عادتوں کی گرفت
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہر آدمی کی اچھی یا بری چند ایسی عادتیں ہوتیں ہیں جو اسکی شخصیت کے دیگر پہلوئوں کو اوجھل کردیتی ہیں۔ مثلاً بہت سارے لوگ نشہ کرتے ہیں سگریٹ، پان، چرس، افیم، نسوار، شراب یا ہیروئین وغیرہ کا۔ ہر نشے کی اپنی خاصیت ہوتی ہے جو مختلف قسم کے اثرات پیدا کرتی ہے۔ کہتے ہیں چر س پینے والے کو ندی نالی دکھائی دیتی ہے اور افیم کھانے والے کو نالی دریا نظر آتا ہے جبکہ پان، سگریٹ، بیڑی او رگٹکا کھانے پینے سے آدمی ہوش وحواس میں بھی رہتاہے اور قابل برداشت بھی البتہ حفظان صحت کے تقاضوں کے مدنظر بیوی اور بچے دونوں سگریٹ کے دھوئیں اور پان کی پیک کو پسند نہیں کرتے۔ دونوں کے جواز اپنے اپنے ہوتے ہیں نشہ ایک عادت ہے ایک ایسی عادت جو آہستہ آہستہ پختہ ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات ا س حد تک پختہ ہوجاتی ہے کہ نشئی کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ جب کوئی عادت فطرت ثانیہ بن جائے تو آدمی کی پہچان بن جاتی ہے۔ عادت کا پہچان بن جانا صرف کئی قسم کے نشے تک ہی محدود نہیں ہو تا۔ دیگر بہت ساری عادتیں بھی آدمی کی پہچان بن جاتی ہیں۔ مثلاً جھوٹ بولنا بھی اگر حد سے بڑھ جائے تو آدمی جھوٹا مشہور ہوجاتاہے بعض لوگ آزارپسند ہوتے ہیں انھیں دوسروں کو تکلیف پہنچا کر تسکین ملتی ہے۔ ایسے لوگ اپنا سوروپے کا نقصان کرکے دوسرے کا دس روپے کا فائدہ روک کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسی عادت ہے جو لوگوں میں پائی جاتی ہے جس طرح بعض لوگ ضرورتاً نہیں بلکہ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں بالکل اسی طرح بعض لوگ کسی وجہ کے بغیر دوسروں پر ظلم وزیادتی کرکے خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ظلم وزیادتی کرنا اُن کی عادت سے بڑھ کر فطر ت بن جاتاہے۔
بعض لوگ ہمہ وقت لوگوں کی مدد کرنے پر آمادہ رہتے ہیں ان کی محفل میں کوئی اپنے کو کم تر یا حقیر محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ ہر ایک کی عزت احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص اپنی ضرورت کی غرض سے آئے تو اُسے اللہ کا کرم سمجھو کہ اُس نے تمہیں کسی کی ضرورت پوراکرنے کے قابل بنایا۔ مطلب یہ کہ آدمی اپنی اچھی یا بری عادتوں کی گرفت میں رہ کر پوری زندگی گزاردیتا اور نہیں سمجھ پاتا کہ اگراچھا کررہاہے تو کیوں کر اور اگر بُرا کررہاہے تو تب بھی کیونکر؟ لوگ اپنی عادتوں کے باعث ہی دوستیاں اور دشمنیاں پالتے اور نبھاتے بھی ہیں۔
عادتوں کا تعلق نا دین سے ہے نا مذہب سے، ناطبقاتی اُونچ نیچ سے اور ناہی علم ودانش یا جہالت سے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور کافر، امیر وغریب اور جاہل گنوار اور دانشور ایک ہی قسم کی عادتوں میں مبتلانظر آتے ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا اور کافر جھوٹ بولتاہے۔ امیر ظلم کرتاہے اور غریب ظلم نہیں کرتا، جاہل دغا دیتا ہے اور دانشور دھوکہ فریب نہیں دیتا۔ عادتوں کے لحاظ سے کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ عادتوں کا تعلق ناتو خاندانی قدروں اور مہذب روایات سے ہے اور ناہی اعلیٰ تعلیم وتربیت اور بہترین صلاحیتوں سے جوڑا جاسکتا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ جھوٹ کی کہیں بھی اور کبھی بھی پذیرائی نہیں ہوتی۔ ظلم کو کوئی بھی تسلیم نہیں کر تا، بزدلی پر کبھی بھی شاباش نہیں ملتی عادتوں کا تعلق عقیدے سے نہیں، خاندانی رسوم وروایات سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا اور ناہی کسی خطے یا علاقے قوم ملک او رمعاشرے میں اس کا ماخذ تلاش کیا جاسکتا ہے۔
