بڑی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دن میں پانچ مقررہ اوقات میں مسلمانوں کی باجماعت عبادت کو نماز کہتے ہیں۔ نماز کے اسی فلسفے کے حوالے سے مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کا کام لیا جاتاہے۔ گلیوں اور محلوں کے لوگ مختلف گھروں سے نکل نکل کر ایک امام کے پیچھے کھڑے ہوکر اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ساتھ ساتھ شانے جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ساتھ ساتھ ہی سجدے میں اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ ایک ہی آدمی کے بلانے پر اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ عبادت کی رسم اسقدر مربوط طریقے سے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ جس مقام پر یہ اٹھک بیٹھک مسلمان لوگ دن میں پانچ مرتبہ کرتے ہیں اُسے مسجد کہا جاتاہے۔ یہی جگہ مسلمانوں کو جوڑنے کی جگہ ہے۔
"اس عجیب وغریب قوم کو انگریزوں سے آزادی ملی تھی۔ چونکہ مغربی لوگ دشمن کو قتل کرنے کی بجائے اس کی طبیعت بدل دیتے ہیں اس لئے جاتے جاتے انگریز آقا اپنے کالے غلاموں کی طبیعت کچھ اس طرح بدل گئے کہ وہ مقامی مرد کو عورت تو نہ بنا سکے لیکن اسے مرد بھی نہ رہنے دیا۔ جو کرسیاں انگریزوں نے شہر شہر قریہ قریہ خالی چھوڑ ی تھیں۔ ان پر گندی گلیوں اور تاریک محلوں سے نکلے ہوئے بدبودار کالے انگریزوں نے اجلے اجلے سفید کپڑے پہن کر قبضہ جمالیا۔ انگریز جب کالا اورپھر غلام بھی ہو اور اس حالت میں کرسی پربیٹھ بھی جائے تو پھر وہ اُسے منڈی سمجھتا ہے اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ منڈی میں صرف سودا ہوتاہے۔ سودا یہ لوگ بڑی ایمانداری سے کرتے ہیں۔
"گذشتہ آقائوں کے احسان مند رہنے کے لئے اس قوم نے اپنی ایک زبان ہونے کے باوجودانگریزی زبان کو سرکاری اور قومی زبان کادرجہ دے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم کے لوگ اسی صدر اور وزیراعظم کو پسند کرتے ہیں جو اچھی انگریزی بولتا ہے خواہ ان کی سمجھ سے باہر ہو۔ اردو بولنے والے لیڈر کو اس قوم کے لوگ اپنی طرح گھٹیا سمجھتے ہیں۔ انگریزی زبان میں دی جانے والی گالیوں کو تبرکاً وصول کیا جاتا ہے تاکہ طوطا چشمی سے بچا جا سکے اور تابعداری اور احسانمندی پر حرف نا آنے پائے۔ اردو میڈیم کا پڑھا ہوا کلرک اورانگریزی میڈیم کا افسر بنتا ہے۔ حتیٰ کہ اردو زبان میں ایم اے پاس، بی اے تک ہی تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اسے باعث عزت سمجھنااپنے سابقہ آقائوں سے غداری ہوگی۔
اس انکشاف نے پوری دنیا کو پاگل کردیا ہے کہ یہ یہ عجیب وغریب قوم 8فروری 2024کو اچانک کیسے جڑگئی؟ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بات کا پتا اس عجیب وغریب قوم کو پاگل بنانے والوں کو اب بھی پتا نہیں چل سکا۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین۔