تو پھر عادتیں کیسے جنم لیتی ہیں؟ عادت بنیادی طور پر کسی واضح اور فوری مقصد کے حصول کے لئے جنم لیتی ہے اور اکثر اوقات حصول مقصد کے بعد آہستہ آہستہ پختہ ہوجاتی ہے۔ مثلاً آدمی کسی غم یا الجھن سے فوری طو رپر نجات پانے کے لئے شراب پیتا ہے چونکہ زندگی بھر ایک کے بعد دوسرے غم او ردوسری الجھن کا شکار ہوتا ہے لیکن ان سے نجات کا دریافت کردہ ایک ہی طریقہ یعنی شراب یا کسی اور چیز کا نشہ اس کے اس عمل کو ایک باقاعدہ عادت میں تبدیل کردیتاہے۔ ایک مسلمان شرابی نشے میں غرق ہونے کے باوجودسور کا گوشت نہیں کھاتا کیونکہ وہ حرام ہے۔ اس کی یہ دلیل شراب کے سلسلے میں کام نہیں کرتی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عادت کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا عادتیں عقیدوں، رنگ ونسل کے پیمانوں اور قوم و وطن کے تقاضوں پر حاوی رہتی ہیں۔ جواری اپنے بیوی بچوں کو بھی دائو پر لگادیتا ہے۔ نشئی بیوی کے زیور اور وارثتی جائیدادوں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیتا ہے، ایک تماش بین سب کچھ دائو پر لگا دیتاہے لیکن تماش بینی کی عادت بد نہیں چھوڑتا۔
عادت اور فطرت میں کیا فرق ہے؟ فطرت ایک پیدائشی انداز ہے جبکہ عادت اپنا یا گیا انداز ہوتاہے۔ فطرت قدرت کی بنائی ہوئی ہوتی ہے جبکہ عادتیں آدمی خود بناتایا اپناتا ہے۔ آدمی کی فطرت میں قدرت نے آگے ہی آگے بڑھنا رکھا ہے جبکہ عادتیں اُسے پیچھے کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں۔ فطرت رحمان کا بندہ بناتی ہے اور عادت شیطان کا پجا ر ی۔ لوگ صر ف برے کام ہی عادتاً نہیں کرتے اچھے کام بھی عادتاً کرتے ہیں۔ بعض لو گ عادتاً نماز پڑھتے ہیں اسلئے کہ عرصہ دراز سے پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ کی رضا اور خوشنودگی کیلئے نہیں پڑ ھتے یہی وجہ ہے کہ شراب پی کر صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بہن بھائیوں کا حق مارکر اونچی آواز میں تلاوت کرتے ہیں۔ اپنی اولاد کو بقائم ہوش وحواس غلط راہ پر لگا کر خود صراطِ مستقیم پر رہنے کے زعم میں مبتلارہتے ہیں۔ پرائی بچیوں کی عزت اچھال کر اپنی مائوں بہنوں کو چار دیواری میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں یعنی ابلیس کو گلے لگا کر جنت میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اس بات کو قطعاً خاطر میں نہیں لا تے کہ اگر ایک طرف مسلمان پر اچھے کاموں کی تلقین فرض کی گئی ہے تو دوسری طرف برے کاموں سے روکنا بھی فرض کیا گیاہے۔ جب مسلمان اللہ ھما لبیک، اللہ ھما لبیک، کہتا ہوا حج پر جا تاہے تو اسکے لبیک کی سچائی کو جاننے اور پرکھنے کے لئے شیطان پر پتھرائو کی شر ط بھی عائد کی گئی ہے اس لئے کہ برائی سے اظہار نفرت کے بغیر اچھائی کااعلان بے سود رہتاہے۔
اس ساری گفتگو کا نیتجہ کیا برآمد ہوتا ہے؟ اس گفتگو کا بڑا واضح اور کارآمد نیتجہ یہ ہے کہ آدمی جو کام بھی کرے خلوص نیت اور عزم صمیم کے ساتھ کرے۔ جب آدمی اپنے کام خلوص نیت اور عزم صمیم کے ساتھ کرنے لگ جاتا ہے تو اسے پھر کسی اچھی یا بری عادت کی بیساکھی کی ضرورت ہی نہیں رہتی خلوص نیت اور عزم صمیم سے کیا گیا ہر کام دل اور دماغ کو ہر قسم کے رنج والم اور الجھنوں پر رونے پیٹنے کا وقت ہی نہیں دیتا اسے کسی بھی قسم کے نشے سے غم غلط کرنے کی ضرور ت ہی نہیں رہتی فارسی کے ایک شعر کا مطلب ہے۔
"اگر خدا رکھتے ہو تو غم سے آزاد ہوجائو
تھوڑے او ر زیادہ کی کشمکش سے آزاد ہوجائو"
عادتوں کا سہارا لینے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کافی ہے۔ عادتوں کی گرفت سے نکلنے کا یہی طریقہ ہے۔